“امیتابھ بچن کی “اینگری ینگ مین” فلموں کو اگر پہلی دفعہ کسی نے ٹکر دی ہے تو وہ شاہ رخ خان کی “جوان” ہے” ـ۔
درج بالا جملہ ایک نوجوان انڈین فلم مبصر جناب سُمیت کڑیل کا ہے ـ سُمیت شاہ رخ خان کے پُرجوش مداح ہیں ـ ان کے درج بالا جملے کو اسی تناظر میں لیا جاسکتا ہے ـ تاہم امیتابھ بچن اور شاہ رخ خان کے موازنے کی بات ٹویٹر پر دیگر فلم بین بھی کر رہے ہیں ـ خود امیت سر نے بھی بعض فلم بینوں کے ایسے موازنوں پر دلچسپ کمنٹس کیے ہیں ـ۔
امیتابھ بچن اور شاہ رخ خان دو مختلف بلکہ درست طور پر دو متضاد ادوار کے سپراسٹار ہیں ـ ایک اداکار کے سپراسٹار بننے کے پیچھے متعدد سیاسی و سماجی عوامل ہوتے ہیں ـ جب تک ان عوامل کا تجزیہ نہ کیا جائے تب تک دو متضاد ادوار کے سپراسٹارز کا موازنہ غلط سمت میں لے جانے کا سبب بن سکتا ہے۔ ـ
امیتابھ بچن پنڈت نہرو کے سبز انقلاب کے بعد سینما کا حصہ بنے ـ اس دور میں چھوٹے شہروں، قصبوں اور دیہات سے ایک بہت بڑی آبادی بہتر مستقبل کے لئے شمالی ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں کا رخ کر رہی تھی، ـ یہ محنت کش زیادہ تر بڑے شہروں کے حاشیوں میں رہ کر اپنی زندگی کو بہتر بنانے کی جدوجہد کر رہے تھے ـ بڑے شہروں میں مجتمع دولت پر قابض طاقت ور سرمایہ داروں سے اپنا حق لینا ان محنت کشوں کے لئے جاں گُسل ثابت ہورہا تھا ـ امیتابھ بچن بھی انہی محنت کشوں کی طرح ایک “آؤٹ سائیڈر” تھے جو ممبئی میں کام کی تلاش میں آئے تھے ـ۔
امیتابھ بچن نے سینما اسکرین پر انہی حاشیہ نشین محنت کشوں کی نمائندگی کرکے معاشی و سماجی نظام سے ناراض نوجوان کے کردار نبھائے ـ ایک اداکار تب تک اداکار رہتا ہے جب تک وہ سماج کے مختلف طبقات کی زندگی کو سینما اسکرین پر دکھائے، ـ سپراسٹار وہ تب بنتا ہے جب وہ سماج کے اکثریتی طبقے کو سینما اسکرین پر وہ کرکے دکھائے جس کا انہوں نے تصور تک نہ کیا ہو، ـ امیتابھ بچن نے سماجی نظام کو چیلنج کرکے محنت کشوں کو وہ کرکے دکھایا جس کا انہوں نے خواب میں بھی نہ سوچا ہوگا ـ وہ عالمی سطح پر غالب نظریہِ مارکس ازم کی تصویر تھے جو محنت کش کو لڑ کر اپنا حق چھیننے کا درس دیتا ہے ـ امیتابھ بچن کے “اینگری ینگ مین” جسے “متشدد انقلابی محنت کش” بھی کہا جاسکتا ہے؛ کرداروں نے انہیں ایک افسانوی ہیرو بنا دیا ـ ان کے کردار عظیم رزمیہ داستان “مہا بھارت” کے جنگجو کرداروں سے مماثل تھے ـ ایک طرح سے وہ “مہا بھارت” کے جدید ورژن تھے ـ
شاہ رخ خان کا معاملہ امیتابھ بچن سے یکسر مختلف رہا ـ ،شاہ رخ خان ایودھیا تحریک کے دوران سینما کا حصہ بنے ـ ،ایودھیا تحریک کے نتیجے میں مذہبی فسادات ہوئے، ممبئی میں سیریل بم دھماکوں نے دہشت پھیلائی، ـ مسلمان دفعتاً “دوسرا” بن گئے ـ اسی دوران بھارتی ریاست نے نہرو ازم کو خیرباد کہہ کر نیو لبرل معاشی پالیسی کا ڈول ڈالا، ـ بھارت گلوبلائزیشن کا حصہ بن گیا ـ۔
ایودھیا تحریک اور نیو لبرل پالیسی سے دو چیزوں کو بے انتہا بڑھاوا ملا ،ـ ایک “رام راج” کا تصور جس کے مرکز میں بھگوان رام کی اساطیری شخصیت کا طلسم تھا، ـ تصورِ رام راج نے ہندو توا سیاست کی طاقت و اہمیت میں اضافہ کرکے ایک جارحانہ ہندو قوم پرستی کی بنیاد رکھی ـ جب کہ دوسری جانب نئی معاشی پالیسی کے ذریعے مڈل کلاس کو بورژوازی میں شامل ہونے کا موقع بھی نظر آیا ـ امیتابھ بچن کے زمانے کے حاشیہ نشین محنت کشوں کی اکثریت مڈل کلاس بن چکی تھی ـ مڈل کلاس کے پاس کھونے کو بہت کچھ ہوتا ہے اس لئے وہ نظام سے پُرتشدد لڑائی پر مذاکرات کو ترجیح دے کر موقع کو کامیابی میں بدلنے کی تاک میں رہتا ہے ـ شاہ رخ خان ان دونوں تصورات کی بھرپور نمائندگی کرنے دہلی سے ممبئی آن پہنچے ۔
ـ واضح رہے شاہ رخ خان بھی امیتابھ بچن کی طرح ایک “آؤٹ سائیڈر” ہیں ـ۔

جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں