آئی ایم سوری پاپا۔۔خنساء سعید

وہ دیکھو ! سب دیکھو علیشا کے شوز پھٹے ہوئے ہیں اور بیگ بھی کتنا پرانا ہے علیشا تمہارا یونیفارم اُف بہت میلا ہے, بدبو آتی ہے تم سے ،کیا تمہارے پاپا تمہیں نئے    جوتے   نہیں لے کر دیتے نیا بیگ نیا یونیفارم نہیں لے کر دیتے۔؟ ہاں تمہارے پاپا تو رکشہ چلاتے ہیں وہ تمہیں یہ سب کچھ نیا کہاں سے لا کر دیں گے۔

چلو سب اُٹھو یہاں سے ،علیشا سے کوئی دوستی نہ کرے، کوئی علیشا کے پاس نہ بیٹھے، اس سے سمیل آتی ہے۔

علیشا کیا ہوا ہے بیٹا؟  رو کیوں رہی ہو؟؟ کیا ٹیچر نے مارا ہے؟؟ کیا کسی سے جھگڑا ہوا ہے ؟
نہیں پاپا! کچھ نہیں ہوا مجھے۔۔

مجھے کل سے سکول ہی نہیں جانا، سب مجھ پر ہنستے ہیں، مجھے کہتے ہیں تمہارے پاپا رکشہ ڈرائیور ہیں، اُن کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ وہ تمہیں نئے شوز نیا بیگ لے کر دیں، میں اب کبھی سکول نہیں جاؤں گی بس۔

اچھا میری پیاری بچی رونا تو بند کرو، میں بہت جلد اپنی پیاری گڑیا کو سب کچھ نیا لا کر دوں گا یہ میرا وعدہ ہے۔
پھر سب میری گڑیا رانی سے دوستی کریں گے اُس کا مذاق نہیں بنائیں گے ۔
چپ کر جاؤ اب میری پیاری گڑیا  ۔۔۔پاپا کے ہوتے ہوئے کیوں روتی ہو ، پاپا اپنی بیٹی کو بہت جلدی بہت ساری نئی چیزیں لا کر دیں گے ۔

نو سال پہلے
نجم الدین تمہاری بیوی کی حالت بہت خراب ہے خون کی بہت کمی ہے اور بہت کمزوری بھی ہے، معاملہ بہت خراب ہے ماں اور بچے میں سے صرف ایک ہی جان بچے گی۔
نہیں نہیں ڈاکٹرنی جی !ایسا نہ بولیں اللہ سوہنا خیر کرے میں اپنی بیوی سے بہت پیار کرتا ہوں بہت خیال رکھتا ہوں اس کا پھر خون کی کمی کیسے ہو گئی
بس نجم الدین کوئی پتہ تھوڑی چلتا ہے کب کیا ہو جائے ،انسانی جسم میں ۔۔چلو تم دعا کرو ہم پوری کوشش کریں گے کہ ماں اور بچہ دونوں بچ جائیں۔

دو گھنٹے بعد
نجم الدین تمہار ے ہاں  بیٹی ہوئی ہے مگر۔ ۔ مگر کیا ڈاکٹرنی جی ؟
معاف کرنا ہمیں ہم تمہاری بیوی کو نہیں بچا پائے
۔۔۔۔۔۔
اور پھر اُس دن سے نجم الدین علیشا کی ماں اور باپ دونوں بن گیا اور اُس کی پوری دنیا علیشا کے گرد گھومنے لگی۔

نجم الدین کے زندہ رہنے کا مقصد صرف اور صرف اُس کی بیٹی علیشا تھی، وہ صبح و شام کام کرتا ،علیشا کے لیے کھانا بناتا اُس کے کپڑے دھوتا گھر صاف کرتا اور پھر رکشہ بھی چلاتا۔۔

یونہی علیشا بڑی ہوتی گئی، اب نجم الدین نے اُسے سکول داخل کروا دیا تھا ۔ وہ علیشا کو صبح ناشتہ کرواتا تیار کرتا اور سکول چھوڑ آتا پھر سارا دن رکشہ چلاتا۔۔  دوپہر میں علیشا کو سکول سے واپس لاتا اُس کے لیے کھانا بناتا۔  آہستہ آہستہ علیشا بڑی ہونے لگی اب نجم الدین بوڑھا ہونے لگا تھا اُس کا رکشہ بہت پرانا ہو چکا تھا اکثر وہ راستے میں خراب ہو جاتا۔  سواریاں خراب رکشہ دیکھ کر اُس میں بیٹھنا پسند نہ کرتیں اور اگر کوئی بیٹھ بھی جاتا تو بہت تھوڑا سا کرایہ دیتا ۔

علیشا اب کالج جانے لگی تھی اُس کی خواہشات بھی بڑھتی جارہی تھیں آج بھی علیشا کے پاس نیا بیگ، نئے شوز نہیں تھے اُس کے پاس بٹنوں والا ایک ٹوٹا سا موبائل تھا جبکہ اس کے دوستوں کے پاس ٹچ موبائل تھے۔

علیشا نجم الدین کو بہت تنگ کرتی اُس سے نیا موبائل، بیگ، شوز نجم الدین سے جھگڑا کرتی بہت روتی بہت چڑچڑی ہو گئی تھی۔

نجم الدین بہت پریشان رہنے لگا تھا وہ ہر وقت یہ ہی سوچتا رہتا کہاں سے پیسے لاؤں کہاں سے علیشا کی خواہشات اُس کے خواب پورے کروں۔۔۔۔۔۔ یہ فکر ہر وقت نجم الدین کو ستاتی رہتی
اُس دن بھی وہ اپنے باپ سے لڑ کر روتی ہوئی ناشتہ کیے بغیر کالج چلی گئی
نجم الدین سارا دن پریشان رہا کئی دفعہ تو اُس کا ایکسیڈنٹ ہوتے ہوتے بچا
مگر پھر اُس نے ایک فیصلہ لے لیا
وہ گھر آیا اور اُس نے اپنے گھر کا کچھ  قیمتی سامان بیچ ڈالا اور اپنی بیٹی اپنی لاڈلی بیٹی کے لیے نئی چیزیں خرید لایا شوز، بیگ، یونیفارم، موبائل فون سب نیا خرید لایا۔۔۔۔۔۔ کیونکہ وہ اپنی بیٹی کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا تھا اُس کو روتا دیکھ کر نجم الدین کا دل دہل جاتا وہ ساری دنیا سے لڑ کر اُس کے لیے خوشیاں خرید لاتا اب بھی ایسا ہی ہوا تھا اُس نے بیٹی کی ایک مسکان کی خاطر گھر کا سامان بیچ ڈالا۔

وہ اپنی لاڈلی کا سارا نیا سامان رکشے میں رکھ کر گھر جا رہا تھا ذہن میں بہت خدشات تھے بہت ڈر کہ اس کی لاڈلی علیشا کو یہ چیزیں پسند آ جائیں ۔۔فکروں نے اُس کے ذہن کو جکڑ رکھا تھا کہ اسی اثنا میں ایک تیز رفتار گاڑی آئی اور   نجم الدین اور اُس کے خستہ حال رکشے کو کچلتی  چلی گئی۔۔اور نجم الدین کے ذہن میں جو آخری خیال آیا اور جو آخری تصویر   آنکھوں کے سامنے گھومی اُس کی لاڈلی گڑیا رانی علیشا کی ہی تھی۔

صائمہ وہاں اتنے لوگ کیوں جمع ہیں؟؟ لگتا ہے۔۔۔۔! کوئی ایکسیڈنٹ ہوا ہے! ہاں علیشا
وہ دیکھو وہ تو تمہارے پاپا کا رکشہ ہے،
پاپا ،پاپا، !علیشا رکو ایسے مت بھاگو کسی گاڑی سے ٹکرا جاؤ  گی۔۔۔۔
ہٹ جاؤ سب یہ میرے پاپا ہیں ،
پاپا کیا ہوا ہے آپ کو !!پاپاآنکھیں کھولیں !پلیز پاپا،
ڈاکٹر کو بلاؤ کوئی ایمبولینس کیوں نہیں آرہی
پاپا پلیز مجھے چھوڑ کر مت جائیں پلیز پاپا آنکھیں کھولیں دیکھیں میں آئی ہوں
میں آپ سے ناراض نہیں ہوں پلیز پاپا مجھے مت چھوڑ کرجائیں میں اب کسی چیز کی ضد نہیں کروں گی کچھ نہیں مانگوں گی آپ سے
پلیز پاپا آنکھیں کھولیں پلیز ۔۔۔۔۔ آئی ایم سوری پاپا ۔۔۔۔
مگر اب بہت دیر ہو چکی تھی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اپنے باپ کی قدر کریں اگر وہ غریب ہے اُس کے پاس آپ کی خواہشات پوری کرنے کے لیے پیسے نہیں ہیں پھر بھی اُس سے محبت کریں اُس کی عزت کریں کیوں کہ باپ وہ ہستی ہے جو تنکا تنکا چن کر مکان بناتا ہے اور پھر اسے خون ِ جگر سے سینچ کر گھر کی شکل عطا کرتا ہے وہ اکیلا ہی گردش دوراں کے غم چنتا ہے دکھوں کی مالا پروتا ہے اور اسے اپنے ہی گلے میں سجا لیتا ہے وہ ایثار اور قربانی میں اپنی مثال آپ ہوتا ہے باپ اولاد کی خاطر کوئلے کی کانوں میں جل کر کوئلہ ہو جاتا ہے بھٹی کا ایندھن بن جاتا ہے ۔باپ خود راحت اور سکون کو ترستا ہے مگر بچوں کے قدموں میں بے شمار خوشیاں ڈھیر کر دیتا ہے وہ راتوں کو جاگ کر بچوں کے لیے خواب دیکھتا ہے جبکہ صبح سے لے کر شام تلک ان خوابوں میں رنگ بھرتا ہے ۔۔۔۔ اپنے باپ سے محبت کریں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply