• صفحہ اول
  • /
  • فیچرڈ
  • /
  • دلیپ کمار کی ایک پرانی تحریر(میری دو دنیائیں)ترجمہ/سعید احمد

دلیپ کمار کی ایک پرانی تحریر(میری دو دنیائیں)ترجمہ/سعید احمد

تم دوسروں کی طرح کیوں نہیں رہے
ہوا کے دوش پر اُڑنے والی گاڑیوں کی لگژری میں ڈوب جاؤ
ایک رسالے کے ٹائیٹل سے دوسرے تک چھا جاؤ اور شہرت کی نئی بلندیوں تک پہنچ کے چالیس کروڑ انسانوں کے دل پر حکومت کرو
کسی نے مجھ سے کہا اور سوچا
شہرت کی نئی بلندیاں
اور پھر میں نے زمین و آسماں کی وسعتوں کی طرف دیکھا اور کہا
لیکن میں اپنے آپ سے غیر، ہر دلعزیز ہونا نہیں چاہتا اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی اپنے آپکو تو پسند نہ کرے اور چاہے کہ چالیس کروڑ انسان اسکو پسند کریں
میں نہیں ہوں جو کچھ میں ہوں تنہائی کے لمحوں میں کچھ دیر اپنے آپ کی طرف دیکھتے ہوئے
مختلف انواع کی چیزوں میں یگانگت کے پہلو تلاش کرتا ہوں
تضادات کے راز سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں اور یہ دریافت کرتا ہوں کہ
میں ابھی تک ایک نیم تحریر شدہ کتاب ہوں
برلن بالکل میری طرح ہے
دو حصوں میں تقسیم
کیا یہ انسانی سماج پر ایک داغ ہے
لوگ کیوں اسکو ٹریجڈی سے منسوب کر رہے ہیں اور بعض اوقات اپنے آپ سے بھی اس میں کوئی ٹریجڈی نہیں ہے
یہ دیوار دو مختلف نظریات رکھنے والوں کی نمائندگی کرتی ہے
یہ دلوں کو بھی کاٹتی ہے
میں یہ دیوار دیکھنے کے لئے نہیں جانا چاہتا مجھے یہ دیوار انسان کا تمسخر اڑاتی نظر آتی ہے
یہ دیوار انسانی فکر کے ارتقا کی نفی کرتی ہے لیکن اس حقیقت سے کیسے انکار کریں کہ یہ دیوار ہماری آنکھوں کے سامنے کھڑی ہے
ہم ہٹ دھرم نسل ہیں اور دنیا میں اپنی اپنی دیواریں اٹھائے پھرتے ہیں
دیوار برلن ٹوٹ چکی   ہے، دیوار برلن گرادی گئی
یہ دیوار فاشزم کا شیطانی کارنامہ تھا
انسان نے ہٹلر اور مسولینی جیسے شیطانوں کے نظریوں کو نیست ونابود کردیا ہے
امریکی انتھک قوت کاردگی کے مالک ہیں مجھے انکی گرمجوشی اور مہمان نوازی کا احساس بے حد پسند ہے، مجھے نیویارک میں وال سٹریٹ کے اجارہ داروں میں بہت سے لوگوں نے یہ سوال کیا تھا کہ میں نے عام انتخابات میں کرشنا مینن کی حمایت کیوں کی، یہ سوال مجھ سے نیویارک برلن اور مختلف کانفرنسوں میں تقریبا ً ہر جگہ کیا گیا
میں نے بتایا تھا مثبت غیر جانبداری زندہ رہنے کے لئے بہترین پالیسی ہے
اس کا یہ مطلب ہرگز یہ نہیں ہم جس کو ٹھیک سمجھتے ہیں اس سے لاتعلقی کا اظہار کریں
یہ پالیسی  استدلال کے دروزے ہر وقت اور ہر جگہ کھلے رکھنے کی اہمیت پر زور دیتی ہے
چاہے ہم کسی جذباتی بحران کا شکار ہوں یا کسی بڑی تباہی کے خطرات ہمارے سروں پر منڈلا رہے ہوں، لیکن امریکہ اور یورپ والوں کی سوئی کرشنا مینن پر اٹک گئی تھی
میں نے ان پر واضح کردیا کہ کرشنا مینن آپکو اس لئے پسند نہیں کہ وہ آپ سے اختلاف کرتا ہے اور آپکو جی حضوریوں کی ضرورت ہے جو آپ سے اختلاف کرے وہ آپکا دوست نہیں ہوسکتا
امریکہ اور یورپ کا انداز ِ فکر خوف کی پیداوار ہے
میں نے ان کو کہا تم کمیونزم سے ڈرتے تھے ہم ہندوستانی کمیونزم سے نہیں ڈرتے اور حقیقت یہ  ہے، ایک صوبے میں ہماری کمیونسٹ حکومت برسرِاقتدار ہے
مجھے شنگریلا کی یاد آتی ہے
شنگریلا جہاں ظاہر اور حقیقت کے درمیان کوئی سایہ نہیں ہوتا
اور یہ جگہ پُراسرار ہمالیہ کے پہاڑوں میں کہیں واقع ہے
یہاں پر محبت اپنی تمام تر عظمتوں کیساتھ حکمران ہے
انسان کے جسم اور روح کے لئے ایک جنت ہے
ہر انسان کی زندگی میں ایک شنگریلا ہوتا ہے
اس کا اپنا ایک شنگریلا ہے
میں دو دنیاؤں کے کنارے پر کھڑا ہوں
کونسی دنیا میری ہے
اپنے باپ کے سینے سے چمٹ کر روتا ہوا بھوک سے نڈھال بچہ یا صرف چمکدار رنگوں سے جگمگاتی دنیا
میں کون ہوں؟
کیا میں خاموش تماشائی ہوں؟
کیا یہ عورت جسکا بچہ بھوکا ہے میرے لئے کوئی معنی نہیں رکھتی؟
محض ایک تماشائی
مجھے ان سب لوگوں کے لئے کیا کرنا ہے
میں اس بچے کی طرف دیکھتا ہوں جو زندگی اور موت کے درمیان خطرناک جدوجہد کر رہا ہے
لیکن میں اپنے دل کے اندر گہرے تہہ خانوں میں، میں ہی جانتا ہوں کہ زندگی فتح یاب ہوگی
میں مسکراتا ہوں
اور میری یہ مسکراہٹ
حالت کے پیش نظر کتنی بے وقعت  اور بے محل ہے
شدت احساس کے عظیم لمحات میں
مجھے اپنی ان دو دنیاؤں کا ادراک اور شعور حاصل ہوتا ہے
میری اپنی دو دنیائیں ہیں
پہلی کی طرح دوسری بھی حقیقت ہے
اور مجھے لاکھوں اور کروڑوں بننا ہے
مجھے خوشی اور غم میں ڈھل جانا ہے دو ناقابل تقسیم دنیاؤں میں
ایک بڑا اداکار اور تماشائی بننے کے لئے
ہر لمحہ نیا جنم لینا پڑے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ عالمی افسانوی ادب

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply