فلسطین (34،آخری قسط) ۔۔وہاراامباکر

اس وقت فلسطین کے مسئلے کے حل کے بارے میں یاسیت پائی جاتی ہے۔ کسی کو اس کے حل ہونے کی توقع نہیں رہی۔ دو ریاستی حل سے امید ختم ہو رہی ہے۔ ایک ریاستی حل کسی کو قابلِ قبول نہیں لیکن یہ ناقابلِ حل مسئلہ نہیں ہے۔ حالیہ برسوں میں کئی نئے اچھوتے حل بھی پیش کئے گئے ہیں۔ مثلاً، ان میں سے ایک ریاستی اور دو ریاستی حل کے بیچ کر راستہ ہے۔ اس کے مطابق اسرائیل اور فلسطین الگ ریاستیں ہوں جو ایک کنفڈریشن کی طرز کے اتحاد میں ہوں (جیسا کہ یورپی یونین ہے)۔ کچھ علاقوں میں مشترک گورننس ہو، جیسا کہ ماحول یا پانی جیسے قدرتی وسائل کے استعمال پر۔ ایک عبوری مدت کے بعد سرحد کو کھول دیا جائےاس وقت فلسطین کے مسئلے کے حل کے بارے میں یاسیت پائی جاتی ہے۔ کسی کو اس کے حل ہونے کی توقع نہیں رہی۔ دو ریاستی حل سے امید ختم ہو رہی ہے۔ ایک ریاستی حل قابلِ قبول نہیں لگتا، لیکن یہ ناقابلِ حل مسئلہ نہیں ہے۔ حالیہ برسوں میں کئی نئے اچھوتے حل بھی پیش کئے گئے ہیں۔ مثلاً، ایک ریاستی اور دو ریاستی حل کے بیچ کا ایک راستہ ہے۔ اس کے مطابق اسرائیل اور فلسطین الگ ریاستیں ہوں جو ایک کنفڈریشن کی طرز کے اتحاد میں ہوں (جیسا کہ یورپی یونین ہے)۔ کچھ معاملات میں مشترک گورننس ہو، جیسا کہ ماحول یا پانی جیسے قدرتی وسائل کے استعمال پر۔ ایک عبوری مدت کے بعد سرحد کو کھول دیا جائے جہاں آزادی سے نقل و حرکت ہو سکے۔ یروشلم منقسم نہ ہو۔ اس کی میونسپل ذمہ داری اسرائیلی اور فلسطینی اتھارٹی کے مشترک کنٹرول میں ہو۔ مقاماتِ مقدسہ تک ہر ایک کو آزادانہ رسائی ہو (اقوامِ متحدہ کا 1947 کا یروشلم کا یہی پلان تھا)۔ دونوں ممالک کی اپنی شہریت ہو لیکن رہائش کہیں بھی رکھی جا سکے۔
اس پر 2018 میں سروے ہوا جس میں ایک تہائی اسرائیلی اور ایک تہائی فلسطینیوں نے ایسے پلان کی حمایت کی۔ اس پر گراس روٹ تحریک “Two states, one homeland” کی ہے۔ سابق اسرائیلی صدر روبی ریولین سمیت امن مذاکرات میں شرکت کرنے والے دونوں اطراف کے کئی لوگ اس حل کے حامی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن ایسے یا کسی بھی اور حل پر عملی پیشرفت اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک باہمی خوف اور شک موجود ہے۔ مختصر مدت میں یہ کہیں جانے والا نہیں۔ اس کے لئے طویل المدت کوشش کی ضرورت ہو گی۔ اس کا پہلا قدم آپس میں لوگوں کے رابطوں سے ہو گا اور اس کی کامیاب مثالیں موجود ہیں۔
جب آئرش نے برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے لئے بغاوت کی تھی تو برٹش فوج نے اس کو بے مثال بے رحمی سے کچلا تھا۔ ایسا کسی اور برٹش کالونی کے ساتھ نہیں کیا گیا تھا۔ لڑنے کے لئے گرفتار کئے گئے آئرش باغیوں کو ٹینکوں اور فوجی گاڑیوں کے گرد باندھ دیا جاتا تھا تا کہ لڑنے والے باغی اپنے ساتھیوں کی وجہ سے حملہ نہ کر سکیں۔ یہ بہت تلخ مذہبی لڑائی بھی تھی۔ اس مسئلے کے حل پر دہائیاں لگیں، لیکن امن آ گیا۔
شمالی آئرلینڈ میں امن کا عمل کامیاب ہونے کی ایک وجہ امن قائم کرنے کے طویل مدت پراجیکٹ تھے جنہوں نے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کمیونیٹی کو اکٹھا کیا تھا۔ اس محنت پر بہت وقت لگا تھا اور بالآخر 1998 میں گڈ فرائی ڈے معاہدہ ہوا تھا۔
انتفاضہ الاقصیٰ کو شروع ہوئے دو دہائیاں بیت گئیں۔ تب سے، کسی بھی طرح کا اسرائیلی اور فلسطینی میل ملاپ ختم ہو چکا ہے۔ اسرائیلیوں نے فلسطینی دیکھے ہی نہیں۔ فلسطینیوں نے صرف چیک پوسٹوں پر بندوق والے اسرائیلی فوجی دیکھے ہیں۔ اس صورتحال میں کسی کے پاس کوئی جادو نہیں جو امن قائم کر سکے۔ ایسی صورت میں دوسرے فریق کو بطور انسان سمجھنا بھی دشوار ہو جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسرائیل علاقے کی بڑی عسکری طاقت ہے۔ اس کا مغربی کنارے پر قبضہ ہے۔ اس نے غزہ کا محاصرہ کیا ہوا ہے۔ کھیل کے پتے اس کے ہاتھ میں ہیں۔ فلسطینیوں کے پتھر اور راکٹ یہ احساس دلا سکتے ہیں کہ “ہم بھی ہیں”، اس سے زیادہ نہیں۔ امن کی بڑی ذمہ داری اسرائیل کی ہے۔ فیصلے اسے لینے ہیں اور ایسے کئی اقدامات ہیں جو کئے جا سکتے ہیں۔
اسرائیل میں سیاسی جماعتیں ہیں جو مذاکرات کا انتظار کئے بغیر مغربی کنارے کی کئی آبادیاں یکطرفہ طور پر خالی کر دینے کے حق میں ہیں۔ کئی مغربی کنارے کو چھوڑ دینے کے حق میں ہیں۔
آبادیوں کی توسیع روکی جا سکتی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کو زیادہ زمین دی جا سکتی ہے۔ فلسطین کو، بطور ریاست، تسلیم کیا جا سکتا ہے۔
غزہ کا محاصرہ آسان کیا جا سکتا ہے۔ چودہ سال سے جاری اس ناکہ بندی نے یہاں کی حکومتی تنظیم کو نہیں، عام لوگوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ غربت اور مایوسی کم نہ ہونے کا مطلب مسلسل جاری خونریزی کی صورت میں ہے۔ بحری ناکہ بندی ختم کی جا سکتی ہے۔ یہاں عالمی سرکایہ کاری کو لایا جا سکتا ہے۔ گیس پائپ لائن، پانی صاف کرنے کے پلانٹ لگائے جا سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موجودہ اسرائیلی میں سیاست میں فلسطین تنازعہ پر زیادہ بات نہیں ہوتی۔ امن کی خواہش پہلے کے مقابلے میں اب بہت کم ہے۔ جوں کے توں رہنے کی اس حالت کا بڑا نقصان فلسطینیوں کو ہے۔ لیکن اسرائیلیوں کو بھی ہے۔ اسرائیل فخر سے دعویٰ کرتا ہے کہ وہ خطے کی واحد جمہوریت ہے لیکن اس کی طرف سے کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور عسکری قبضہ اس دعوے کے برعکس ہیں۔
اس کا رویہ نہ صرف اس کی اپنی عالمی ساکھ کو مجروح کرتا ہے بلکہ خود ملک میں نسلی تعصب اور illiberalism کو ہوا دیتا ہے۔ سیاسی طور پر، طویل مدت میں یہ ایسے ہی جاری نہیں سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگرچہ بڑی ذمہ داری اسرائیل کی طرف ہے لیکن فلسطینی سائیڈ پر بھی ذمہ داری ہے۔ سب سے پہلا اور بڑا مسئلہ آپس کا انتشار ہے۔ فلسطین کی دونوں بڑی متحارب سیاسی جماعتوں کے تعلقات بہت تلخ ہیں۔ ان درمیان صلح کروانے کے لئے بہت کوششیں کی جا چکی ہیں۔ عرب ممالک ثالثی کروانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اس پر کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔ عملی طور پر فلسطین دو ریاستوں میں بٹا ہوا ہے۔ انتخابات نہیں ہوئے۔ مخالف سیاسی آواز دبا دی جاتی ہے۔ کرپشن بہت زیادہ ہے۔ جن علاقوں میں یہ دونوں پارٹیاں حکومت کر رہی ہیں، وہاں پر ان کی عوامی حمایت متاثر ہوئی ہے۔ جب آپس میں امن نہ ہو تو ایسی صورتحال میں کسی دوسرے سے امن کی بات کرنا بھی ناممکن ہے۔ مذاکرات نہیں کئے جا سکتے۔
فلسطینی قیادت کو اپنا گھر ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے تا کہ فسلطینی آزادی اور ترقی کے دن دیکھ سکیں۔ اور تبھی یہ تنازعہ حل کی طرف جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تنازعے کے حل میں امریکہ کا کردار زیادہ مواقع پر منفی رہا ہے۔ (جب امریکی صدر ٹرمپ نے ڈیل آف دی سنچری کے پلان کا اعلان کیا تو سابق اسرائیلی وزیرِاعظم اولمرٹ، جن کا تعلق ایریل شیرون کی بنائی گئی پارٹی سے ہے اور شیرون کے نائب وزیرِاعظم تھے، نے فلسطینی صدر کے ساتھ مشترکہ بیان جاری کیا اور امریکہ کو باز رہنے کو کہا)۔ لیکن امریکہ کا اس پورے خطے میں کردار کم ہو رہا ہے۔ حالیہ لیبیا، سیریا، یمن تنازعوں میں امریکہ کا کردار نہیں۔ مشرقِ وسطی میں چین، روس اور دوسری طاقتوں کا اثر بڑھا ہے اور ایسا ہی جاری رہنے کی توقع ہے۔ خود امریکہ میں سیاستدانوں کی نئی جنریشن میں اسرائیل کی غیرمشروط حمایت کے حق پر اتفاق نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فلسطین کی طرف سے ایک اور ضروری (لیکن بھلایا ہوا) عنصر اسرائیل کے اندر کام کرنا ہے۔ اسرائیلی عوام کو قائل کرنا ہے کہ دیگر متبادل بھی ہیں۔ یہ طویل مدت کا کام ہے۔ ویت نام اور الجیریا نے ایسا فرانس اور امریکہ میں کیا تھا۔ خود پر قابض ملک کے لوگوں میں اپنی کاز کی حمایت حاصل کی تھی اور تنازعہ ختم ہونے میں اسی سے فائدہ ہوا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا بدل رہی ہے کیونکہ یہ بدلتی ہی رہتی ہے۔ اکیسویں صدی کا مشرقِ وسطیٰ بھی اس سے مختلف نہیں۔ لیکن فلسطین میں امن بڑی طویل مدت کا پراجیکٹ ہے۔ یہ ممکن ہے کہ اسرائیلی اور فلسطینی اپنا گھر ٹھیک کر سکیں، ملکر کام کر سکیں اور یہاں پر امن اور استحکام آ سکے۔ اور انصاف پر مبنی نئے راستے تلاش کر سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس بارے میں شک نہیں کہ امن ممکن ہے، خواہ اس کی امید کم ہو۔ حقیقت پسند تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ اگرچہ یہ افسوسناک ہے لیکن لگتا یوں ہے کہ تنازعہ، قبضہ اور خونریزی جاری رہے گی۔ امن، اگر کہیں ہے، تو ابھی بہت دور ہے۔
ایک صدی سے جاری اس طویل جنگ کا خاتمہ اور ایک دیرپا امن، اگر قائم ہوا، تو دنیا کے لئے اس صدی کی بہترین خبروں میں سے ہو گا۔
کیا یہاں کی اگلی نسل ایک بہتر مستقبل دیکھے گی؟ امید کم ہی سہی، لیکن ابھی باقی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ختم شد

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply