بجٹ کے سہولت کار۔۔محمد اسد شاہ

صدیوں کے تجربات کے بعد دنیا جس طرز حکومت پر متفق ہو سکی ہے ، اسے Democracy کا نام دیا گیا ۔ اردو میں اس کا ترجمہ جمہوریت کیا گیا ۔ یہ اسلام کا بتایا ہوا طرزِ  حکومت نہیں ، لیکن جمہور اسلامی مفکرین اور اسکالرز کی رائے میں یہ اسلامی طرز حکومت کے قریب ترین ضرور ہے ۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ دنیا کے تمام مذاہب کے پیروکار اس پر متفق ہیں ۔

پاکستان دراصل اسی نظام کی نتیجے میں قائم ہؤا ۔ ہندوستان میں آخری عام انتخابات 46۔1945 میں ہوئے اور مسلم لیگ نے پاکستان کے نعرے پر ہی ان میں حصہ لیا ۔ تقریباً تمام مسلم نشستیں مسلم لیگ جیت گئی ۔ اس کے بعد یہ لازم ہو گیا کہ ہندوستان کو توڑ کر پاکستان اور بھارت کے ناموں سے دو نئی ریاستیں قائم ہوں ۔ بھارت کو ایک جمہوری ریاست بنانے کی سنجیدہ کوششیں پہلے دن سے ہی شروع کر دی گئیں ۔ اگرچہ ہمیں اس پر بہت سے اعتراضات ہیں لیکن پھر بھی آج بھارت دنیا میں سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے ۔ پاکستان میں معاملہ بالکل الٹ رہا ۔ جنرل ایوب والی سوچ نے اس ملک کے وسائل ، عوام اور نسلوں کو کتنا نقصان پہنچایا ہے ، اس کا تو مکمل اندازہ لگانا ہی ممکن نہیں ۔ بدقسمتی یہ رہی ہے کہ مذکورہ سوچ ختم نہیں ہو سکی ۔ آج بھی عوام کو عمران خان ، شہباز شریف اور آصف علی زرداری جیسوں پر گزارہ کرنا پڑ رہا ہے جنھیں پارلیمنٹ میں حکومت کا کردار معلوم ہے نہ ہی حزب اختلاف کا ۔

مقام شکر ہے کہ عوام کی ایک بہت بڑی تعداد اب حقیقی جمہوریت کی ضرورت ، اور آمریت کے ہمہ جہت نقصانات کو کچھ کچھ محسوس کرنے لگی ہے ۔ لیکن دوسری طرف ایک بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی موجود ہے جو بصیرت اور شعور سے کوسوں دور ہیں ۔ ذاتی اور وقتی مفادات کے اسیر یہ لوگ جرأت اظہار اور قوت فیصلہ سے بھی محروم ہیں ۔ ان میں بہت سے نام نہاد دانش ور ، اساتذہ ، وکلاء ، صحافی ، کالم نگار ، تجزیہ کار ، اور سیاست دان بھی شامل ہیں ۔ آصف علی زرداری اور شہباز شریف کے متعلق اب اس بات پر تقریباً اجماع ہو چکا کہ یہ لوگ سیاسی شعور کے بڑھتے سفر میں عوام کا ساتھ دینے کی صلاحیت سے محروم ہیں ۔ مزید بدقسمتی یہ کہ ان دونو نے اپنے اپنے بیٹوں کی صورت میں اپنی اپنی “مصدقہ نقول” بھی تیار کر لی ہیں ۔ نظر یہی آ رہا ہے کہ بلاول زرداری اور حمزہ شہباز مستقبل کے کئی سالوں تک اس ملک کے عوام کی محرومیوں پر سیاست کرتے رہیں گے اور قومی شعور کے راستے میں روڑے بھی اٹکاتے رہیں گے ۔ کیوں کہ ان دونو کی سیاسی تربیت میں اس بات کا خاص اہتمام کیا گیا ہے کہ ہدایت کاروں کو کبھی ناراض ہونے نہیں دینا ، عوامی مسائل جائیں بھاڑ میں ۔ سو پیاز کھانے کے باوجود سو جوتے بھی کھانے کے جنون میں مبتلا لوگ شعور کا دعویٰ کبھی کر ہی نہیں سکتے ۔

میاں محمد نواز شریف ، محترمہ مریم نواز اور مولانا فضل الرحمٰن سمیت پی ڈی ایم کے بعض قائدین نے خواہ کسی بھی وجہ سے ، جس دلیری اور بہادری کے ساتھ میدان سیاست کو نئے زاویوں سے آشنا کیا ہے ، لمحۂ موجود میں اگر اس کی قدر نہ کی جائے تب بھی مستقبل کا مورخ اس کی اہمیت سے انکار نہ کر سکے گا ۔

باوجود اس کے ، کہ مسلم لیگ نواز کو حکومت بنانے نہیں دی گئی، سینیٹ سمیت قومی و پنجاب اسمبلیوں میں اس کی طاقت اور حیثیت سے انکار ناممکن ہے ۔ ہدایت کاروں کی مہارت کو داد دیجیے کہ انھوں نے شہباز کے ذریعے مسلم لیگ نواز کو نہ صرف مکمل طور پر “بے ضرر” ، بلکہ ایک طرح سے “فرماں بردار کنیز” بنا رکھا ہے ۔ موجودہ حکومت کی نااہلی و نالائقی سب پر آشکار ہے ۔ اس نااہلی و نالائقی نے قومی ترقی کے سفر کو تنزلی و تباہی کا سفر بنا دیا ہے ۔ اس حکومت نے معیشت کا بھٹہ اس طرح بٹھایا ہے کہ اس کی بحالی میں شاید کئی دہائیاں لگ جائیں ۔ قرضوں کا جو پہاڑ عمران خان نے ملک کے غریب عوام کے بچوں کے کندھوں پر ڈال دیا ہے ، اس کا تو سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ کروڑ نوکریوں کی یادگار بڑھک مارنے والا لیڈر تقریباً ایک کروڑ مزید افراد کو بے روزگار کر چکا ہے ۔ جنرل ایوب سے شاہد خاقان عباسی تک ، ملکی ضروریات کے لیے قرضے تو ہر حکومت نے لیے ، لیکن گزشتہ حکومتوں میں ان قرضوں کا استعمال بھی کہیں نہ کہیں نظر آ جاتا تھا ۔ عمران کی خاص بات یہ ہے کہ اس نے قرضوں کے سابقہ تمام حکومتوں کے ریکارڈز توڑ دیئے ہیں ۔ اس پر مستزاد یہ کہ اس حکومت میں کوئی ترقیاتی کام یا مفید منصوبہ بھی کہیں نظر نہیں آیا ۔ مہنگائی کے ہولناک ریکارڈز بھی عمران کے ہی حصے میں آئے ہیں اور اس وقت پاکستان مہنگائی کی بڑھتی شرح کے لحاظ سے پورے براعظم ایشیاء میں آگے ہے ۔ کرپشن کے خلاف جنگ کے دعوے کرنے والے لیڈر کی حکومت میں کرپشن تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے ۔ اس کی تصدیق وہی ملکی و بین الاقوامی ادارے کر رہے ہیں جن کے کاغذات ماضی میں عمران اپنے جلسوں میں دکھایا کرتا تھا ۔ خوف ناک قرضوں اور گردن توڑ مہنگائی کے ذریعے جمع ہونے والی دولت آخر کہاں جا رہی ہے؟ عمران خان کے اپنے دعوؤں کے مطابق اگر وزیراعظم خود چور نہیں تو پھر کون چور ہے ؟

Advertisements
julia rana solicitors london

پھر بھی جس مہارت سے شہباز شریف نے وفاق اور پنجاب کے بجٹ کی منظوری میں سہولت فراہم کی ہے ، اس پہ بعض لوگ انگشت بہ دندان ہیں ۔ قومی اسمبلی میں شہباز ، آصف اور بلاول زرداری کی موجودگی ، اور پنجاب میں حمزہ شہباز کی قیادت عمران خان اور ہدایت کاروں کے لیے طمانیت قلب کا باعث ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ میاں محمد نواز شریف ، محترمہ مریم نواز ، کپتان محمد صفدر اور مولانا فضل الرحمٰن کو اسمبلی میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے تو تمام انتظامات 2018 سے بہت پہلے ہی مکمل کر لیے گئے تھے ۔ لیکن شہباز ، حمزہ ، آصف اور بلاول کے لیے تمام راستے کھلے رکھے گئے ۔ مقدمات وغیرہ تو چلتے ہی رہتے ہیں لیکن بجٹ منظوری کے وقت ان چاروں میں سے کوئی بھی جیل میں نہیں ہوتا ۔
کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ اگر مؤخر الذکر چاروں قائدین اسمبلیوں کے رکن نہ ہوتے تو عمران خان شاید اسمبلی میں کبھی تقریر ہی نہ کر پاتا ۔ یوں بھی عمران خان کے دامن میں تقریروں کے علاوہ اور ہے ہی کیا !

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply