باڈی لینگوئج۔۔شاکرہ نندنی

دنیا میں اس وقت لاتعداد زبانیں بولیں جاتی ہیں کچھ  ممالک تو ایسے بھی ہیں جہاں بیک وقت ہزاروں کی تعداد میں زبانیں بولی جاتی ہیں، دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان مینڈیرن کہلاتی ہے جو کہ چائنہ تائیوان اور سنگاپور میں بولی جاتی ہے اسکے بعد اسپینش اور پھر انگریزی کا نمبر آتا ہے، انکے علاوہ ایک زبان اور ہے جسے پوری دنیا میں سمجھا جاتا ہے وہ ہے اشاروں کی زبان، اس زبان کی خوبی یہ ہے کہ یہ کسی بھی قسم کے لفظوں کی محتاج نہیں ہوتی، زبان بنیادی طور پر انسانوں کے باہمی رابطے کا ایک ذریعہ ہوتی ہے جسکی مدد سے انسان ایک دوسرے تک اپنی بات پہنچاتے ہیں۔

اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کے لئے زبان کے علاوہ لہجہ بھی بہت اہمیت رکھتا ہے، لہجہ درحقیقت ہمارے لفظوں کی صحیح تشریح اور ترجمانی کرتا ہے آپ کیا کہہ رہے ہیں یہ اتنا اہم نہیں ہے، آپکا لہجہ کیا کہہ رہا ہے، یہ بہت اہم ہے۔

لہجے کے ذریعے بھی انسان بات سمجھنے یا سمجھانے کے لئے لفظوں کا محتاج ہوتا ہے لیکن ایک زبان ایسی ہے جسے سمجھنے کے لئے الفاظ اور لہجے کی محتاجی بھی ضروری نہیں ہوتی ،اس لینگوئج کو باڈی لینگوئج کہتے ہیں۔ بسا اوقات انسان کچھ کہہ رہا ہوتا ہے، اسکا لہجہ کچھ اور کہہ رہا ہوتا ہے ،لیکن باڈی لینگوئج بالکل کچھ اورہی کہہ رہی ہوتی ہے ،ایسی صورت میں یہ تینوں ذرائع مختلف پیغام ارسال کر رہے ہوتے ہیں۔

مثال کے طور پہ ایک اندر سے کمزور اور احساسِ کمتری کا مارا ہوا انسان جو قدرے بزدل بھی ہو، ان خصوصیات کا حامل شخص اگر کسی وجہ سے مناسب لفظوں میں اپنی برہمی کا اظہار کرے گا تب یہ تینوں چیزیں بیک وقت تین الگ الگ پیغام ارسال کریں گی، الفاظ مناسب ہیں، لہجہ تُرش ہے لیکن باڈی لینگوئج صاف بتا رہی ہوتی ہے کہ یہ اندر سے کھوکھلا ہے، آواز کے ساتھ ساتھ اسکے ہاتھ لرز رہے ہوں گے، ناک پھول چُکی ہوگی، جسم کے رونگھٹے کھڑے ہوجائیں گے غیر شعوری طور پہ ہاتھوں کی انگلیاں چٹخانا شروع کر دے گا کھڑا ہوا ہے تو بیٹھ جائے گا، بیٹھا ہوا ہے تو کھڑا ہوجائے گا ایسی کیفیت میں چلتے وقت اسکے قدموں سے زیادہ تیز اسکے ہاتھ چلنے لگیں گے کہ دیکھنے والے کو گمان گزرے گا کہ قدموں سے نہیں ہاتھوں سے چل رہا ہے،اس کیفیت کے دوران اگر آپ ایسے شخص سے سوئی میں دھاگہ پرونا تو کجا، ٹیبل پر رکھے ہوئے جگ سے گلاس میں پانی ڈالنے کے لئے بھی کہیں گے تو وہ ٹیبل پر پانی گرائے بغیر گلاس نہیں بھر پائے گا۔

ان سارے لوازمات سے مل کر جو چیز بنتی ہے اسے باڈی لینگوئج کہتے ہیں۔ اب آپ غور کریں کہ اس کیفیت میں ایسے شخص کی جانب سے ان تین زبانوں نے تین الگ الگ پیغام دئیے، الفاظ بےشک شائستہ تھے لیکن اگر کوئی صرف اسکے الفاظوں پہ جائے گا تو وہ اسکی بات کو کچھ خاص اہمیت نہیں دے گا ،روزمرہ کا احتجاج سمجھے گا اور اگر سامنے والا صرف اسکے لہجے پر جائے گا تو پھر اسے اسکی بات کو خاص سنجیدہ لینا پڑ جائے گا، اوراگر باقی دونوں چیزوں کو چھوڑ کر صرف اسکی باڈی لینگوئج پرجائے گا تب اسے اندازہ ہوجائے گا کہ یہ کمزور کا غصہ ہے، جو جہالت سے شروع ہو کر ندامت پر ختم ہوجائے گا۔

آپ شوبز کے لوگوں کو دیکھ لیں ،شوبز کی کسی بھی کامیاب شخصیت کا جائزہ لے لیں، بےشک اسکے الفاظوں کا چناؤ  منفرد نہ بھی ہو ،چاہے اسکا لہجہ اعلیٰ پائے کا نہ ہو، لیکن باڈی لینگوئج کے معاملے میں وہ آپکو بہت پُروقار اور رعب دار ملے گا۔

میرا ایسا ماننا ہے کہ اور دیگر معاملات کے ساتھ خاص طور پر محبت کے معاملے میں اپنی بات سامنے والے تک پہنچانے کے لئے زبان سب سے آخری ذریعہ ہوتی ہے انسان کا انگ انگ چیخ چیخ کر بتا رہا ہوتا ہے کہ وہ کیا کہنا چاہ رہا ہے یا اس وقت اسکے دل میں کیا ہے، متعلقہ شخص کی موجودگی میں آپکی باڈی لینگوئج ہی الگ ہوجاتی ہے، درحقیقت سر سے پاؤں تک آپکا پورا جسم زبان بن کر آپکے جذبات کی عکاسی کر رہا ہوتا ہے، آپ خاموش ہیں لیکن آپکی باڈی لینگوئج آپکے جذبات کی ترجمان بنی ہوئی ہوتی ہے اب یہ سامنے والے کے شعور پر منحصر ہے کہ اسکا شعور اس پائے کا ہے کہ وہ آپکی باڈی لینگوئج سے آپکی ان کہی سمجھ پاتا ہے یا نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جو لوگ ان سب چیزوں کا خیال رکھتے ہیں آپ انکی شخصیت کو دیکھ لیں اور جو لوگ ان سب چیزوں کو اہمیت نہیں دیتے آپ انکی شخصیت کا بھی جائزہ لے لیں فرق آپ کو واضح طور پہ نظر آجائے گا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شاکرہ نندنی
ڈاکٹر شاکرہ نندنی لاہور میں پیدا ہوئی تھیں اِن کے والد کا تعلق جیسور بنگلہ دیش (سابق مشرقی پاکستان) سے تھا اور والدہ بنگلور انڈیا سے ہجرت کرکے پاکستان آئیں تھیں اور پیشے سے نرس تھیں شوہر کے انتقال کے بعد وہ شاکرہ کو ساتھ لے کر وہ روس چلی گئیں تھیں۔شاکرہ نے تعلیم روس اور فلپائین میں حاصل کی۔ سنہ 2007 میں پرتگال سے اپنے کیرئیر کا آغاز بطور استاد کیا، اس کے بعد چیک ری پبلک میں ماڈلنگ کے ایک ادارے سے بطور انسٹرکٹر وابستہ رہیں۔ حال ہی میں انہوں نے سویڈن سے ڈانس اور موسیقی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔ اور اب ایک ماڈل ایجنسی، پُرتگال میں ڈپٹی ڈائیریکٹر کے عہدے پر فائز ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply