سرحدی گاندھی سے فخر افغان تک کا سفر/ہارون وزیر

عبد الغفار خان المعروف بہ باچا خان کی شخصیت کے متعلق ہمارے ملک میں لوگ ہمیشہ دو انتہاؤں پر کھڑے ملیں گے۔ ایک کے نزدیک وہ مارٹن لوتھر کنگ اور نیلسن منڈیلا کے پائے کے لیڈر تھے اور کچھ کے نزدیک وہ غدار وطن تھے۔ ابھی پچھلے دنوں اعزاز سید نے باچا خان کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ باچا خان جناح سے بھی بڑے لیڈر تھے۔ یہ دونوں نقطہ ہائے نظر میری نظر میں مناسب نہیں ہیں۔ باچا خان اپنے وقت میں پشتونوں کے یقیناً سب سے بڑے لیڈر تھے لیکن قائداعظم کے ساتھ ان کا موازنہ کسی طور نہیں بنتا۔ قائداعظم کُل ہند سطح کے مسلمانوں کے بلا شک و شبہ و شرکت غیرے سب سے بڑے لیڈر تھے جو جب کانگریس میں تھے تب بھی کانگریس کے نمایاں ترین افراد میں سے ایک تھے۔ ہندوستان کے سب سے بڑے وکیل تھے۔ ہندوستان کیلئے قانون سازی میں ان کا حصّہ ناقابل فراموش ہے۔ اور جب 1937 میں کانگریس کی متعصبانہ طرز سیاست سے مایوس ہوئے تو انہوں نے مسلم لیگ کو فقط چند سالوں میں اس بلندی پر پہنچایا کہ پاکستان کے خواب کو حقیقت بنا کر دم لیا۔ مختصراً یہ کہ قائداعظم کی زندگی کامیابیوں سے عبارت تھی۔ انہوں نے جس کام میں بھی ہاتھ ڈالا، کامیابی نے ان کے قدم چومے۔ جبکہ باچا خان کی سیاست اور سیاسی قد کاٹھ فقط ایک صوبے تک محدود تھا اور اسی صوبے کے مرہون منت تھا۔ گاندھی جی اگر باچا خان کو اپنے ساتھ رکھتے تھے تو اس کی وجہ باچا خان کی سیاسی دانشمندی نہیں تھی بلکہ یہ تھا  کہ باچا خان جس سرحدی صوبے سے تعلق رکھتے تھے وہ کانگریس کی سیاست، ہندوستان کی سالمیت اور دفاع کیلئے بہت اہمیت رکھتا تھا۔

باچا خان کی سیاسی جدوجہد کو میں دو حصّوں میں تقسیم کرتا ہوں۔ ایک 1946 سے پہلے کی اور دوسری 1946 کے بعد کی۔ 1946 سے پہلے کی ان کی صوبہ سرحد کی سیاسی و سماجی جدوجہد یقیناً قابل رشک تھی۔ انہوں نے سیاست اور تعلیم سے نابلد لوگوں کیلئے بہت گراں قدر خدمات انجام دیں۔ برصغیر کی آزادی کیلئے انگریزوں کے خلاف زبردست مزاحمت کی۔ کئی سال انگریزوں نے اس جرم کی پاداش میں انہیں جیل میں رکھا۔ باچا خان یہ سب کانگریس کے پلیٹ فارم سے کر رہے تھے لیکن اس کے باوجود میں ان کے اس رول کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ صوبہ سرحد کے پشتونوں نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ دو مرتبہ الیکشنز میں انہیں کلیئر میجارٹی دی۔ پشتونوں کی جانب سے باچا خان کا ساتھ دینے کی وجہ ان کے کانگریسی نظریات نہیں تھے بلکہ صرف اور صرف انگریز مخالفت اور آزادی تھی۔ اس کا ثبوت باچا خان اور ان کی جماعت کا دونوں الیکشنز (1937, 1946) میں انتخابی منشور خالصتاً مقامی مسائل پر مبنی ہونا تھا۔ انہوں نے بطور خاص الیکشن کمپین میں پشتونوں کے سامنے کانگریسی نعروں اور کانگریس کے ذکر سے اجتناب کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت تک سرحدی عوام کو ہندوستانی پولیٹیکس سے کوئی غرض نہیں تھی۔ سرحد کی آبادی مسلم اکثریت پر مشتمل تھی۔ وہ ہندوستان کے دیگر مسلمانوں کی طرح کانگریس میں ہندو بالادستی کے خوف اور عواقب سے نا آشنا تھے۔ اس لئے سرحد کے پشتونوں نے 1945-46 کے انتخابات میں بھی باچا خان کو اکثریت دلائی۔ ذہن میں رہے کہ اگرچہ اس وقت تک باچا خان اور ان کی جماعت عوام سے ووٹ متحدہ ہندوستان، جو کہ کانگریس کی سیاست کا اساسی اصول تھا، کے نام پر نہیں مانگتی تھی لیکن درپردہ نیشنل لیول پر وہ اکھنڈ بھارت / متحدہ ہندوستان کے زبردست حامی تھے۔

اب آتے ہیں باچا خان کی  1946 کے بعد کی سیاسی زندگی پر۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا ہے کہ باچا خان اور انکی جماعت متحدہ ہندوستان کی حامی تھی۔ مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ ان کو اپنا اور اپنی عوام کا مستقبل ہندوستان میں ہندوستان کی سب سے بڑی اور طاقتور سیاسی جماعت کے ساتھ منسلک نظر آ رہا تھا سو انہوں نے کانگریس کا انتخاب کیا۔ بالکل ٹھیک۔۔ میرا اعتراض اس بات پر ہے کہ جن پشتونوں کا مستقبل انہیں غالب ہندو اکثریت اور سینکڑوں قومیتوں پر مشتمل وسیع و عریض ہندوستان میں محفوظ نظر آ رہا تھا ان پشتونوں کا مستقبل انہیں دینی، سماجی اور ثقافتی اقدار میں بے پناہ مشترکات کے حامل پاکستان کی دیگر قومیتوں کے ہمراہ خطرے میں نظر آ رہا تھا۔ وہ تامل ناڈو کے ھ۔ند۔و کے ساتھ ، جس کے ساتھ خوراک، پوشاک، رنگ، کلچر، مذہب کسی قسم کی یکسانیت نہیں تھی ، کیساتھ پشتونوں کے الحاق پر معترض نہیں تھا لیکن سندھی بلوچی اور پنجابی، جن کیساتھ پشتونوں کا خوراک ، پوشاک، مذہب اور بہت حد تک رنگ اور کلچر مماثل تھا ان کے ساتھ جب اتحاد کرنے کی باری آئی تو انہیں پشتون قومی تشخص یاد آ گیا پھر انہیں لوئی افغانستان بھی یاد آگیا اور آزاد پشتونستان بھی یاد آ گیا۔ حقیقت یہ تھی کہ پشتون کبھی بھی پاکستان سکیم کے مخالف نہیں رہے تھے۔ ان کو پاکستان کے ساتھ جانے میں کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ مسئلہ اگر تھا تو باچا خان کو تھا وہ پاکستان سکیم کے پُر زور مخالف تھے انہیں اپنا مستقبل پاکستان میں تاریک نظر آ رہا تھا اس لئے جب پاکستان بننے کے قریب آیا تو انہوں نے اپنے فائدے کیلئے پشتونستان اور افغان جداگانہ قومی تشخص کا غلط موقع پر، ایک غلط بیانیہ گھڑ کر، ایک ایسے تنازعے کی بنیاد رکھی جو آج بھی سلگ رہا ہے۔

ان کے “ایک افغان قومیتی” ( لر او بر یو افغان ) بیانئے کی حقیقت یہ ہے کہ جب 1942 میں دوسری جنگ عظیم اپنے عروج پر تھی اور برطانیہ عظمی جاپانی اور جرمن فوجوں سے شکست پہ شکست کھائے جا رہا تھا جب جاپانی فوجیں برما کی جانب سے ہندوستان کی سرحدوں پر  دستک دے رہی تھیں تو کابل سے ایک وفد غازی آباد (غازی آباد میں حاجی ترنگزئی سکونت پذیر رہے تھے) آیا ۔ غازی آباد میں کابلی وفد تیس لوگوں سے ملا۔ وہاں انہوں نے اس بات پر گفت و شنید کی کہ برطانیہ کی شکست کی صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ اس جرگے میں یہ قراداد منظور ہوئی کہ آمو سے اباسین اور کوئٹہ تک سب افغان ایک قوم ہے۔ اور انہوں نے انگریزوں کو پیغام بھیجنے کا فیصلہ کیا کہ حملے کی صورت میں انگریز صوبہ سرحد کا دفاع نہ کریں بلکہ پشتون خود اپنا دفاع کر سکتے ہیں۔ بعد میں کابلی حکومت کی شہہ پر پشتونستان تحریک کے نام پر حاجی محمد آمین نامی شخص نے شبقدر کے مقام پر اسی طرح کا ایک اجلاس منعقد کیا۔ امیر نواز جلیا کے مطابق باچا خان پشتونستان کے تصور کے سخت خلاف تھے اور کہتے تھے کہ ہم ان بھوکے ننگے لوگوں (افغانیوں) کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے۔

1942 میں جب پاکستان بننے کے امکانات ابھی روشن نہیں ہوئے تب افغانیوں اور تصور پشتونستان کے متعلق باچا خان کی یہ رائے تھی۔ تب وہ اکھنڈ بھارت اور متحدہ ہندوستان کے داعی تھے لیکن دو جون 1947 کو جیسے  ہی تقسیم کے فارمولے پر اتفاق ہو گیا تو انہیں وہی بھوکے ننگے لوگ اپنے نظر آنے لگے یعنی کہ 1942 کا سرحدی گاندھی دو جون 1947 کے بعد یکایک فخر افغان بن گیا۔ میری نظر میں نرم سے نرم الفاظ میں بھی یہ رویہ منافقت اور ذاتی مفاد پر مبنی تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اور یہ جو لوگ کہتے ہیں کہ باچا خان سیلف لیس شخص تھا ان کیلئے عرض ہے کہ باچا خان شروع سے اقرباء پرور تھا اور یہ اقرباء پروری آج تک انکی نسلوں میں چلی آ رہی ہے۔ پارٹی اور ان کی حکومتوں میں تمام بڑے عہدوں کو ہمیشہ انہوں نے اپنے خاندان میں بانٹے ہیں۔ 1945-46 کے انتخابات کے بعد کابینہ کے تمام وزیر سوائے ایک ہندو وزیر مہر چند کھنّہ کے، باچا خان کے اپنے خاندان سے تھے۔ وزیراعلی ان کے بھائی ڈاکٹر خان، ریونیو منسٹر قاضی عطاء اللہ باچا خان کا سمدھی، ایجوکیشن منسٹر یحییٰ جان ان کا داماد تھا۔ اور مرکزی دستور ساز اسمبلی میں صوبہ سرحد کا نمائندہ ان کا بیٹا غنی خان تھا۔ اگر ہندوؤں ان کا کوئی رشتہ دار سیاست دان ہوتا تو کابینہ کے اقلیتی ممبر کا قلمدان بھی مہر چند کھنّہ کی بجائے اپنے اس رشتہ دار کو سونپتے۔
ایوارڈ پرائز کے تحت ملنے والی بھاری رقوم کو اپنے خاندان کے بیچ بانٹنے سے متعلق جمعہ خان صوفی صاحب نے پشتو میں ایک نہایت زبردست پوسٹ لکھی ہے اگر موقع ملا تو صوفی صاحب کی اجازت سے اسے اردو میں ترجمہ کرکے لگانے کی کوشش کرونگا۔
فیس بکی پوسٹ اس سے زیادہ طوالت کی اجازت نہیں دیتی ورنہ تو پنتالیس کے انتخابات، سینتالیس کے ریفرنڈم اور باچا خان کی سیاسی کوتاہ فکری پر لکھنے کو بہت کچھ ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply