• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کوچنگ سینٹرز کی کیا حیثیت ہے؟ وہاں امتحانی نقطہء نظر سے پڑھانے والوں کو استاد کہا جا سکتا ہے؟ ۔۔عفت نوید

کوچنگ سینٹرز کی کیا حیثیت ہے؟ وہاں امتحانی نقطہء نظر سے پڑھانے والوں کو استاد کہا جا سکتا ہے؟ ۔۔عفت نوید

ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں تعلیم کو بھی کاروبار سمجھ لیا گیا ہے۔سکول کھولنے والا اسے کاروبار کی نیت سے کھولتا ہے اور اپنی عمارت سے پورا پورا فائدہ حاصل کرنے کے لیے اس میں شام کے وقت ، کوچنگ سینٹر بھی کھول لیتا ہے۔
کوچنگ سینٹر، سکول سے بھی کہیں زیادہ منا فع بخش کاروبارہے۔ صبح کے وقت ٹیچر طلبا کو شام کے اوقات میں ٹیوشن پڑھنے کے لیے گھیرتا ہے۔ کچھ طلبا ایسے بھی ہو تے ہیں جو  سکول  یا کا لج ریگو لر نہیں جا سکتے اور کچھ صبح کے اوقات میں نوکری کی وجہ سے پرائیویٹ ہی پڑھتے ہیں ایسے طلبا ء کے لیے کوچنگ ناگزیر ہو جا تی ہے۔ طلبا اپنی محدود علمی بساط کی وجہ سے کوچنگ کے ٹیچر کی اس کے سبجیکٹ پر گرفت کا اندازہ نہیں کر سکتے۔ لیکن کوچنگ کا ٹیچر ان پر یہ دھاک بٹھانے میں کامیاب رہتا ہے کہ اس کے پڑھائے ہو ئے طلبا کیسے نمایاں نمبروں سے پاس ہو تے ہیں اور سب سے بڑی با ت یہ کہ وہ امتحانات میں جو گیس پیپرز بنا تے ہیں وہ سو فی صد نشانے پر بیٹھتے ہیں بعض تو یہاں تک بڑھک مارتے ہیں کہ ان کے بورڈ میں تعلقات ہیں اس لیے انہیں علم ہے کہ کس کا پیپر سلیکٹ ہوا ہے۔ بعض تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ ان ہی کا بنا یا ہوا پیپر بورڈ میں سلیکٹ ہوا ہے۔
چلیں یہ سب ہو گیا۔ بچوں کو اب یقین ہے کہ کم سے کم پڑھ کر وہ بہت اچھے نمبروں میں پاس ہو جائیں گے۔ لیکن کوچنگ کاٹیچر جو پڑھا رہا ہے، اور جو نوٹس دے رہا ہے وہ ان کے با لکل پلے نہیں پڑ رہا۔ کوچنگ  کے ٹیچر کی قابلیت اور مضمون میں گرفت پر سوال اس لیے بھی نہیں اٹھا یا جا سکتا کہ دن میں چھ مرتبہ ایک ہی ٹاپک کو مختلف کلاسوں میں دہرا رہا ہے۔ یوں بھی عمر اور تعلیمی قابلیت میں وہ بچوں سے ہر لحاظ سے آگے ہے۔ لیکن پیسہ کما نے کی دھن میں اس کی آنکھوں اورعقل پر ایسی پٹی بندھی ہے کہ وہ اپنی عمر اورتجربے کو بچے کی عمر اور تجربے کے فرق کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ اس کی زبان پر بھا ری بھرکم الفاظ اور نوٹس میں مشکل انگریزی یا اردو کے الفاظ بعض اوقات تو متروک الفاظ بھی ان کی علمیت بڑھانے کو موجود،اور پھر غیر ضروری طویل ترین جوابات۔ کوچنگ سینٹرز کے طلبا ء ایسے استاد سے پہلے ہی متاثر ہیں اور اب نوٹس دیکھ کر اس کے مزید اثر میں آگئے۔ کوچنگ سینٹر میں پڑھنے والے امتحان کے دنوں میں پڑھتے ہیں اب عین ان دنوں اس نے نوٹس یاد کرنے کے لیے کھولے لیکن کیوں کہ یہ نوٹس بچوں کی ذہنی اور علمی استعداد کو مدنظر رکھنے کے بجائے اپنی علمیت کا رعب ڈالنے کے لیے بنائے گئے تھے اس لیے کچھ پلے نہیں پڑتا، طالبعلم بوکھلا یا ہوا ایسے نوٹس کی تلاش میں سر گرداں رہتا ہے جو اسے سمجھ آسکیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر طالب علم کو نوٹس ہی سے پڑھنا ہے تب وہ کوچنگ سینٹرز میں داخلہ لے کر اپنا وقت اور پیسہ کیوں برباد کرتا ہے۔
جماعت میں شاگردوں کی تعداد کے اعتبار سے کوچنگ مالکان پڑھانے والے کا کمیشن طے کرتے ہیں۔ طالب کی حیثیت محض گاہک کی ہے اور کمیشن پر مقرر استادی دکھانے والوں کو کیا کہتے ہیں یہ آپ فیصلہ کر لیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply