پینتیس سو۔۔سلیم مرزا

وڈے چوہدری صاحب کی طبیعت رات بھر خراب رہی،تو نیند کیسے آتی ۔ منہ اندھیرے اٹھے اور اپنے ملازم لمبڑ کو آواز دی ۔
لمبڑ تو نہیں آیا اس کا پندرہ سالہ بیٹا مجید آگیا ۔
“ابا، راتیں ڈیرے پہ ہی سوگیا تھا ”
چوہدری  نے ایک لمحے سوچاپھر مجید سے کہا “چل فیر، تو ہی چل میستے چلتے ہیں ”
مجیدے کو لیکرچوہدری مسجد کے سامنے پہنچا تو دروازے پہ تالہ لگادیکھ کر مجید سے کہا
“بھاگ کر جا ۔اور مولوی کے گھر سے چابی لے آ “چوھدری نے مجیدے کو پچھلی گلی میں مولوی کے گھر بھیجا اور خود تھڑے پہ بیٹھ گیا ۔بیماری کی وجہ سے جیسے ٹانگوں میں جان ہی نہیں تھی ۔
چار پانچ منٹ بعد ہی مجید لوٹ آیا ۔
“چل میرا پتر، کھول تالہ ”
چوہدری اٹھنے لگا تو مجیدا ان کے پاس تھڑے پہ بیٹھ گیا، چوھدری نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف طرف دیکھا “چابی دس پندرہ منٹ بعد ملے گی “مجیدے نے تھڑے پہ بیٹھتے ہوئے کہا اس سے پہلے کہ چوہدری  اس سے مزید کچھ پوچھتا، سائیں کریانے والے نے آکرچوہدری  کو سلام ٹھوک دیا ۔
حال چال پوچھنے میں ہی کافی ٹیم لگ گیا ۔پھر مجیدا کب اٹھ کرگیا چوہدری  کو پتہ ہی نہیں چلا ۔بس اس نے مولوی اور مجیدے کو واپس آتے دیکھا ۔
مولوی نے جلدی جلدی مسجد کا تالہ کھولا ۔اور اذان دے کر چوہدری  کے پاس آبیٹھا۔جہاں چوہدری  کے گرد چھ سات نمازی اکٹھے ہوچکے تھے ، دھواں دھار سیاسی گفتگو ہورہی تھی ۔اذان اور نماز کے بیچ کا سارا وقت سیاست میں گذر گیا ۔مولوی اٹھا تو سبھی مسجد میں آگئے ۔کچھ نے وضو کیا ۔کچھ گھر سے کرکے آئے تھے ۔
نماز پڑھنے کے بعد چوھری اور مجیدا مسجد سے نکلے تو مجیدا چوہدری  سے کہنے لگا “مولوی چنگا بندہ نہیں ہے ”
“کیوں”؟چوہدری نے رک کر پوچھا
” میں جب اس سے چابی لینے گیا تو اپنی بیوی کے ساتھ گھل مل رہاتھا، میں جھری سے دیکھ کر واپس آگیا ۔۔۔دوبارہ گیا تو بنا کپڑوں کے تھا ۔دروازہ کھٹکھٹایا،تو مجھے دیکھ کر قمیض پہنی ساتھ آگیا ۔نہ نہایا ،نہ وضو کیا ۔نماز پڑھادی، یہ چنگا مولوی نہیں ”
چوہدری  کو تو سنتے ہی آگ لگ گئی ۔ واپس مڑا ۔اور مولوی کے گھر جاپہنچے ۔
مولوی صاحب باہر آئے۔چوھدری نے مجیدے کی زبانی فردجرم عائد کی اور کہنے لگے
“ہاں مولوی کیا کہتے ہو “؟
مولوی ایک لمحہ پریشان ہوا پھر اٹکتے ہوئے لہجے میں بولا ۔
“اتنی ٹھنڈمیں۔۔۔۔ نہا نہا کر۔۔۔ پنتیس سو میں ۔۔۔نمازیں کون پڑھائے “؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply