زندگی کے گیت۔۔پروفیسر رضوانہ انجم

آج اپنوں کی بہت یاد آرہی ہے۔ گزرا ہوا بہت حسین وقت،پیارے لوگ اور ان کا ساتھ یاد آرہا ہے۔ میں اپنی کزنز میں سب سے چھوٹی تھی،بہت حاضر جواب اور شرارتی تھی۔ہر کام میں ٹانگ اڑانا فرض تھا چاہے وہ خالہ زاد بھائیوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنا ہو،درختوں پر چڑھنا ہو یا پھر ڈھولک بجا کر گانے گانا ہو۔ نینو(NEENO میرا نک نیم) سب سے آگے ہوا کرتی تھی۔ گھر کی شادیاں ہوں یا فیملی فرینڈز کی میری اور نیّر باجی کی بڑی ڈیمانڈ ہوا کرتی تھی کیونکہ میں ڈھولک ایکسپرٹ اور وہ وٹہ ایکسپرٹ تھیں۔ہم بیٹھے بیٹھے گانے بنا لیتے تھے اور بھائیوں کی سسرال کی خوب کٹ لگاتے تھے۔بہت معصوم دور تھا۔ بہت کھرے اور سچے گیت تھے جو اس وقت کے کلچر اور اسکی سچائی کے ترجمان تھے۔ نہ ان میں بے حیائی تھی اور نہ سستا پن۔۔۔ان گانوں کے بول مجھے آج بھی یاد ہیں مثلاً ایک گانے کے بول کچھ یوں تھے۔۔

کالے رنگ دا پراندہ

میرے سجنا نے آندہ

نی میں چم چم رکھدی پھراں

تے پباں پار نچدی پھراں

کالا اے پراندہ نالے چوڑیاں وی کالیاں

امڑی گھٹاواں آج کالیاں امڑی گھٹاواں آج کالیاں

نی میں اڈیاں چکدی پھراں

تے پباں پار نچدی پھراں

پھلاں آتے جویں کوئی بھور بیٹھا جاندا

اینج اودے مکھڑے دا کالا کالا تل وے

نی میں لک چھپ تکدی پھراں

تے پباں پار نچدی پھراں

اسکا مطلب کچھ یوں ہے کہ میرے سجنا نے مجھے کالے رنگ کا پراندہ لا کر دیا ہے اور میں اسے پیار سے چوم کر سنبھال کر رکھتی ہوں اور خوشی سے ناچتی ہوں

میرا پراندہ بھی کالا ہے اور چوڑیاں بھی اور کالی گھٹائیں امنڈ رہی ہیں۔میں خوشی سے پاؤں کی ایڑھیاں اٹھا کر ناچتی پھرتی ہوں۔

میرے سجنا کے چہرے کا کالا تل یوں ہے جیسے پھول پر بھنورا بیٹھا ہو اور میں چھپ چھپ کر اسے دیکھتی ہوں اور خوشی سے ناچتی ہوں۔۔

آج یہ گیت،اسکے بول اور خیال سب outdated ہو گئے ہیں۔اب ساجن سے سجنی کی توقعات اس قدر بڑھ گئی ہیں کہ وہ غریب آسمان سے تارے بھی توڑ لائے تو بھی سجنی خوش نہیں ہوتی اور زندگی اس قدر تیز رفتار ہوگئی ہے کہ شاید سجنی کو ساجن کے چہرے کا تل دیکھنے کی فرصت ہی نہیں اور اگر دِکھ بھی جائے تو یاد نہیں رہتا۔۔یاد بھی رہ جائے تو اس پر اتنا پیار نہیں آتا کہ اسے لک چھپ کر دیکھنے کی خواہش ہو اورنظر آنے پر پاؤں خوشی سے ناچ اٹھیں۔

انسان روبوٹ اور رویے میکانکی عمل بن گئے ہیں۔۔۔اسی لیے مجھے ماضی اچھا لگتا ہے،سچ میں!

ایک اور گیت جو میں اور نئیر باجی بہت گاتے تھے کچھ یوں تھا۔۔۔۔۔

چن وے کہ شوقن میلے دی

چن وے کہ شوقن میلے دی

پیر دھو کے چانجھراں پوندی

میلدی آ وندی۔۔۔۔

کہ شوکن میلے دی

چن وے کہ ہالیاں نے ہل ڈک لئے۔۔۔۔

چن وے کہ ہالیاں نے ہل ڈک لئے

اودی رنگت سانولی دمکے کے بجلی چمکے

چن وے کہ شوقن میلے دی چن وے۔۔۔۔

چن وے کہ کڑتی توں آگ سمدی۔۔

اودے لہو دی چننی دمکے

کہ بجلی چمکے۔۔۔

چن وے کہ شوقن میلے دی چن وے۔۔۔۔

یعنی گیت کیا تھا ایک کم عمر ،الہڑ اور شوقین مزاج لڑکی کے دل کے سارے چھوٹے چھوٹے ارمان تھے ۔۔

وہ کہتی ہے کہ۔۔۔۔

میرے محبوب،

مجھے میلہ دیکھنے کا اسقدر شوق ہے کہ میں جلدی جلدی اپنے پاؤں دھو کر اور ان میں پازیب پہنتی بھاگتی چلی آتی ہوں کہ کہیں دیر نہ ہو جائے۔۔۔۔

اور میرے محبوب،

جب میری سانولی اور دمکتی ہوئی صورت کھیتوں میں ہل چلاتے جوانوں نے دیکھی تو وہ دم بخود رہ گئے ایسے جیسے کہ انکی آنکھوں کے سامنے بجلی چمک رہی ہو۔۔۔۔۔

میرے محبوب،

میرے کُرتے سے آگ پھوٹ رہی ہے

کہ میرا خون چاندنی بن کر دمک رہا ہے

بالکل ایسے جیسے بجلی بادلوں میں چمکتی ہے ۔۔۔

ان لوک گیتوں میں سادگی اور محبت تھی،کوئی دکھاوا اور بناوٹ نہیں تھی،ان میں مٹی اور مٹی میں پلنے والے لوگوں کی شُدھ مہک تھی،جاندار اور تروتازہ۔۔

میں اکثر سوچتی ہوں کہ گیت انسانی احساسات اور جذبوں کے ترجمان ہوتے ہیں۔یہ انسانی فطرت سے اس قدر نزدیک ہوتے ہیں جیسے دل کا دھڑکنا،سانس کا چلنا،پلکوں کا جھپکنا، آنکھوں میں آنسو بھر آنا،تکلیف سے کراہنا،کھلکھلا کر ہنس دینا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ ہماری ذات کا اظہار ہوتے ہیں اور یہ اظہار ذات بہت ضروری ہے ۔نہ ہوسکے تو انسان اپنے ذہن اور جسم کے اندر قید ہو کر رہ جاتا ہے اور کبھی کبھی تو گھٹن سے دم توڑ دیتا ہے،جذبوں کو،لفظوں کو بھی ۔۔ پرندوں کی طرح آزاد کر دینا چاہیے تاکہ وہ اڑان بھر سکیں، خوشی خوشی زندہ رہ سکیں ۔

 

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply