ہمارا ہمسایہ افغانستان۔۔۔ مہرساجدشاد

افغانستان میں منظرنامہ تبدیل ہورہا ہے، یہ کچھ لوگوں کیلئے مقام مسرت ہے لیکن یہ سب اتنا سادہ بھی نہیں ہے افغانستان میں یہ نئی حکومت کا تو امتحان ہے لیکن پاکستان کا بھی ایک نیا امتحان شروع ہو رہا ہے ۔
جیسا کہ نظر آرہا ہے امریکی فوج افغانستان سے روانہ ہوئی اور اسٹوڈنٹس انکی جگہ لینے کیلئے بغیر لڑے مہینوں ہفتوں دنوں نہیں بلکہ گھنٹوں میں شہروں کے شہر قبضہ کرتے چلے گئے۔ حیرت انگیز طور پر بلکہ قبضہ کا آغاز ان علاقوں سے کیا گیا جو اسٹوڈنٹس کے نہیں بلکہ مخالفین کا گڑھ سمجھے جاتے تھے اور وہیں جدید ترین امریکی اسلحہ بہت بڑی تعداد میں موجود تھا۔ جب امریکن آئے تھے تو طالبان اسی طرح خاموشی سے غائب ہو گئے تھے کہیں مزاحمت نہیں کی۔ بیس سال یہاں امریکہ کی سلیکٹڈ حکومت نظام چلاتی رہی،
امریکہ نے کیا کھویا کیا پایا یہ الگ تفصیل طلب کہانی ہے۔

پاکستان نے بدامنی دہشت گردی خود کش دھماکوں آرمی پبلک اسکول جیسے سانحات میں ہزاروں شہادتوں بہت بڑی تعداد میں افغان مہاجرین کو بھی پناہ دی، اور نتیجتا معاشی مسائل کا سامنا کیا،
لیکن اُدھر سے بھی جواب دعوی ہے کہ
افغانستان کی پرامن حکومت کو گرانے اور جدید میزائلوں بمبوں کے بے دریغ استعمال سے افغانستان کے چپہ چپہ کو تورا بورا بنانے کیلئے راستہ بھی پاکستان نے دیا امریکہ کے ایک فون کال پر افغانستان کو بیچ دیا اور تمام تر جغرافیائی وسائل بھی امریکہ کو مہیا کئے حتی کہ سفیروں عورتوں اور بچوں کو بھی امریکہ کے حوالے کر کے ڈالر کمائے۔
یہ تقریباً بارہ تیرہ سال کا سیاہ دور تھا جو گذر گیا تو آٹھ سال پہلے گذشتہ حکومت پاکستان نے ڈراؤن حملوں کیلئے وسائل کی فراہمی سے معذرت کر لی اپنی سرحدوں کو بین الاقوامی قوانین کے تحت محفوظ بنانے کا عمل تیزی سے طے کیا جو دہشت گرد گروپ ہماری سرحد کے اندر موجود تھے ان کا فوجی آپریشن کیساتھ صفایا کیا نتیجتا پاکستان میں دہشت گردی کا طوفان تھم گیا۔

امریکہ بھی بھاری اخراجات اور انسانی جانوں کے نقصان کے بعد بالآخر فیصلہ کرنے پر مجبور ہوا کہ اب امریکہ خود موجود نہیں رہے گا ( لاتعلق ہونے کی بات کبھی نہیں ہوئی)۔ اس کے جانے کے بعد نظام کیسے چلایا جائے گا ؟؟
اس کے لئے گذشتہ تقریباً چار سال سے امریکہ نے سیاسی اور متحارب افغانی طاقتوں سے مزاکرات مسلسل جاری رکھے، قطر نے اس میں اہم کردار ادا کیا، اس دوران اسٹوڈنٹس کے گرفتار شدہ اہم رہنما رہا کئے گئے،
پاکستان بھی ان مزاکرات کا گاہے بگاہے حصہ رہا طویل عرصہ کی کوشش کے باوجود شراکت اقتدار کے کسی فارمولے پر سمجھوتہ نہ ہو سکا لیکن عبوری نظام کے خدوخال طے پا گئے۔

یہ بڑی دلچسپ بات ہے کہ یہ بیس سال اسٹوڈنٹس نے بہت منظم ہوکر مستقبل کی پیش بندی کرتے ہوئے گذارے نتیجہ یہ ہے کہ آج افغانستان میں امریکی کٹھ پتلی حکومت کی بنیادوں میں اسٹوڈنٹس ہی بیٹھے ہیں اور جس فوج کو امریکہ ٹریننگ دیتا رہا اس میں بھی بہت بڑی اکثریت انہی کی تھی یہی وجہ ہے کہ اسٹوڈنٹس کو چند ایک جگہوں کے علاوہ کہیں مزاحمت نہیں ہوئی اور اب حکومت چلاتے ہوئے بھی انہوں نے ساری حکومتی مشینری اور عملہ کو اسی طرح کام کرتے رہنے کا عندیہ دیا ہے جو کہ نہایت خوش آئیند بات ہے۔

اسٹوڈنٹس کا دنیا سے تعارف میڈیا کے زریعے تھا اس میں منفی پہلو دو تھے اوّل بنیادی انسانی حقوق، حق رائے کی آزادی، حقوق نسواں اور دوم انکی حکومتی اور انتظامی معاملات کا میڈیا ٹرائل۔
اسٹوڈنٹس نے ان دونوں مسائل کو بظاہر سنجیدہ لیا ہے اور اب تک کے اقدامات میں لڑکیوں کے اسکول کالج یونیورسٹی کو کھلا رکھنا، اقلیتی گروہوں سے ملاقاتیں اور انکو تحفظ کی یقین دہانی، پردہ کے بارے میں واضع اعلان کہ حجاب کی کئی شکلیں ہیں برقعہ ضروری نہیں اہم یہ ہے کہ فحاشی نہ ہو۔
پھر دستیاب موبائل کیمروں سے ہی انہوں نے ہر اہم جگہ اور اہم مواقع کے ویڈیو کلپس سوشل میڈیا پر جاری کر کے ممکنہ میڈیا پراپیگنڈا کا موثر جواب دیا ہے۔
یورپ کا رویہ ابھی تک حیرت کے اظہار تک محدود ہے مستقبل میں ان کی طرف سے افغانستان کی کڑی نگرانی کی توقع ہے یورپ چاہے گا کہ انسانی حقوق حقوق نسواں اور حق رائے کی آزادی پر کوئی قدغن نہ لگے، دوسرا افغانستان کے تمام ترسیل زر پر کڑی نگرانی کو یقینی بنائے گا تاکہ دہشت گردی کیلئے سرمایہ کی فراہمی کا کوئی راستہ نہ بن سکے۔
اسٹوڈنٹس کی اعلی قیادت کا وفد چند دن قبل چین بھی گیا انہیں بھی اعتماد میں لیا، چین نے بھی اپنے سرکاری بیان میں کہہ دیا ہے کہ ہم افغانستان کی نئی حکومت کیساتھ دوستانہ تعلقات رکھنا چاہتے ہیں۔ چین مستقبل میں پرامن افغانستان چاہتا ہے تاکہ اپنی اقتصادی راہداری سمیت تجارتی امکانات کو عملی شکل دے سکے یہ افغانستان سمیت سب کے مفاد میں ہوگا۔

بھارت البتہ اس صورتحال سے خوش نہیں ہے امریکہ کی طرح اسکی بھی خواہش تھی کہ افغانستان میں ایک ساجھے داری کی کمزور حکومت بنے جسے دباو میں رکھ کر پاکستان کیلئے مسائل پیدا کئے جاتے رہیں اسکے لئے انہوں نے افغانستان میں بھاری سرمایہ کاری کی سڑکیں پل بنائے ڈیم تعمیر کئے اور مختلف شعبہ جات میں افراد کو ٹریننگ دی، پاکستان کو اس ساری صورتحال کو سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے یہ سارے کام مستقبل میں کاروباری مواقع بنا کر پاکستان بھی کر سکتا ہے لیکن اسکے لئے افغانستان کیساتھ مظبوط اور قابل اعتماد تعلقات بنانا ہونگے۔
وطن عزیز پاکستان کے لحاظ سے دیکھیں تو ابھی تک کی صورتحال بتاتی ہے کہ ہم نے تاریخ سے کچھ نہ کچھ تو سیکھا ہے افغانستان ہمارا اہم ہمسایہ ہے وہاں امن اور بدامنی سے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ ہم ہی متاثر ہوتے ہیں۔

ریاستوں کے دوست نہیں ہوتے ریاستوں کے مفادات ہوتے ہیں۔
ہمیں اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنانا ہے جو صرف امن سے ہی ممکن ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

گذشتہ حکومت نے ڈراؤن اٹیک روک کر باہمی ریاستی تعلقات میں جس درستگی کی بنیاد رکھی تھی موجودہ حکومت کی طرف سے ابسلیوٹلی ناٹ کے اعلان کیساتھ اسے آگے بڑھایا گیا ہے، ایک ذمہ دار خودار اور آزاد ریاست اپنے ہمسائیوں کیساتھ اصول و ضوابط پر مبنی تعلقات عزت و تکریم کیساتھ قائم رکھتی ہے ہمیں بھی یہی کرنا ہے۔
ہمیں اور کیا کرنا ہے ؟؟؟
اوّل افغانستان میں آنے والی کسی بھی حکومت کیساتھ اصول و ضوابط پر مبنی دوستانہ ہمسائیگی کے تعلقات قائم کئے جائیں۔
دوم اپنی سرزمین کسی بھی طرح کے متحارب گروہوں دہشت گردوں کے استعمال میں نہ جانے دیں کسی دوسرے ملک کو سہولت کاری دینے کو تو ناممکن قرار دے دیا جائے۔
سوم افغانستان کے اندر انتخابات اور حکومت کا قیام وہاں کی عوام کا استحقاق ہے وہاں کوئی بھی حکومت بنائے یہ افغانستان کا اندرونی معاملہ ہے ہمیں اس عمل سے مکمل لاتعلق رہنا ہو گا۔
چہارم ہمسایہ ممالک کیساتھ علاقائی تعاون کے باہمی معاہدات کیے جائیں اور مختلف اجتماعی پراجیکٹس پر کام کیا جائے تاکہ رنجشوں کم ہوں اور باہمی اعتماد میں اضافہ ہو۔
افغانستان ہو یا پاکستان دونوں کا مستقبل معیشت کی مظبوطی سے جڑا ہے اسی راستے کو ہموار کرنا ہے چین تمام تر وسائل کیساتھ ہمارا ہمسفربننے کو تیار ہے تو چین پاکستان افغانستان مشترکہ نئے اقتصادی سفر کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply