غوغائے مریضاں۔۔ڈاکٹر مختیار مغلانی

ایک آئینی سرکار ہے جس کی ذمہ داری ریاست کے مکینوں کو ان کے ریاستی حقوق فراہم کرنا ہے، ان حقوق کو سماجی، جسمانی یا کم از کم غیر روحانی کہا جا سکتا ہے، مگر یہ سرکار اپنی ذمہ داری پوری کرتی نظر نہیں آتی، اس کے برعکس معاشرے میں کچھ ایسی غیر آئینی سرکاریں بھی موجود ہیں جو اپنے “مکینوں” اگرچہ درست لفظ، حواریوں، ہوگا، کے روحانی حقوق کی جائز و ناجائز ذمہ داری اپنے کندھوں پر لیے ہوئے ہیں اور پوری تندہی کے ساتھ اس سمت “پھیلے ” نہیں سما رہیں، ان سرکاروں میں کرنٹ والی سرکار، ڈنڈے و سوٹے والی سرکار، کتے اور بلی والی سرکار، حلوے ، بانس ، چڑیوں، بجلی، مدینے، مکے، سبز، کالی، بارش، آندھی والی اور دیگر سرکاریں شامل ہیں۔

ایسا کیوں ہے کہ بظاہر نارمل اور ذہنی طور پر صحتمند نظر آنے والے افراد مذہبی اکٹھ میں اپنے پیرو مرشد کی پیروی میں ایسی ایسی حرکتیں کرتے نظر آتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے، ان حرکات میں کپڑے پھاڑنا، بانسوں پر بندر کی طرح چڑھنا، بے ہنگم ناچنا، مرشد کے ایک لمس سے خود میں کرنٹ محسوس کرنا، الٹی سیدھی چھلانگیں لگانا و دیگر حرکات، جو ہم آئے روز دیکھتے ہیں، شامل ہیں، مقامِ فکر یہ ہے کہ ایسے افراد کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا دکھائی دیتا ہے۔

دلیل اور وجدان انسانی نفسیات کی دو انتہائیں ہیں، ان دو کیفیتوں کی اپنی اپنی اہمیت ہے اور انفرادی سطح پر ہر شخص ان دو حالتوں سے نہ صرف واقف ہے بلکہ زندگی کے اہم فیصلوں میں انہی کیفیات میں سے ایک، یا گاہے دونوں، کی مدد لیتا ہے، لیکن اگر بات اجتماعیت کی ہوگی یا سماجی رویوں پہ بحث ہوگی تو یہاں دلیل کی اہمیت زیادہ ہوگی۔

مذاہب کا مرکزی نکتہ خدائے برتر کی ذات پہ ایمان ہے، ایمان بالغیب، یہ خالصتاً وجدانی فیصلہ یا احساس ہے، دلیل کی مدد سے خدا کے وجود کو ثابت کرنا شاید ممکن نہیں، مگر جب بات سماجی رویوں کی ہوگی ، یاد رہے کہ مذہب سماجی رویوں، اخلاقیات، کا علمبردار بھی ہے، تو یہاں وجدان کی مداخلت صرف بگاڑ پیدا کرے گی، اجتماعی انسانی معاملات کا احاطہ دلیل کی مدد سے کیا جائے گا، ان معاملات میں مذہبی رسومات و عبادات کی ظاہری شکل بھی شامل ہے، لیکن چونکہ انسان سہل پسند واقع ہوا ہے اور دلیل ایک سماجی ذمہ داری اور شعوری مشقت کا نام ہے، اس لیے آسان طریقہ وجدان پہ تکیہ کرتے ہوئے خود کو جھوٹی تسلی دینا ہے کہ مرشد کی سرپرستی میں عین الہامی تعلیمات پر عمل کیا جا رہا ہے، ایسی صورت میں اگر آئینی سرکار کے کسی کونے سے تنقیدی آواز بلند ہو تو روحانی سرکاروں کی مدد سے کوئی فتوی لگوا کر ایسے” جاہلین “کا منہ ہمیشہ کیلئے بند کر دیا جاتا ہے۔یہاں یہ نکتہ دلچسپی سے خالی نہیں کہ وجدانی احساس میں حق و باطل کی تمیز کیلئے پھر دلیل کی مدد درکار ہے، اور مذکورہ گروہ یہاں بھی کسی دلیلی لغویات پہ یقین نہیں رکھتا۔

اس رویے کی بابت کچھ طبی اور سماجی نکات بھی غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں، W. Hellpach جو طب اور نفسیات کے بعد جرمنی کی سیاست میں بھی اپنی کردار ادا کر چکے ہیں، اپنے تجربات میں مذہب کے ایسے پیروکاروں کی نسبت دو اہم باتوں کی طرف توجہ دلاتے ہیں، وہ کہتے ہیں۔۔

1- جب کوئی بھی روحانی مشق اس صورت کی جا رہی ہوگی کہ مشق کرنے والا ان الفاظ کی مکمل سمجھ نہ رکھتا ہو جو وہ ادا کر رہا ہے تو دماغ اور نظام الغدد (endocrine system) کے مابین توازن کے بگاڑ کا خدشہ پیدا ہوتا ہے، جس سے امائینوایسڈز سے گلوکوز کا بننا، oxidation کا پروسیس، میٹابولزم اور خون و ہڈیوں میں کیلشیم کی مقدار متاثر ہوسکتی ہیں جس کے نتیجے میں طبی صحت کے علاوہ نفسیاتی اور جنسی رویے غیر معمولی حد تک متآثر ہو سکتے ہیں۔

2_ ایسی مشقوں کا دوسرا نتیجہ خالصتاً نفسیاتی ہے جو کند ذہنی کی صورت میں سامنے آتا ہے، Hellpach نے اس کیفیت کو، خود کار مِرگی، کا نام دیا ہے ، یعنی کہ فرد مذہبی دِکھنے اور اپنے مرشد کی نظروں میں سرخرو ہونے کی شدید خواہش میں ہوش و جنون کی نفسیاتی حد کو پار کر جاتا ہے، دماغی افعال صرف اس حد تک ہی کارآمد ہیں، اس سے آگے کی کیفیت عموما ً مرگی سے متاثرہ افراد میں دیکھی جا سکتی ہے، اگرچہ یہ مذہبی افراد کسی ایسے مرض میں مبتلا نہیں ہوتے مگر وقتی کیفیت ویسی ہی ہوتی ہے، اس لیے اسے خود کار مرگی کا نام دیا گیا، یاد رہے کہ یہاں ان روحانی سرکاروں کے مخلص و سچے مریدین کی بات ہو رہی ہے، جو واقعی ایسی ” وجدانی ” کیفیت میں چلے جاتے ہیں، وگرنہ ایسے افراد کی یقینا ًکمی نہیں جو صرف دکھاوے کی اداکاری کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ ہمارا آج کا موضوع نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب ان دو نکات کے ساتھ فرد کی کچھ سماجی مجبوریوں کا اضافہ کیجئے، جہاں ریاست کی نااہلی کی وجہ سے فرد کو قدم قدم پہ بااثر افراد پہ انحصار کرنا پڑتا ہے، علاج، تعلیم، نوکری، انصاف و دیگر سماجی ضروریات کیلئے فرد سیاستدانوں، وڈیروں، مذہبی پیشواؤں کا محتاج بن جاتا ہے، ذہنی غلامی کی بنیادی وجہ یہی ہے، اب ایسے افراد سے کونسے اعلی تخلیات یا شعور کی توقع رکھی جا سکتی ہے؟، یہی ذہنی غلامی عرسوں و دیگر مذہبی تقریبات کے موقع پر ان روحانی مشقوں کے نتیجے میں برپا ہونے والے طوفانِ بدتمیزی میں جلتی پہ تیل کا کام کرتی ہے۔
ریاست کو سب سے پہلے فرد کو ذہنی طور پر آزاد کرانا ہے، اور ایسا صرف اسی صورت ممکن ہے جب فرد کو سماجی عدل میسر ہو پائے گا، اس کے علاوہ ایسے مذہبی پیشواؤں پر مکمل پابندی لگائی جائے، مذہبی تعلیمات کو فرد کی صرف آخرت نہیں بلکہ دنیا سنوارنے کیلئے بھی استعمال کیا جائے کہ اس سے فرد میں مذہب کو بہتر طور پر سمجھنے کے علاوہ ایک سماجی ذمہ داری کا جذبہ بھی پنپ پائے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply