نیا سال اور روتی ہوئی جوان عورت/ڈاکٹر مجاہد مرزا

مثل برگ آوارہ’سے
دفتر کی روش حسبِ سابق تھی۔ ظفر اور مقرب تاجک مال بیچ کر لشتم پشتم دفتر کے اخراجات پورے کر رہے تھے۔ کراچی سے نیا مال آنے کی امید دم توڑ چکی تھی۔ اخراجات کم کرنے کی خاطر ایک نیا قدم لیا گیا تھا۔ اس کا مشورہ ظفر نے دیا تھا۔ ڈیوڑھی کے دوسری جانب کا کمرہ صاف کروا کر باتھ روم میں شاور لگوا لیا گیا تھا۔ میں نے فلیٹ چھوڑ دیا تھا اور اس کمرے میں منتقل ہو گیا تھا۔ ظفر نے کہیں سے سیکنڈ ہینڈ ریفریجریٹر کا بندوبست بھی کر دیا تھا۔

 

 

ظفر کے چند نوجوان کزن ملتان سے آ گئے تھے جو کچھ روز تو دفتر میں رہے تھے، پھر اپنے اپنے ٹھکانوں پر چلے گئے تھے البتہ ان میں سے ایک طغرل کے ہمراہ دفتر میں ہی رہنے لگا تھا۔ دن بھر وہ سڑک پر اپنا کام کرتا تھا، شام کو آ جاتا تھا اور کپڑے تبدیل کرنے کے بعد بڑے “غوروخوض” کے ساتھ کھانا بنانے میں مصروف ہو جایا کرتا تھا۔ کھانا اچھا بناتا تھا، کم گو تھا لیکن تھا کائیاں۔ ایک روز کہنے لگا،”سر میں نے ایک لڑکی سے آپ کے لیے دوستی لگائی ہے، کل رات کو اس نے آنے کا وعدہ کیا ہے”۔ میں نے سمجھا مذاق کر رہا ہے چنانچہ محض مسکرا دیا تھا۔ اگلی رات ہم دونوں کھانا کھا کر فارغ ہی ہوئے تھے کہ بیل بجی تھی۔ میرا ماتھا ٹھنکا تھا چونکہ میں گذشتہ دو ماہ سے غنڈوں کا بھتہ نہیں دے سکا تھا۔ میں نے ان سے منت کی تھی کہ ایک ہزار ڈالر کی بجائے پانچ سو ماہانہ لیا کریں جس کی غنڈوں کے باس نے اس شرط پر اجازت دے دی تھی کہ کام چل پڑنے کے بعد پھر سے ایک ہزار ڈالر ماہانہ دینے ہونگے۔ مجھے چونکتے دیکھ کر ظفر کے کزن نے کہا تھا،”سر فکر نہ کریں یہ وہی لڑکی ہے جس کے بارے میں کل میں نے آپ کو بتایا تھا”۔

لڑکی اندر آ گئی تھی جو بیئر پیے ہوئے تھی۔ لڑکی خوش شکل تھی لیکن “مائنر” لگ رہی تھی۔ جس نے اس کو بلایا تھا اس کو روسی زبان واجبی سی آتی تھی چنانچہ میں نے مناسب سمجھا کہ اس کی عمر دریافت کر لوں۔ لڑکی نے بدک کر کہا تھا “میں بالغ ہوں”۔ تاہم میرے مزید اصرار پر اس نے اپنا پاسپورٹ ( یہاں شناختی کارڈ پاسپورٹ کی شکل میں ہوتا ہے) آگے کر دیا تھا جسے دیکھ کر میں مطمئن ہو گیا تھا۔ وہ روسی ماں کے بطن سے کسی افغان باپ کی بیٹی تھی جو اپنی بئیر نوشی اور آوارگی کے سبب “ڈسٹربڈ چائلڈ” لگ رہی تھی۔ اس نے بیئر کے دو مزید کین پیے تھے جس کے بعد ظفر کے کزن ساجد نے کہا تھا، “سر اسے اپنے کمرے میں لے جائیں”۔ میرے ساتھ وہ میرے کمرے میں چلی گئی تھی اور جاتے ہی بستر پر ایسے دراز ہو گئی تھی جیسے وہ اس کا اپنا بستر ہو۔ اس میں نہ تو گرمی تھی نہ سرگرمی۔ البتہ میں جس کے پہلو میں وہ پیٹ کے بل لیٹی ہوئی تھی، محسوس کر رہا تھا جیسے اس لڑکی کا بدن تپ رہا ہو۔ میں نے اسے چھو کر دیکھا تھا کہ کہیں اسے بخار تو نہیں تھا۔ وہ مخمور تھی اور اپنے بارے میں بتائے چلی جا رہی تھی۔ ماں باپ کی برائیاں کر رہی تھی۔ تعلیم سے گریزاں ہونے کا قصہ سنا رہی تھی۔ میں نے اسے شب خوابی کے لیے ٹریک سوٹ دیا تھا۔ اس نے چشم زدن میں اپنے جسم کے ساتھ لگی آخری دھجی بھی خود سے علیحدہ کر دی تھی اور میری طرف پشت کرکے رضائی اوڑھے ہوئے ٹی وی دیکھنے لگی تھی۔ ایک طرح سے یہ اشارہ تھا کہ اس نے سپردگی دے دی تھی۔ اتنی جوان لڑکی، اتنا سڈول بدن لیکن اتنی سرد مہر اور بے کیف۔ جونہی میں نے اپنے اتارے ہوئے کپڑے پھر سے پہنے وہ ہلکے ہلکے خراٹے لیتے ہوئے نیند کی وادی میں اتر چکی تھی۔

میں نے ظفر کے کزن ساجد کو بلایا تھا کہ یہ خراٹے لیتی ہے، اسے جگا کر لے جاؤ اور اپنے پاس سلا لو۔ اسے جگانے کی بہت کوشش کی گئی لیکن وہ تو خواب خرگوش میں تھی۔ ظفر کا دھان پان کزن ساجد اسے اٹھا نہیں سکتا تھا چنانچہ میں اور ساجد دونوں اسے سکول نہ جانے والے بچے کی طرح ٹانگوں بازوؤں سے اٹھا کر دوسرے کمرے میں لے گئے تھے۔

وقت بیت رہا تھا۔ کوئی پیشرفت نہیں ہو رہی تھی۔ دن دفتر میں اونگھتے ہوئے اور راتیں بیئر لنڈھاتے ہوئے کٹ رہی تھیں۔ اسی اثناء میں نیا سال آ پہنچا تھا یعنی 1995 کا اختتام اور 1996 کا آغاز۔

میرے بھتیجے شہزاد کی دوست اور ہم جماعت ثمینہ تارڑ نے مجھ سے کہا تھا، “چچا، اس بار نیا سال ہمارے ساتھ منائیے گا”۔ میں پرانے سال کی آخری شام کو ظفر کے چھوٹے بھائی اسد اور اپنے ساتھ رہنے والے ظفر کے کزن ساجد کو ہمراہ لے کر مرزا شہزاد اور ثمینہ تارڑ کے ہوسٹل پہنچ گیا تھا۔ اس انسٹیٹیوٹ کے ہوسٹل مخلوط تھے۔ نوجوانوں کے ساتھ مل کر سال نو کی تقریب منائی تھی۔ اگر میں اکیلا ہوتا تو شہزاد کے کمرے میں سو رہتا لیکن تین افراد کے لیے میں طالبعلموں کو امتحان میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا اور یہ بھی سوچا تھا کہ نوجوانوں کا اپنا شغل بھی ہے وہ شاید ایک “انکل” کی موجودگی میں اپنی بے ساختگی کا مظاہرہ کرنے سے ہچکچا رہے ہوں چنانچہ رہ جانے کے لیے ثمینہ کے اسرار کے باوجود ہم نکل لیے تھے۔ دور دور تک ٹیکسی کا نام و نشان نہیں تھا۔ رات کا ایک سے زیادہ بج چکا تھا۔ ان ادوار کے ایسے اوقات میں زیر زمین ریل گاڑی میں سفر کرنا خطرناک ہو سکتا تھا۔ اگر سوار ہو بھی جاتے تب بھی ہمیں کہیں راستے میں اترنا پڑتا۔ میرے ماسکو میں قیام کی شاید وہ سرد ترین رات تھی۔ درجہ حرارت منفی پچیس تیس کے درمیان تھا۔ ہم بہت دور تک چلتے رہے تھے۔ جو اکا دکا ٹیکسی دکھائی بھی دی اس کے ڈرائیور نے وہاں جانے سے انکار کر دیا تھا جہاں ہمیں جانا تھا۔ سفر جاری رکھنے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں تھا۔ دونوں نوجوان آرام کرنے کے لیے رکنا چاہتے تھے لیکن چونکہ میں ایک زمانے میں بلند و بالا پہاڑوں میں زندگی بسر کر چکا تھا اور ڈاکٹر بھی تھا چنانچہ مجھے معلوم تھا کہ رک جانے کا نام جم جانا ہوگا۔ میں نے اپنے پرانے تجربے کی بنا پر نوجوانوں کو مسلسل سفر جاری رکھنے پر مجبور کیے رکھا تھا۔ دو تہائی فاصلہ طے کرنے کے بعد ایک پولیس پٹرول ملی تھی۔ میں نے ان سے بھی درخواست کی تھی کہ ہمیں چھوڑ آئیں اور اگر ایسا نہیں کر سکتے تو ہمیں حراست میں ہی لے لیں تاکہ ہم پولیس کار کے گرم ماحول میں گرم حوالات میں ہی پہنچ جائیں۔ پولیس والوں نے اسے نئے سال کی رات کا لطیفہ سمجھتے ہوئے ہم سے معذرت کر لی تھی۔ ہم چلتے رہے تھے۔ ابھی دفتر کی عمارت سے کوئی ایک کلو میٹر دور تھے کہ ہمیں اپنی ہی طرح کی بے خانماں 32۔33 سال کی ایک عورت روتی ہوئی ملی تھی۔ اس وقت صبح کے تین بجنے والے تھے، میں اور میرے ساتھی کوئی چودہ کلومیٹر راستہ طے کر چکے تھے۔ اس عورت کی شاید پینے کے بعد اپنے بوائے فرینڈ یا خاوند سے لڑائی ہو گئی تھی جو وہ گھر سے نکل کھڑی ہوئی تھی۔ میں نے اسے دلاسہ دے کر اپنے ساتھ چلنے کو کہا تھا۔ اتنی سردی میں تو کوئی بھی پناہ کا متمنی ہوتا ہے وہ چوتھی ساتھی بن گئی تھی۔ پندرہ بیس منٹ بعد ہم اپنی منزل پر پہنچ گئے تھے۔ لڑکے اپنے اپنے بستروں میں اور میں بے خانماں خوش شکل خاتون کے ساتھ اپنے کمرے میں اپنے بستر میں گھس گیا تھا۔ خاتون نے اس رات جس گرمجوشی کی خواہش اپنے دوست یا خاوند کے لیے پالی ہوئی تھی اس نے اس سے بھی کچھ زیادہ گرمجوشی میرے نام کر دی تھی۔ صبح کی ملگجی روشنی اور رضائی کے دبیز پن میں اس عورت کے جسم کی نرمی سے بہت متضاد اس کی رانوں کی اندرونی سمت کا غیر ہموار پن تھا۔ میں نے باتھ روم جانے کا بہانہ کرتے ہوئے رضائی کا کونا کچھ زیادہ اٹھا کر دیکھا تو میں دہل کر رہ گیا تھا، خاتون کی رانوں کا یہ حصہ جلا ہوا تھا۔ میں نے اسے اس بارے میں ایک لفظ نہیں کہا تھا اور باتھ روم سے آنے کے بعد کروٹ لے کر سو گیا تھا۔ کوئی نو بجے کے قریب اس خاتون نے مجھے جگایا تھا۔ وہ جانے کے لیے تیار گرم کوٹ پہن کر کھڑی ہوئی تھی، اس نے دروازہ کھولنے کو کہا تھا۔ میں نے دروازہ کھولا تھا۔ وہ میرے گال پر بوسہ دے کر “پاکا” یعنی بائی کہہ کر چلی گئی تھی۔ میں دروازہ بند کرکے ایک بار پھر سو گیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جب سب جاگے تو مجھے یاد آیا تھا کہ میں نے تو اس کا نام تک نہیں پوچھا تھا۔ اس نے جو خود چاہا تھا بتا دیا تھا اور بس۔ اتنی سردی میں اتنا سفر کرنے کے بعد جسم کو گرمانے کے علاوہ کسی کو کیا پڑی تھی کہ معارفت کرتا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply