• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • جدید ریاست میں جمہوریت، ثقافت، شناخت اور مذہب کا کردار!

جدید ریاست میں جمہوریت، ثقافت، شناخت اور مذہب کا کردار!

ہماری قوم قیام پاکستان کے وقت جس نظریاتی الجھن کا شکارہوئی تھی وہ الجھن آج بھی ویسے ہی توانا ہے۔سات عشرے گزرنے کو ہیں اور بنیادی نکات پر قومی اتفاق رائے ایک خواب ہی ہے۔ ان بنیادی نظریاتی سوالات میں اول درجے پر فائز سوال یہ ہے کہ’’کیا پاکستان کو ایک جدید جمہوری فلاحی ریاست ہونا چاہیے؟ یا پھر ایک جدید اسلامی ریاست‘‘؟ باقی سارے سوال اس بنیادی سوال سے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ایک خالصتا علمی بحث میں جائے بغیر اگر عوامی سطح پر اس قُزح کا تجزیہ کیا جائے تو اس الجھن کوسلجھانے میں کافی مدد مل سکتی ہے۔ اس سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش میں نظریاتی تعصب کو یکسر رد کرنا ممکن ہی نہیں اس لئے بحث میں لائی جانے والی کوئی بات بھی حتمی نہیں اور تصویر کا دوسرا رخ اپنی پوری آب و تاب سے موجود رہے گا۔
سب سے پہلے جس نکتے پر بحث ہونا ضروری ہے وہ ہے کہ قومی ریاست کسے کہتے ہیں؟ تقسیم ہند کے وقت دنیا بھر میں بادشاہت کے زوال اور قومی ریاستوں کے عروج کا زمانہ تھا۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ دینا اس دور میں قومی ریاست کے نظریے کے سحر میں مبتلا تھی تو غلط نہیں ہو گا۔ قومی ریاست کی تعریف کچھ یوں ہو سکتی ہے۔ ’’ایک ایسی ریاست جس میں سیاسی قوت کا ماخذ وہاں بسنے والی غالب(آبادی) نسل، زبان اور ثقافت کی اکائیاں ہوں‘‘۔ جب بات برصغیر کی ہو تو اس میں نسلی اور ثقافتی تنوع بے پناہ پایا جاتا تھا۔ بیسویں صدی کے وسط میں یہ خطہ کسی قومی ریاست کا قیام کے لئے بلکل بھی موزوں نا تھا۔ قومی ریاست کے اس بیانیے کی روشنی میں1947 میں صرف 2 نئی ریاستوں کا قیام ایک بحث طلب بات ہے! اس بحث میں پڑے بغیر کے تقسیم کے فیصلے کی آخر ضرورت ہی کیا تھی؟ کوئی تو بڑی وجہ تھی کہ تقسیم ہوئی۔ اب بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔
اب جب تقسیم کا حتمی فیصلہ ہو ہی گیا تو اس تقسیم کو مذہب کے علاوہ کوئی دوسرا سیاسی جواز دینا ممکن نہیں رہا تھا۔ اس وقت اکٹھ ہند کے حامی برصغیر کے تمام باسیوں کو انڈین الانسٰل مانتے تھے۔ جبکہ تقسیم کے حامی اس بات پر زور دے رہے تھے کی قوم کی بنیاد نسل اور ثقافت نہیں بلکہ دین ہوتا ہے۔ اس موقع پر سب سے اہم سوال یہ تھا کہ قوم کی تشریح کیا ہے؟ ایک نظریہ یہ تھا کہ انڈین ایک ہی قوم ہیں اور اس کی تقسیم نہیں ہونی چاہیے۔ دوسرا نظریہ یہ تھاکہ مذہبی بنیاد پرمسلمان ایک الگ قوم ہیں اور ان کا ہر صورت الگ ملک ہونا چاہیے۔سیاسی تعلیم کی کمی اور عدم حکمرانی کے تجربے کی وجہ سے اس وقت کے برصغیر میں رہنے والی ہندو اور مسلمانوں کے علاوہ باقی قومیں تقسیم ہند کے سوال سے قدرے لاتعلق ہی رہیں۔ یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ تقسیم ہند پر مکمل اتفاق رائے نا ہو سکا اور ایک سیاسی سمجھوتے کے علاوہ کوئی اور چارہ بھی نا رہا تھا ۔ مسلم مذہب کے ماننے والوں کے علاوہ کسی اور مذہب کے پیروکاروں نے اپنے لیئے ایک الگ ریاست کا مطالبہ نہیں کیا۔دوسری طرف مسلمانوں کی بھی ایک بڑی تعداد نے ہجرت کی بجائے اپنی موجودہ جگہ پر ہی رہنے کو ترجیح دی (یہ بات دو قومی نظریے کی نفی ہے)۔ بوقت تقسیم مغربی اور مشرقی پاکستان سے ملحقہ علاقوں میں آر پار بڑے پیمانے پر ہجرت ہوئی۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ جو قتال مغربی حصے اور خصوصا پنجاب اور کشمیر کے علاقے میں ہوا اس کا 5 فیصد بھی سندھ سے ملحقہ اور مشرقی حصے میں دیکھنے میں نہیں آیا؟ بھارتی بنگال اور بہار سے مشرقی پاکستان جانے والوں کو وہ دکھ نہیں دیکھنا پڑا جو پنجاب اور ملحقہ علاقوں کے حصہ میں آیا۔ اب یہ سوال بہت وزن دار ہو جاتا ہے کی تقسیم ہند کا قتال مذہب کے نام پر ہوا یا اس کےبنیادی محرکات کچھ اور تھے؟ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ مذہب ہی بنیادی محرک تھا تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا اثر پھرمشرقی اور سندھ سے ملحقہ علاقوں میں اتنا کم کیوں تھا؟ یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ قومی ریاستوں کے عروج پر برصغیر میں نئی بننے والی دونوں ریاستوں کو ہی جب ایک جیسی نظریاتی الجھن اور چیلنج کا سامنا تھا تو آگے بڑھنے کا بہتر نظریہ اور طریقہ کار کیا ہو سکتا تھا؟ اب جب کہ تقسیم کو70 سال کا عرصہ گزر گیا ہے اور بہت سارے تجربات بھی کر لئے گئے ہیں تو اس موضوع پر بات ہو سکتی ہے۔ یہ بات بھی بڑی واضح ہے کہ جس پارٹی نے مذہب کوتقسیم کا جواز بنایا اس نے بعد میں مذہبی ریاست کو فروغ دینے کی کوششیں کیں اور جس نے قوم کو جواز بنایا اس نے جمہوریت اورسیکولرازم کا سہارا لیا۔
انسان، قوم اور قبیلے اپنی کچھ خصوصیات کی بدولت اپنی شناخت بناتے ہیں۔ یہ شناخت، علاقہ، زبان، رنگ، نسل، سیاسی و مذہبی عقائد یا پھر کسی ذات اور رتبے کی بنیاد پر ہو سکتی ہے۔لوگ اپنی شناخت پر فخربھی کرتے ہیں اور عموما کسی نا کسی اعتبار سے اپنے آپ کو دوسروں سے افضل اور بہتر ثابت کرنے کیلئے اپنی روایات کی مثالیں بھی دیتے ہیں۔ اس کا عملی مظاہرہ ہمارے معاشرے میں آپ آئے روز دیکھتے ہیں۔ جیسے سیدّ اپنے آپ کو سب مسلمانوں سے افضل قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح جٹ ، ارآیئں، شیخ، کشمیری، راجپوت سے بات کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر کوئی دوسرے سے افضل ہے۔ پٹھانوں، بلوچوں اور سندھیوں میں بھی صورت حال بلکل ایسی ہی ہے۔ ہر کوئی خود کو اصلی پٹھان، اصلی بلوچ اور اصلی سندھی قرار دیتا ہے۔ اگر اردو بولنے والوں سے بات کی جائے تو وہ سب کو جاہل قرار دے دیتے ہیں۔ یہ صورت حال ہندو، سکھ ، بدھ ، جین، عیسائی اور برصغیر کے دوسرے مذاہب میں بھی بہت گہری ہے۔ ساوتھ انڈین خود کو نارتھ انڈین سے بہت اعلیٰ خیال کرتے ہیں۔ اس بحث کا مقصد اس نکتے کو ثابت کرنے کی کوشش کرنا ہے برصغیر کا معاشرہ پہلے بھی عدم برابری پر قائم تھا اور آج بھی اسی ڈگر پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تقسیم ہند کے وقت بھی جب شناخت کی بات آئی تو وہ دو بڑے مذاہب کی بنیاد یعنی ہندو اور مسلم پر ہی طے ہوئی۔
اب شناخت اور عدم برابری کی اس علمی بحث کی روشنی میں قومی ریاست کے رہنما اصولوں کو جوڑ کر دیکھا جائے تو تقسیم ہند کے بعد شناخت کے نام پر مزید علیحدگی پسند تحاریک کا آغاز عین فطری تھا۔ اسی لیئے ہمیں بنگال، آسام، ناگا لینڈ، کشمیر، خالصتان، سندھو دیش، آزاد بلوچستان جیسی بے شمار مثالیں ملتی ہیں۔ ایک ساتھ لمبے عرصہ تک اکٹھے رہنے سے ثقافت میں بہت ساری قدریں مشترک ہو جاتی ہیں۔ اب امریکہ کو ہی لے لیں۔ وہاں پر سب سے بڑا تہوار شکر گزاری (تھینکس گیونگ) کا ہے۔ ہر نسل کا امریکی یہ تہوار پورے جوش و جذبے سے مناتا ہے۔ یورپ، افریقہ اور ایشیا کے بر اعظموں میں بھی کئی ثقافتی تہوار مشترک ہیں۔ ایک ہی زبان بولنے والے یا ایک ہی ثقافت کے پیروکار ایک دوسرے سے میل ملاپ پر زیادہ خوشی اور آرام دہ محسوس کرتے ہیں۔ ایک پٹھان دوسرے پٹھان کو دینا میں کہیں بھی مل جائے ان کی خوشی دیدنی ہوتی ہے یہی حال سندھی، پنجابی، انگریزی، عربی اور چینی بولنے والوں کا ہے۔ تاہم ثقافت کو ایک مضبوط ریاست کا بنیادی عنصر قرار نہیں دیا جا سکتا۔
یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کی کیا صرف مشترکہ ثقافت ، سیاسی یا مذہبی عقائد پر کوئی ریاست مضبوطی سے قائم رہ سکتی ہے؟ متحدہ روس (یو ایس ایس آر) کے ٹوٹنے سے صرف سیاسی عقائد پر مبنی ریاستوں جن میں قومی شناخت نا ہو ان کا قائم رہنا غلط ثابت ہو گیا۔ روس بھی قومی ریاست کے نظریے کے مطابق قومیت کی ہی بنیاد پرتقسیم ہوا۔ جیسے ازبک، تاجک، چچن وغیرہ وغیرہ۔۔ اس کے مقابلے میں ایران اور اسرائیل کی مثالیں مختلف ہے۔ ایران میں مذہبی عقیدہ کے ساتھ ساتھ نسلی اور قومیتی ہم آہنگی بھی پائی جاتی ہے۔ ایران کے برعکس یہودیوں کے صفہ ہستی سے مٹنے کے خوف نے اسرائیل کو مضبوط ریاست بنا رکھا ہے۔ اس کا بڑا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک مضبوط ریاست کے بنیادی عناصر میں ایک نسل، ایک نظریہ، مشترکہ ثقافت یا ایک مشترکہ بڑا فائدہ یا ایک بڑا نقصان کا ہونا شامل ہیں۔جس ریاست میں ان میں سے جتنے زیادہ عناصر ہوں گے وہ ریاست اتنی ہی زیادہ مضبوط ہو گی۔ کسی ایک ریاست میں مختلف قوموں کی موجودگی میں، مشترکہ فائدہ، ہموار ترقی، ثقافت اور ریاستی وسائل کی مساوی تقسیم اس کی مضبوطی کے اہم عناصر ہو سکتے ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ان عناصر میں مذہب شامل نہیں کیونکہ اگر مذہب کے عنصر کو شامل کر لیا جائے تو پھر دینا میں ایک ہی عیسائی اور ایک ہی مسلمان ملک ہونا چاہیے تھا! جدید ریاست سے قبل ایسا ہی تھا مگر اب وہ طریقہ رائج نہیں رہا۔ جدید تعلیم اور نئی انتظام کاری کے طریقے اور انسانی برابری کا نظریہ اب زیادہ سے زیادہ لوگوں کو فیصلہ سازی میں شریک کرنے کا حامی ہے۔
اب بات ہو جائے جمہوریت کی۔ اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ آج کا دور انسانی برابری کو زیادہ سے زیادہ یقینی بنانے کا دور ہے۔ اسے میں جمہوری نظام سب سے زیادہ مناسب سیاسی نظام نظر آتا ہے۔ کسی بھی نظام میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی ضروری ہوتی ہے۔ جمہوریت میں بھی اب بہت سی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ اصل جمہوریت کی بحث کو ایک طرف رکھتے ہوئے یہ بات بھی سچ ہے کہ ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی اور مناسب متبادل سیاسی نظام ابھی تک موجود نہیں۔ ہمارے جیسا معاشرہ جو عدم برابری کی بنیاد پر قائم ہے اور جمہوریت جس کی بنیاد مساوات ہے ایک دوسرے کی ضد نظر آتے ہیں۔ یہ تاثر ہے کہ ہمارے مقابلے میں بھارت نے پارلیمانی جمہوریت سے زیادہ فائدہ اٹھایا ہے۔ اس کی بڑی وجہ بھارت کا سیکولر آئین ہے (گو کہ وہاں پر اس کی پریکٹس پر کئی سوالات ہیں)۔ زیادہ قومیں اور زیادہ عدم برابری کے مسائل ہونے کے باوجود صرف سیکولرازم کے اپنانے سے بھارت کو زیادہ فائدہ ہوا۔ اب بھارت میں اس سوچ کی دن رات پرورش کی جا رہی ہے کہ وہ جلد ایک سپر پاور بن جائے گا۔ سپر پاور کا حصہ ہونے کا خواب دیکھلانا دراصل بھارت کی ریاست کو مضبوط بنانے کی ایک سوچی سمجھی سکیم نظر آتی ہے۔ اگر یہ خواب نا دیکھایا جائے تو وہاں علحیدگی پسندی کی تحریکیں زور پکڑ جایئں گی۔ اسی طرح پاکستان میں بھی مضبوط ریاست کیلئے، رنگ ، نسل، زبان اور عقیدے سے بالا تر قومی برابری، وسائل کی منصفانہ تقسیم اور مشترکہ بڑے فائدے کو یقینی بنانا ہو گا۔ ان عناصر کی عدم موجودگی میں مضبوط ریاست کا خواب کافی مشکل نظر آتا ہے۔

Facebook Comments

عبیداللہ چوہدری
ابلاغیات میں ماسٹر کرنے کے بعد کئی اردو اخباروں میں بطور سب اڈیٹر اور روپوٹر کے طور پر کام کیا۔ گزشتہ18سال سے سوشل سیکٹر سے وابستگی ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply