نایاب لوگ : علی سدپارہ کی کہانی/اشفاق احمد ایڈووکیٹ

گلگت بلتستان کا نام لیتے ہی ذہن میں فوراً خوبصورت بلندو بالا پہاڑوں کا تصور آجاتا ہے۔ ماضی میں ان فلک بوس پہاڑوں کے متعلق دنیا کو علم نہ ہونے کے برابر تھا۔ مقامی لوگ ان پہاڑوں سے گزرنے والے دشوار گذار پہاڑی درّے پار کرتے رہتے تھے اور صدیوں تک چین و سینٹرل ایشیاء تک رسائی تھی۔ حیرت کی بات ہے کہ ماضی قریب میں اس علاقے کا نقشہ بھی دنیا کو میسر نہیں تھا۔

سچ یہ ہے کہ آج بھی لوگ ان فلک بوس پہاڑوں کی خوبصورتی کو سراہتے ہیں لیکن کوہ ہمالیہ، ہندوکش اور کوہ قراقرم کے دامن میں رہنے والے افراد کی ثقافت، تہذیب و تمدن و مسائل و کہانیوں کا علم دنیا کو نہ ہونے کے برابر ہے گویا یہاں انسان نہیں بستے۔ باہر کی دنیا کے لوگوں کے ذہن میں اس خطہ کے متعلق یا تو محض بھوکے درندوں کے قصے تھے یا پھر پریوں کی کہانیاں سمائی ہوئی تھیں جو ان فلک بوس پہاڑوں میں بسیرا کرتی تھیں جو باہر کی دنیا سے یہاں آنے والے اجنبی لوگوں کی جان لیتی تھیں۔ یہ ایک ایسا خوف تھا جو لاعلمی کی وجہ سے وجود میں آیا تھا۔

حالانکہ ان پہاڑوں کے دامن میں صدیوں سے بسنے والے انسانوں کی کہانیاں اتنی ہی دلچسپ ہیں جتنی دنیا کے باقی انسانوں کی ہو سکتی ہیں۔ لیکن صدیوں تک یہ کہانیاں دنیا کی نگاہوں سے اوجھل رہیں۔ پہلی بار برٹش انڈیا کے زمانے میں یورپی جاسوس مختلف شکلوں میں اس علاقے کے متعلق معلومات اکٹھی کرنے لگے اور ان پہاڑی چوٹیوں کی اونچائی کی پیمائش کرنے لگے۔ یوں مہم جوئی کا آغاز ہوا۔ یورپی لکھاریوں نے اس علاقے کے متعلق نوآبادیاتی نقط نظر کے تحت مختلف کہانیاں لکھیں۔ ان میں ایک کہانی “ہندوکش میں قتل” کے عنوان سے مشہور ہوئی جو معروف برطانوی مہم جو جارج ہیورڈ کے قتل کی کہانی ہے۔ ان کی مہم جوئی کا مقصد ان علاقوں کا کھوج لگانا, تحقیق کرنا اور یہاں کے دروں کے نقشے بنانا تھا۔ چنانچہ وہ یاسین سے بذریعہ درکوت پاس پامیر ریجن میں داخل ہونا چاہتا تھا۔اس مہم جوئی میں وہ اکیلا ہی نکلا تھا اور گریٹ گیم کا شکار ہو گیا- ان کی لاش ایک عرصہ تک وادی یاسین کے گاؤں درکوت میں پتھروں کے ڈھیر تلے دبی رہی۔ بعد ازاں ان کا جسد خاکی گلگت لاکر دفنایا گیا جس پر مشہور شاعر Sir Henry Newbolt نے ایک نظم
“He Fell Among Thieves”
کے عنوان سے لکھ کر جارج ہیوارڈ کی المناک موت کی منظر کشی کی اور یوں اسے تاریخ کا حصہ بنایا۔
دوسری طرف حالیہ سالوں میں ان پہاڑوں کے دامن کو چیر کر ایک ایسی کہانی سامنے آئی جس نے دنیا کی توجہ حاصل کی۔ کسی نے کہانی کو گانے کی شکل میں بیان کیا تو کسی کے دل میں سما گئی۔
کہانی گلگت بلتستان سکردو سے تعلق رکھنے والے کوہ پیما محمد علی سدپارہ کی ہے۔ وہ فروری 1976 کو سکردو کے گاؤں سدپارہ میں پیدا ہوئے۔ بچپن سے غیر ملکی کوہ پیماؤں کو پہاڑوں پر چڑھتے اور مہمات کے لیے تیار ہوتے پورٹروں کو کوہ پیماؤں کا سامان اٹھانے کے لئے قطاروں میں کھڑے ہوتے دیکھ کر وہ بڑا ہوا تھا۔ محمد علی سدپارہ نے ہائی ایلٹیٹیوڈ پورٹر کے طور پر اپنے کیرئر کا آغاز کیا اور ایک نامور کوہ پیما کے طور پر مشہور ہوا۔ انہوں نے یورپی کوہ پیماؤں کی طرح باقاعدہ تربیب حاصل نہیں کی مگر اسے پہاڑوں سے عشق تھا۔ وہ زندہ دل شخص تھا اور رقص کا شوقین تھا۔ اس کے بقول وہ پہاڑوں سے بات نہیں کرتا بلکہ ان کو سنتا اور کبھی کبھی ان کے ساتھ سرگوشیاں کرتا۔

سدپارہ پیدائشی مہم جو تھا۔ پہاڑوں پر چڑھنا یہاں کے لوگوں کے لئے عام سی بات ہے۔ یہ خوبی ان کے خون میں شامل ہے اس کی فطری وجہ صدیوں سے پہاڑوں کے دامن میں پرورش پانا ہے۔ یہی وجہ ہے مردوں کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان کی خواتین بھی پہاڑوں کو سر کرنے میں کامیاب ہوتی رہی ہیں جن میں ثمینہ بیگ کا نام سرفرست ہے۔ مگر علی سدپارہ پہاڑوں میں ہمیشہ کے لیے کھو گیا۔ وہ کبھی واپس گھر نہ آیا اور وہیں پہاڑوں کی بلندی پہ ابدی نیند نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔

محمد علی سدپارہ چلی کے جان پابلو موہر اور آئس لینڈ کے جان اسنوری سمیت دیگر کوہ پیماؤں کے ہمراہ کے ٹو سر کرنے کی مہم پر تھا۔ مگر 5 فروری 2022 کو خراب موسم کے باعث دو کوہ پیماؤں سمیت پہاڑ کی بلندی پر لاپتہ ہوگیا۔

یہ منظر نہ صرف حیران کن تھا بلکہ کہیں زیادہ ناقابلِ یقین تھا کہ کیسے ایک خوبصورت پہاڑ نے اپنا ہی بیٹا کھا لیا جو آنکھوں میں خواب لئےاس کے دامن میں بسیرا کرتا تھا۔ وہ اس کی اونچائی چھونا چاہتا تھا۔
علی سدپارہ کو پاکستان کی تاریخ میں ایک عظیم اور معتبر کوہ پیما کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ انہوں نے دنیا کے آٹھ ہزار میٹر کی 14 بلند پہاڑی چوٹیوں میں سے آٹھ چوٹیاں سر کیں۔
سال 2016 کے موسم سرما میں انہوں نے گلگت بلتستان کے ضلع دیامر میں واقع مشہور پہاڑ نانگا پربت سر کیا جو مہم جوئی کی دنیا میں قاتل پہاڑ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
علی سدپارہ اپنی بے مثال صلاحیت کے ساتھ مشکل حالات میں بھی کمال مہارت کا مظاہرہ کرتا تھا۔ اس کا خواب تھا کہ وہ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی K2 کو سردیوں کے موسم میں سر کرے۔ حالانکہ موسم سرما میں کوہ پیماؤں کے لئے یہ مشکل ترین پہاڑ ہے۔”

فروری 2021 کو جان اسنوری نے علی سدپارہ اور پابلو موہر کے ساتھ مل کر K2 سر کرنے والی مہم کا آغاز کیا لیکن بدقسمتی سے اس مہم میں تینوں کوہ پیما پہاڑ پہ غائب ہو گئے۔ 18 فروری کو حکومت پاکستان نے رسمی طور پر تینوں مہم جوؤں کو مردہ قرار دیا لیکن لاشوں کی تلاش جاری رہی اور وسیع پیمانے پر تلاش کا آغاز ہوا لیکن تینوں کوہ پیما بنا کوئی نقش چھوڑے غائب ہوگئے تھے۔ان کی موت چڑھائی کے دوران ہوئی تھی۔ علی سدپارہ کے بیٹے کے بقول انہوں نے آخری بار باٹل نیک پر اپنے والد کو دیکھا تھا، بعدازاں 18 فروری 2022 کو ان کی موت کی تصدیق کی گئی اور
26 جولائی کو تینوں کوہ پیماؤں کی لاشیں کیمپ 4 کے اوپر پائی گئیں۔

علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ کا کہنا ہے کہ اس کے والد کی تدفین کے ٹو کیمپ فور پر کر دی گئی ہے۔ اپنی ٹویٹ میں ساجد سدپارہ کا کہنا تھا کہ “میں نے اپنے ہیرو کی لاش کو محفوظ کر دیا ہے۔ اس دوران ارجنٹائن سے تعلق رکھنے والے ایک کوہ پیما نے باٹل نیک سے لاش اٹھانے میں میری مدد کی ہے۔”
علی سدپارہ کی موت کی تصدیق سے ایک دن قبل ہی 17 فروری کو معروف گلوکار علی ظفر نے انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ’ تم چلے آؤ پہاڑوں کی قسم’ نامی گیت ان کی شان میں گایا۔ جسے سن کر نہ صرف کئی لوگوں نے گلوکار کی تعریفیں کیں بلکہ یہ بھی کہا کہ گانا سننے کے بعد ان کے آنسو  نہیں رک رہے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

علی سدپارہ کے قریبی دوستوں اور ہمسفر ساتھیوں نے انہیں ایک خاص روح اور اصلی ہیرو قرار دیا۔
محمد علی سدپارہ کی موت سے نہ صرف پاکستان کی کوہ پیما کمیونٹی کو نقصان پہنچا بلکہ یہ واقعہ اس کے خاندان کے لئے یقیناً ناقابل فراموش صدمہ ہے۔
لیکن یہ طے ہے کہ علی سدپارہ کی خوبصورت شخصیت اور پہاڑوں سے اس کا عشق گلگت بلتستان اور دنیا بھر کے پہاڑوں سے محبت کرنے والے افراد کے ذہنوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔
علی سدپارہ کا خواب تھا کہ وہ اپنے علاقے میں مونٹین کلائمبنگ سکول قائم کرے گا مگر اس کا یہ حسین خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔
بقول غالب
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply