گروہ پسندی ایک قومی المیہ اور اس کا حل۔۔۔ ظفر راٹھور

اگر ہم ایک گھر کے اندر ہیں تو ایک بھائی کو دوسرے پہ مسابقت، بھائیوں کو بہنوں پہ برتری، حضرات نے خواتین کا جینا دو بھر کیا ہوا۔ والدین کی اولاد سے محاذ آرائی۔ اولاد کے والدین سے شکوے۔ ایک گھرانہ برادری کے دیگر گھروں سے الجھا ہوا۔ دو ، دادوں کو اولاد میں سے ایک زیادہ زُعم کا شکار اور دوسرے کو نیچا دیکھانےکو بے تاب۔ ایک پوری برادری دوسری برادری کے ساتھ پنجے آزمانے کے چکر میں۔ ایک ضلع کے لوگ دوسرے ضلع والوں پہ برتری اور خاندانی پن ثابت کرنے میں لگے ہوئے۔ جبکہ صوبائیت کی سطح پہ تو اعلی پائے کے متعصب و نفرت والے دماغ اکٹھے ہو کر یہ زہر بھرپور طریقہ سے اچھالنے کے ماہر ہوتے ہیں۔

دوسری طرف اہل ِ سیاست اپنے گُل کھلاتے ہیں۔ ہر پانچ سال بعد نوکیلے منہ نکالے ہوئے در در پہ پھر کے یقین دلانے پہ لگے ہوئے ہیں  کہ ان سے مخلص، سنجیدہ، منصوبہ ساز، باکردار، ذمہ دار اس روئے زمین پہ آج تک کوئی پیدا ہی نہ ہو سکا۔ بس یہ چار اشاریہ  انو سال پتہ نہیں کیسے گزر گئے کہ کوئی عملی کام کرنے کی فرصت نہ آ سکی۔ یہاں تک ہی بات محدود ہوتی تو پھر بھی بڑی بات تھی۔ لیکن یہ شیطانی آنت والا معاملہ ہے۔ اب غیرت جگائی جائے گی۔دوسرے برادری سے ڈرایا جائے گا۔ ان کے خلاف اکسایا جائے گا۔ اپنی پاکی داماں کی حکایت ہو گی اور انکی تر دامنی کی شکایت ہو گی۔ خواب ہوں گے، سراب ہوں گے، اب سب کچھ ہی آنجناب ہوں گے۔ معافی تلافی کے بعد پھر نئے جوش اور جذبہ سے مومنین اسی سوراخ سے ڈسنے کو بے تاب ہوں گے۔

اہلِ مذہب نے ایک الگ دنیا بسائی ہے۔ ان کی دسترس اقتدارتک کم ہے اس لئے زمین کے نیچے اور آسمان کے اوپر کی باتیں بیان کی جائیں گی۔ اپنے آپکو یہ ثابت کرنے کی کوشش ہو گی کہ ہم ہی اصل نمائندگانِ خداوند ہیں۔ دوسرے والے مشرک، کافر، رافض، اور سینکڑوں ایسی اصلاحات کا تڑکا لگے گا۔ اور وہ جو دوسرے والے ہیں، انکے پاس جائیے تو پہلے والوں کو بھول جائیے، اتنا اعتماد، اتنی بلاغت، اتنےحوالے کہ بندہ وہیں کا ہو کے رہ جاتا ہے۔ ایک ہی بات کو دو مختلف لوگ اس فصاحت اور اعتماد کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ بندہ حیرت کدہ میں کھو کے رہ جاتا ہے۔ ان دونوں کے علاوہ ان سب کا بھی ایک منکر طبقہ ملے گا۔ جو دلیل کی بات کرے گا۔ سائنسی ثبوت مانگے گا۔ نہیں ملیں گے تو جہالت کا دم لگا کے ہی چھوڑے گا، بے شک آپ اپنی فیلڈ کے طرم خان ہی کیوں نہ ہوں۔ وہاں آپ جاہل ٹھہریں گے کہ انکی سوچ سے آپ اشتراک پیدا نہیں کر رہے۔

تیسرا طبقہ سویلین اور غیر سویلین سرکاری اشرافیہ کا ہے۔ کہنے کو دونوں اسی ریاست کے ملازم ہیں۔ ریاست نے عوام کو سہولت باہم پہنچانے کے لئے رکھے ہیں۔ لیکن سوائے سہولت کے انہوں نے سب کچھ مہیا کیا جس کی طلب تو درکنار، بنیادی ضرورت بھی نہ تھی۔ کلر ک سے لے کے سیکرٹری تک بھیڑیوں کی ایک فوج عوام کے ٹیکس پہ پل رہی ہے۔ اور کام انکا صرف اس کام میں رکاوٹ بننا ہے جس کے کرنے کے لئے ان کو ریاست نے تنخواہ پہ رکھا ہے۔ غیر سویلین کا تو سنا ہے وہ مسئلہ تودرکنار بندہ ہی غائب کرنے کے زیادہ ماہر ہیں۔

اس کی اگر نفسیاتی جڑیں تلاش کی جائیں تو ہمیں ہندو دھرم کی ذات برادری کی تقسیم میں جا کے ملتی نظر آتی ہیں۔ برہمن اپنی عبادات و قربت ِ بھگوان کے نشہ میں ڈوبے ہوئے ، کھشتری لڑ بھڑ کے اپنی بقا کی جنگ لڑتے، اور شودر شور شرابہ کے شوقین، ہر بتی کے پیچھے ، اپنے حقوق کے متمنی لیکن فراست سے محروم ایک بھیڑ چال کا منظر پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ برہمن اور کھشتری اِن اچھوتوں کا بھرپور استعمال کرنے کے لئے نئے نئے گُرتلاش کرتے نظر آتے ہیں۔ اور شودر طبقہ بھرپور استعمال ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔

ہم نے اس نظام سے چھٹکارہ کے لئے پاکستان تو بنا لیا لیکن یہ نظام ہماری نفسیات کا پیچھا نہ چھوڑ سکا۔ یہاں پہ کون برہمن ہیں، کون کھشتری ہیں اور کون شودر، یہ اب ایک عام فہم آدمی کو بھی معلوم ہو چکا ہے۔لیکن ہم سپنوں کی دنیا کے شیدائی باوجود علم کے بار بار ڈسا جانا پسند کرتے ہیں۔ ہم اپنے تائیں مومنین کہلوانے والے، دو بار تو درکنار ہزاروں بار ڈسوا کے بھی اپنے آپ کو مہا گرو سمجھتے ہیں۔

اگر یہ سب بدلنا ہے تو اس کا واحد طریقہ میری نظر میں تمام تعصبات سے پاک ماؤں کی آبیاری کرنی ہو گی۔ اپنے گھر کی بیٹی کو بیٹے کے برابر دیکھنا ہو گا، اس کی تربیت بطور ماں کے جدید سائنسی بنیادوں پہ کرنی ہو گی۔ انہیں معاشرتی تقاضوں سے لے کے بین الاقوامی تقاضوں تک کے حالات سے آشنا کرنا ہو گا۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں پہ طاقتور سے طاقتور فردبھی سر جھکانے کو تیار ہوتا ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں سے دی گئی نفسیات عمر بھر ہمارا ہاتھ تھام کے چلتی ہے۔ یہیں پہ برداشت و فراست کی پنیری تیار کرنی ہو گی۔ جب ایک یونٹ کی سطح پہ بہتری کا آغاز ہو گا تو سارا معاشرہ از خود بہتری کے سفر پہ رواں دواں ہو جائے گا۔ ورنہ ہمیں اس معکوس ترقی سے کوئی روک نہیں سکتے۔ جس میں آگے بڑھیں تو کھائی، پیچھے ہٹیں تو دریا ہے۔ سفر لمبا اور کٹھن ہے لیکن منزل کو جاتا ہے۔ بے نشاں منزلوں کو جانے والے سارے خوبصورت راستے ہم آزما چکے۔ اب مشکل سفر کا آغاز کرنا ہو گا۔ ایک اجتماعی سوچ پیدا کرکے بھرپور توجہ دینی ہو گی۔

جب تک درست بنیاد پہ گھر کھڑے نہیں ہوں گے، تب تک ان کو چولیں ہلتی رہیں گے۔ ذرا سی ہوا کا جھونکا بھی ہماری ہر کمزوری کو برے طریقے سے بے نقاب کر جاتا ہے۔ لیکن سبق ہم سیکھنے سے مسلسل انکاری ہیں۔ سمجھنے کی حس مفقود ہو چکی۔ بس ایک غصہ ہے، ایک حقائق سے راہِ فرار ہے، اور ایک اس سب کا بے سلیقہ و بیہودہ اظہار ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یقین مانئے بحیثیت قوم ہمیں سب سے پہلے انسان بننے کی ضرورت ہے۔ جب ہم انسان بن گئے تو اچھے مسلمان بھی بن سکتے ہیں۔ اچھی قوم بھی کہلوا سکتے ہیں۔ اپنا سکہ بھی منوا سکتے ہیں۔ ابھی کے ہمارے تمام مباحث اس بات کے غماز ہیں کہ ہم ابھی تک نقطہ اول پہ کھڑے ہو کے دعوؤں کے ذریعہ دنیا کو بھی تہس نہس کر رہے ہیں اور جنت پہ بھی قبضہ ہمارا ہی ہے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply