لوگ سائیکو تھراپی یا کونسلنگ سے کیوں مستفید نہیں ہو پاتے؟۔۔تنویر سجیل

کیا علاج کا یہ پہلو اتنا ہی گیا گزرا ہے کہ لوگوں کی زندگی کے دکھوں، پریشانیوں اور محرمیوں کا مداوانہ کر سکے ؟ پاکستان میں ایسے  لوگوں کی اکثریت ہے جو سائیکو تھراپی یا کونسلنگ سے بیزار ہیں انکے نزدیک اس علاج سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور اس کو وقت اور پیسے کے ضیاع میں شمار کرتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف ایسے لوگ ہیں جو اک لمبے عرصے سے کسی ماہر نفسیات کے پاس علاج کی غرض سے جا رہے ہیں مگر ان میں بہتری کی شرح زیادہ متاثر کن نہیں ہے اور جب وہ ماہر نفسیات کے پاس جانا ترک کر دیتے ہیں تو وہ واپس اپنی مرض کی پہلے والی سطح پر آ جاتے ہیں ۔

درج بالا دونوں پہلوں میں صداقت تلاش کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان میں رائج نفسیاتی علاج کے لیے فراہم کی جانے والی سہولیات کا جائزہ لیا جائے اور اس بات کا ادراک کیا جائے کہ نفسیات کے شعبے میں کون سے ماہرین خدمات مہیا کر رہے ہیں اور لوگ اس علاج سے اتنا مستفید کیوں نہیں ہو رہے۔

پاکستان میں ماہر نفسیات کو بنیادی طور پر دو قسم کے پروفیشنل میں تقسیم کیا جا سکتا ہے اول سائیکاٹرسٹ ہیں جو ایم بی بی ایس کی ڈ گری کے بعد سائیکاٹری میں سپیشلائزیشن کرتے ہیں اور ان کا بنیادی کام علامات کی   بنیاد پر ادویات کے ذریعے علاج کرنا ہوتا ہے سا ئیکا ٹرسٹ زیادہ تر چند ابتدائی سوالات کے بعد مریض کومتعلقہ مرض کے حوالے سے ادویات تجویز کر دیتے ہیں جس کو مریض استعمال کرتا ہے چونکہ ادویات کا کام خود کار ہوتا ہے وہ جسم کے اندر ہوئی کیمیائی تبدیلیوں کو اعتدال پر لاتی ہیں ایسے علاج کے طریقے میں مریض کو صرف دوائی کھانی پڑتی ہے نہ کہ خود سے کوئی کوشش کرنی پڑتی ہے اب ہوتا یہ ہے کہ زیادہ تر سائیکاٹری کی ادویات میں غنودگی ہوتی ہے جس کو کھالینے کے بعد مریض زیادہ وقت تک غنودگی کے زیر اثر رہتا ہے یا پھر تمام دن سویا رہتا ہے جس سے اس کے روزمرہ کے کام کاج اور ذمہ داری پر اثر پڑتا ہے ادویات کااستعمال بہت سے دوسرے سائیڈ ایفیکٹس بھی ساتھ لاتا ہے جس کے لیے مریض جسمانی اور ذہنی طور پر تیار نہیں ہوتا ہے ۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ادویات کے استعمال کے ذریعے علاج کرنے سے دماغی کیمیکل کا عدم توازن تیزی سے درست ہوتا ہے صحت کی بحالی جلد ممکن ہوتی ہے البتہ یہ سمجھنا ضروری ہےکہ ان ادویات کا استعمال ان امراض کے لیے زیادہ بہتر ہے جس میں مرض کی شدت بہت حد تک بڑھ گئی ہواور مریض کو جو فرسٹ لائن ٹریٹمنٹ دی جائے وہ ادویات ہوں نفسیات کے دائرے میں ایسے بہت سے امراض ہیں جیسا کہ شیزو فرینیا ، سائیکو سس، بائی پولر ڈس آرڈر میں ادویات کا کلیدی کردار ادا کرتی ہیں ۔

نفسیات کا دوسرا پروفیشن کلینکل سائیکالوجسٹ ، کونسلر اور تھراپسٹ کا ہے۔اس پروفیشن سے وابسطہ لوگ ایم۔بی۔ بی ۔ایس نہیں ہوتے مگر ان کی مہارت خالصتاََ نفسیات ، جذبات، رویہ جات اور انسانی کردار کے ساتھ ہوتی ہے ۔ ان کا کام سائیکا ٹرسٹ سے ذرا مختلف ہے یہ مریض کی مادر ِ رحم سے لیکر لمحہ موجود تک تمام ہسٹری کو کھنگالتے ہیں اور مختلف قسم کی جانچ پڑتال کے طریقوں سے سراغ لگاتے ہیں کہ مرض کا آغاز کب اور کیسے ہوا ۔ کونسے ایسے حادثاتی ، شخصیاتی ، ذہنی ، جذباتی پہلو ہیں جس کی وجہ سے مرض کا وجود قائم ہے اور ایسے کون سے ماحولیاتی محرکات ہیں جو اس مرض کو پنپنے کا حوصلہ دے رہے ہیں ۔ اتنی ساری معلومات حاصل کرنے کے بعد ہی کلینکل سائیکالوجسٹ اس نتیجے پر پہنچ پاتا ہے کہ جس سے وہ مریض کا ٹریٹمنٹ پلان ترتیب دے سکے جس میں وہ مل کر طے کرتے ہیں کہ وہ کون سے پہلو شارٹ ٹرم مقاصد کے حامل ہوں گے اور کون سے لونگ ٹرم مقاصد کے ساتھ ہوں گے۔

یہ معاملات طے کرنے کے بعد کلینکل سائیکالوجسٹ مریض کی تھراپی اور کونسلنگ پر توجہ کرتا ہے جو کہ سائیکاٹری سے مختلف ہوتا ہے جس میں ادویات کا عمل دخل نہیں ہوتا بلکہ جانچ پڑتال کے بعد حاصل ہونے والی معلومات کی بنیاد پر مریض کی موجودہ روز مرہ معمول کی تبدیلی ، سوچ اور نظریات کی تبدیلی، سوچ کے غلط انداز کی تبدیلی ، جذبات کے مؤثر اظہار اور دوسروں کے ساتھ رویوں کی تبدیلی سے شروع ہوتا ہے اگرچہ یہ سب لکھنے پڑھنے میں آسان لگتا ہے مگر جب حقیقت میں تبدیلی کی طرف جانا پڑتا ہے تو یہ عمل مشکل لگنا شروع ہو جاتا ہے ۔کیونکہ یہاں پر ذمہ داری خود اٹھانی پڑتی ہے نہ کہ ادویات کے ذمہ لگا کر خود کی بہتری کی خواہش کرنا ہوتی ہے ۔

یہی وہ اسباب ہیں جن کی آگاہی نہ ہونے کے سبب اکثریت سائیکو تھراپی یا کونسلنگ کو فضول گردانتے ہیں اکثریت کے پاس اتنا علم نہیں ہوتا کہ وہ نفسیاتی علاج کے پراسس کو سمجھ کر اسکے مطابق پختہ عزم اور مستقل مزاجی کے ساتھ معالج کی دی گئی ہدایات اور طریقہ کار کو اپنا سکیں جس کا نتیجہ علاج میں غیر سنجیدگی کے عنصر کو بڑھا دیتا ہے جو بلآخر علاج سے منہ موڑ لینے پر منتج ہوتا ہے ۔ نفسیاتی علاج میں حائل دوسری بڑی رکاوٹ مریض کا عدم تعاون اور ان واقعات و حادثات کو چھپا لینا ہے جن کا ان کی مرض کے ساتھ ڈائریکٹ اور گہرا تعلق ہوتا ہے اکثر مریض سمجھتے ہیں کہ ایسی پرسنل باتیں بتانے سے کوئی فائدہ نہیں یابتا کر شرمندگی کیوں لیں مگر یہ بات دراصل بالکل درست نہیں ہے ۔ مریض کے لیے ضروری ہے کہ وہ اعتماد کے ساتھ تمام باتیں بتائے اور بھروسہ رکھے کہ اس کی باتیں کسی دوسرے کے علم میں نہیں آئیں گی ۔ جب تک مریض اور معالج میں بھروسے اورآمادگی کی یہ سطح نہیں آ جاتی تب تک معالج بھی بہتر مدد نہیں کر پاتا۔ کیونکہ زخم کو دکھائے بغیر کوئی بھی معالج اس کے لیے بہتر علاج تجویز نہیں کر سکتا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تیسری بڑی وجہ جو نفسیاتی علاج کے مؤثر ہونے میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے وہ ہے مریض کا خودکو حالات کے مطابق ڈھالنے میں رکاوٹ اور ان عادات کو ترک کرنا اور اس میں موجودہ مسائل کو قائم کیے ہوئے ہے ۔ نفسیاتی امراض کے ساتھ جب بھی کوئی مریض معالج سے علاج کروانا شروع کرتاہے تو اس کے ذہن پر صرف یہی بات سوار ہوتی ہے کہ معالج کوئی جادو کی چھڑی گھمائے اور باقی دنیا کو اس کی سوچ کے مطابق کر دے جب کہ خوش فہمی کی یہ سطح اس کے مسائل کو حل نہیں ہونے دیتی اور جلد ہی مریض فیصلہ کر لیتاہے کہ میرے مسائل کا حل اس ماہر نفسیات کے پاس نہیں ہے اگرچہ یہ سوچ صرف مریض کی ذاتی سوچ تو ہو سکتی ہے مگر اس کا علاج کی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا کیونکہ ماہر نفسیات کا بڑا کام سوچ کے توازن سے متعلقہ ہوتا ہے ۔ اور وہ کوشش کرتا ہے کہ مریض کو سوچ کے ان پیٹرنز پر بات کرنے کا موقع دے جو اس کے لیے مناسب نہیں ہیں اور سوچ کی ان دھاروں کو حقیقیت اور منطق کے رنگ میں رنگ لے۔ جس سے مسائل کو دیکھنے پرکھنے اور ان کے حل کے نئے پہلو      ملتے ہیں جس سے مریض آہستہ آہستہ اپنی زندگی کو بہتری کی طرف لانا شروع کرتا ہے ۔

 

Facebook Comments

Tanvir Sajeel
تنویر سجیل ماہر نفسیات حویلی لکھا (اوکاڑہ)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply