ذیابطیس کا مکمل علاج کیا ہے؟۔۔ضیغم قدیر

سنہ 1922 میں یونیورسٹی آف ٹورونٹو کے سائنسدان ہسپتال کے وارڈ میں داخل ہوئے۔ اس وارڈ میں موجود تمام بچوں کو ذیابطیس تھی اور اس وجہ سے سب بچے کومہ کی حالت میں تھے ۔ پاس ہی بیٹھے ان بچوں کے والدین انکے مرنے کا انتظار کر رہے تھے۔ایسے میں وہ سائنسدان ایک بیڈ سے دوسرے بیڈ کی طرف جاتے ہیں۔ ہر بچے کو ایک انجیکشن لگا کر آگے بڑھتے جاتے ہیں۔ جونہی وہ آخری بیڈ کے نزدیک پہنچتے ہیں تو پہلے بیڈ والا بچہ کومہ کی حالت سے نکل کر ہوش میں آ جاتا ہے۔ اور کچھ ہی وقت کے بعد پورا وارڈ جو کہ موت کے انتظار میں تھا موت کے منہ سے نکل کر زندگانی کی آغوش میں جا بیٹھتا ہے۔ لیکں آخر؛
ان ڈاکٹروں کے پاس کونسا جادو تھا؟ یہ ڈاکٹر تھے یا فرشتے؟ جو یوں زندگی بخشتے پھر رہے تھے۔

تو جناب ان ڈاکٹروں کے پاس تازہ تازہ انسانی طور پہ بنائی گئی انسولین تھی۔ یہی وہ انسولین ہے جس کے انجیکشن نے آج کروڑوں لوگوں کو زندگی بخشی ہے۔
ورنہ فطرت کا قانون بہت سادہ سا تھا۔
فطرت کا قانون یہ تھا کہ ذیابطیس یا پھر شوگر کے مریض جینے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ فطرت نے ارتقاء کے تحت یہ قانون بنا رکھا تھا کہ جسے ذیابطیس ہے اس نے تیس سال کی عمر سے پہلے ہر صورت مرنا ہی مرنا ہے۔ یہی وہ وجہ ہے کہ آج ہمارے گرد ذیابطیس کے مریض حد سے زیادہ بڑھ رہے ہیں کیونکہ جن کو کل مرنا تھا آج وہ اپنی اگلی نسل پیدا کر رہے ہیں ۔ ہے نا انسان دوستی؟
پہلی بار انسولین کیسے بنی؟
ہمیں اٹھارھویں صدی تک اس بیماری کا بس اتنا پتا تھا کہ میٹھا کھانے سے کچھ لوگ مر جاتے ہیں. لیکن کس وجہ سے؟ معلوم نہیں ۔ مگر پھر 1889 میں دو جرمن سائنسدانوں آسکر اور جوسف نے دیکھا کہ اگر کتوں کا لبلبہ/پینکریاز نکال باہر کیا جائے تو ان میں بالکل وہی علامات ظاہر ہوتی ہیں جو کہ ذیابطیس کے مریضوں میں ہوتی ہیں۔ اس دریافت کو انہوں نے پینکریاز سے منسلکہ بیماری کہا۔
پھر 1910 میں سر ایڈورڈ نامی سائنسدان نے دیکھا کہ ذیابطیس کے مریضوں کا لبلبہ صرف ایک کیمیکل ریلیز نہیں کر پا رہا اس نے اس کیمیکل کو انسولین کا نام دیا جس کا لاطینی لفظ انسولا تھا اس کا مطلب جزیرہ ہے۔

پھر ایک سرجن سر بیٹنگ اور اسکے اسسٹنٹ چارلز بیسٹ نے 1921 میں کتے کا لبلبہ نکالا اور اس پیلے رنگ کے عضو کو انسولین کا ذریعہ مان کر ایک دوسرے کتے کو جسے ذیابطیس تھی لگا کر ستر دنوں تک زندہ رکھا ۔ اس حیران کن تجربے کے بعد کولپ اور میکلوئڈ نامی ریسرچرز نے گائے کے لبلبے سے انسولین نکالنے کا کامیاب تجربہ کیا۔ اور پھر وہ وقت آیا جب ٹورونٹو یونیورسٹی کے ہسپتال میں یہ کامیاب تجربہ کرکے بچوں کو زندہ بچا لیا گیا جس کا ذکر اوپر بیان کیا گیا ہے۔
اس انسان دوست دریافت پہ ان چار سائنسدانوں کو مشترکہ طور پہ نوبل انعام دیا گیا۔

اسکے بعد ہم نے گائے اور سؤر کے لبلبوں سے انسولین کشید کرنا شروع کی مگر اس انسولین کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو الرجی ہو جایا کرتی تھی۔ گو اس انسولین نے کڑوڑوں جانیں بچائیں مگر یہ بہت کم تھی اس کو کشید کرنا مشکل تھا اور یہ کافی مہنگی تھی۔ دوٹن سؤر فقط آٹھ اونس انسولین دے پاتے تھے۔
مگر پھر،

ایلی للی نامی سائنسدان نے 1978 میں ای کولائی نامی بیکٹریا کو اس طرح سے ایڈٹ کیا کہ وہ انسولین بنا سکے یہ انسولین جلدی، سستی اور آسانی سے بنتی تھی اور چار سال بعد اس نے اس انسولین کو ہومولین کے نام سے رجسٹرڈ کرکے کمرشل بیچنا شروع کیا۔
یوں انسولین کی دریافت نے جانوروں سے ہوتے ہوئے بیکٹریا تک کا سفر مکمل کیا اور آج اسکا ایک انجیکشن ہمیں کافی سستا اور ہمارے لئے زندگی آور ثابت ہو رہا ہے۔ انسولین کی دریافت اس صدی کی ایک سب سے بڑی دریافت تھی جس نے کڑوڑوں لوگوں کو فطرت کے طے کردہ بے رحمانہ اصول کے تحت مرنے سے بچا لیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

گو ابھی یہ ذیابطیس کا مکمل علاج نہیں مگر کروڑوں جانوں کی زندگی کی ضمانت ضرور ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply