آسڑیلیا میں بکرے کی تلاش۔۔عاطف ملک

پچھلے سال عیدِ قرباں پر پرتھ میں ایک مسلم قصائی کو بیعانہ کے طور پر دو ہفتے قبل پیسے دے دیے تھے۔ اُس نے ایک پرچی عطا کی اور کہا کہ عید سے اگلے دن آپ کو گوشت ملے گا، سو عید کے اگلے دن اُن کے درِ دکان پر حاضری دی  جہاں اپنے جیسے اور بھی مشتاقان  کی قطار تھی۔ ہر ایک کے ہاتھ میں پرچی تھی اور کسی کی پرچی نہ چل رہی تھی۔ پتہ یہ چلا کہ قصائی کہیں کا بھی ہو، اوصاف  ایک سے ہی ہیں۔

ہم نے کافی تانک جھانک کی مگر کوئی بکرا نہ نظر آیا۔ پتہ چلا کہ جانور کہیں اور سے ذبح ہوکر کسی گاڑی  پر لاد کر لائے گئے تھے اور دکان پر بس آخری ٹکڑوں میں کاٹے جارہے ہیں۔ اب ایسی بقرعید جس میں بکرا بھی نہ نظر آئے، کیا عید ہوگی؟ مگر بھلا ہو قصاب کا  کہ اُس نے اپنے قصابوں کی یاد  تازہ رکھی۔ خدا خدا کر کے انہوں نے ہمیں ایک براؤن   کارٹن عطا کیا، اپنے ہاں تو ایسے کارٹنوں میں میڈیکل سٹوروں میں دوائیوں کی   ترسیل ہوتی ہے ۔ پتا چلا کہ اس میں گوشت ہے، اور ساتھ حوصلہ بھی دیا کہ دوائیوں کی طرح اس سے بھی افاقہ ہوگا۔ اب ایک پورا بکرا ایک پانچ سے سات کلو کے کارٹن میں، کدھر گئے سری پائے، کلیجی  پپھرے، چپ رہے، ہمیں بزرگوں نے بتایا  تھا کہ قصائیوں سے بحث میں نہ پڑیں، ہار میں تو نقصان ہے ہی ہے، جیت میں بھی زخمی ہونے کا خطرہ ہے۔ سو صاحبو، پردیس میں عید جیسے شیرخورمہ  بغیر میٹھے کے، اور جان لیں کہ شیرخورمہ تو شوگر کا مریض بھی بھرپور میٹھے کے  ساتھ ہی کھاتا ہے۔
سو اس سال ہم نے فیصلہ کیا کہ جو بھی ہواس سال قربانی اپنی آنکھوں سے بکرا دیکھ کر ہی کریں گے، آخر قربانی ہے کوئی شادی تو نہیں کہ بغیر دیکھے ماں باپ کے کہنے پر ہو جائے۔ سو تلاشِ بکران میں نکل پڑے ، سو میل کے سفر کے بعد ایک فارم  پہنچے اور اپنے لیے ایک بکرا پسند  کیا۔ یہ جنگلی بکرے ہیں، جنگل میں پلے بڑھے، خودرو  پودے اور بوٹیاں کھا کر جوان ہوئے۔ کسی جنگلی کو دیکھ  کر اتنی خوشی پہلے کبھی نہ ہوئی تھی ۔
 بکروں سے فارغ ہوکرایک قریبی ساحل چلے گئے کہ سنا تھا کہ اس سے بھی خوشی میں اضافہ ہوتا ہے۔
بالآخر بقرعید کا دن آیا اور ہم  دوبارہ سو میل کے سفر پر چل نکلے کہ بکرا بلاتا ہے۔ سڑک سے اترے اور گاڑی کچے پر  لے چلے کہ بکرے نے کہا تھا کہ انہی  راستوں پرچل  کر اگر آسکو تو آؤ۔ مگر ہم ٹھہرے سدا کے بھلکڑ آخر میں جا کر راستہ بھول گئے۔ یہ زندگی میں کئی دفعہ دیکھا کہ سفر لمبا ہو تو  افراد اور قومیں منزل پر پہنچنے کی بجائے راستے میں ہی گم ہو جاتی ہیں۔ کبھی سہل پسندی، کبھی غلط موڑ، کبھی غلط رہبرغرض ہر دم اپنے عمل اور سفر کا حساب کرنا پڑتا ہے،  تبھی منزل تک رسائی ہوتی ہے۔
بھلا ہو ٹیکنالوجی  کے رہبر کا، کسی نے جی پی ایس پر جگہ کے طول و عرض بلد کے نقاط  بھیجے تو ہم بکرے تک پہنچ  پائے۔ کچھ  یار لوگ صراط مستقیم پرچل کر ہم سے پہلے وہاں پہنچے ہوئے تھے۔ بعض ہماری طرح اپنے بچوں اور فیملی کو بھی لے کر آئے تھے۔ آٹھ  دس خاندان ہونگے، بچے باڑے کے اردگرد یوٹیوب اور دوسری ویڈیوز سے نکل  کر حقیقی  بکروں کو دیکھ  رہے تھے اور بکرے کہ جن کی زندگی آسڑیلین غیرآباد علاقوں میں گذری تھی، ہم لوگوں کو حیرانی سے دیکھ رہے تھے؛ دو ٹانگوں کی مخلوق اور وہ بھی اتنی انہوں نے پہلے نہ دیکھی تھی۔ غرض دونوں طرف تھی آگ برابر لگی ہوئی۔
سب سے پہلا کام بکرے کو باڑے سے پکڑ کر نکالنا تھا۔ جیسے  پہلے ذکر ہوا کہ یہ جنگلی بکرے تھے، تہذیب سے دور انکی پرورش ہوئی تھی سو کسی پچکارنے پر نہ آتے تھے۔ جنگلی ہونے کی بنیاد پر انہوں نے داڑھی اور سینگ بھی بڑھا رکھے تھے۔ سینگ جانور کے بڑے ہوں، تو بہت  خوبصورت  لگتا ہیں مگر تجربہ کہتا ہے کہ خوبصورت چیزیں زخم بھی گہرا دیتی ہیں۔ سو  یار لوگوں نے اس کا توڑ  یوں نکالا کہ موقع پاتے ہی کوئی دونوں ٹانگوں سے بکرے کی گردن پر سوار ہوجاتا اور اُس کے سینگوں کو موٹر سائیکل  کے ہینڈل کے طور پر پکڑ لیتا۔ بکرا چلنے کو تیار نہ ہوتا،  سو اسکی پچھلی ایک ایک ٹانگ  کو دو اصحاب قابو  کرتے اور بلند کرتے، سو بکرا ہتھ گاڑی یعنی ویل بیرو کی شکل میں قربان گاہ تک لایا جاتا۔ ایک بکرے نے تو اس سلوک پر اتنا برا منایا کہ گردن پر چھری چلی ہونے کے باوجود ایسی ٹانگ چلائی کہ معاملہ بھائی لوگوں کے ہاتھ سے نکل گیا، اور خون پھینکتا بکرا آگے اور اُسی موٹر سائیکل سے اُترے بھائی لوگ پیچھے بھاگ رہے تھے۔ ایسا بھاگا کہ پیچھے بھاگنے والوں کو براعظم آسڑیلیا  کی لمبائی چوڑائی کی سمجھ آگئی۔
قصائی ایک تھا اور بکرے زیادہ، اوپر سے وہ بھی جنگلی، سو انسانیت اکٹھی ہوگئی۔ بھائی لوگ مل جل کر مدد کرنے لگے۔ کوئی بکروں کو حسب طاقت پکڑ رہا  تھا، جوان لوگ  انہیں گرانے اور لٹانے میں قصاب کی مدد کر رہے تھے، ایسے میں جو یہ نہ کر پائے وہ کمنٹری کرکے اپنا اور دوسروں کا  لہو  گرم رکھ رہے تھے۔ غرض ایک محبتانہ ماحول پیدا ہوگیا، لوگ کھانے پینے کی اشیاء ایک دوسرے میں بانٹ رہے تھے،  بچوں کو بھاگنے دوڑنے کی جگہ میسر ہو گئی، خواتین آپس میں گپ شپ میں مصروف تھیں، غرض پردیس میں عید دیس کی عید کا رنگ لیے تھی۔
گوشت  کاٹنے کی مشین  شروع میں چل رہی تھی، پھر چلتے چلتے رکنے لگی، بعد ازاں رک رک کر چلنے لگی اور پھر  رک ہی گئی۔ سو   ذبح ہوا بکرا  ا ب کاندھے سے گاڑی کی ڈگی میں اور   ہم شہر کو جاتے ہیں کہ کسی اور قصائی سے بقیہ فیض پاتے ہیں۔

Facebook Comments

عاطف ملک
عاطف ملک نے ایروناٹیکل انجینرنگ {اویانیکس} میں بیچلرز کرنے کے بعد کمپیوٹر انجینرنگ میں ماسڑز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کے شعبہ کمپیوٹر سائنس میں پڑھاتے ہیں۔ پڑھانے، ادب، کھیل ، موسیقی اور فلاحی کاموں میں دلچسپی ہے، اور آس پاس بکھری کہانیوں کو تحیر کی آنکھ سے دیکھتے اور پھر لکھتےہیں۔ یہ تحاریر ان کے ذاتی بلاگ پر بھی پڑھی جاسکتی ہیں www.aatifmalikk.blogspot.com

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply