• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • ظلمت سے نور کا سفر(قسط19)۔۔۔محمد جمیل آصف ،سیدہ فاطمہ کی مشترکہ کاوش

ظلمت سے نور کا سفر(قسط19)۔۔۔محمد جمیل آصف ،سیدہ فاطمہ کی مشترکہ کاوش

اس لیے میں نے محافظ نہیں رکھے اپنے
مرے دشمن مرے اس جسم سے باہر کم ہیں

پانچ دن بعد

شام کے وقت وہ پرندوں کو مغربی سمت میں لوٹتا دیکھ رہی تھی ۔شاید زندگی کی طرف لوٹنے کا وقت ہوگیا تھا ۔آمنہ کی باتوں کی بازگشت کانوں میں کئی پہر گونجتی رہی ۔ پرندوں کو جوڑیوں کی شکل میں محو پرواز دیکھ کر احساس ہوا کہ اب تدریسی مہلت ختم ہوگئی اب اپنے خوابوں کے سنگ زندگی میں ایک اونچی اڑان بھرنے کا وقت ہے ۔
لیکن آنکھیں فوراً آنسؤوں سے بھر آئیں ۔کیا اتنی جلدی اعتبار کرلوں۔۔ تباہ حال بزنس اور ٹوٹے گھر کا بوجھ کندھوں پہ لیے احمقوں کی طرح ایک اور شخص پہ بھروسہ کیسے کروں؟ ۔ایک نیا گھر آباد کروں تاکہ وہاں سے بے دخل کرکے پھر پاگل خانے بھیج دی جاؤں۔وہ تو اپنے تھے پر انجان ہم سفر وقت کے ساتھ مزاج آشنا ہوگا۔تب تک پھر گھٹن سہنا ہوگی۔
“اُف”
سوچتے ہی جھرجھری سی محسوس ہوئی ۔

ٹک۔۔۔کچھ گرنے کی آواز پہ چونک کر زمین کی طرف دیکھا تو بلبل کا گھونسلہ گرا ہوا تھا ۔بلبل کا بچہ گرنے کی وجہ سے کچھ دیر لیٹا رہا پھر چوں چوں کرتے ہوئے اڑنے کی کوشش کرنے لگا۔
ضحی حیرانگی سے اسے دیکھنے لگی کہ ابھی تو گرا ہے کیا اتنی جلدی ہمیں زندگی کی دوڑ میں گرنے کا شاک بھلا دینا چاہیے اور پھر سے کوشش کرنی چاہیے؟
کیا اپنے پروں پر اعتبار کرکے پھر سے اڑان بھرنا اتنا آسان ہے ۔۔۔
اس سوال کا جواب حقیقی زندگی میں عملی قدم اٹھانے کے بعد ہی سامنے آنا تھا۔میز سے اپنی کتابیں سمیٹ کر اندر چلی گئی۔رات قطرہ قطرہ گزری اور صبح پوری تمازت سے طلوع ہوئی۔
تیار ہوتے ہوئے مہرون شلوار قمیص پر لان کا سادہ سا دوپٹہ لیتے ہوئے اپنے چہرے کی طرف دیکھا جو اب زردی مائل سے پیلاہوچکا تھا اور گالوں میں ہلکی سرخی بھی چھلک رہی تھی۔آئینہ دیکھنے کی دعا پڑھنے کے بعد سوچا کہ اب اس چہرے پر اجنبی دوست کے توسط سے لالی چھائی ہے تو اب ایک اور اجنبی پر اعتبار بھی اتنا کھٹن تو نہیں ۔۔۔
رکشے سے فیکٹری پہنچی تو چوکیدار سے لے کر اسٹنٹ اور باقی کا عملہ خوش اخلاقی سے ملا ۔اپنی سیٹ پر بیٹھ کر بار بار پہلو بدلتے ہوئے کچھ فائلز ہی سائن کرتی رہی۔۔
دفعتاً اس کے فون کی گھنٹی بجی ۔
کافی عرصے کے بعد فیکٹری میں آمد اور اس کی خستہ حالی جو اس کی بہن کی لاپروائی کی بنا پر دکھائی دیتی تھی پھر سے اس کو ایک مستقل محنت کی دعوت دیتی دکھائی دے رہی تھی ۔باہمت تو وہ ہمیشہ سے تھی ۔اب بھی اللہ پر بھروسے کے ساتھ زندگی کو نئے عزم سے شروع کرنے کا ارادہ کیے بیٹھی تھی ۔
اسے کیا علم تھا فون کی یہ گھنٹی اس کی زندگی کا رخ ہی بدل ڈالے گی ۔
کال ریسو کرتے ہی ایک مردانہ اجنبی آواز نے اسے مکمل سنجیدگی سے متوجہ کیا ۔
” السلام علیکم ۔۔جی کون بات کر رہے ہیں ۔”
اس نے مخاطب کا تعارف چاہا ۔
اوعلیکم السلام جی میں آمنہ کا کزن اظہر شاہ بات کر رہا ہوں، کچھ کاروباری سلسلے میں بات کرنی تھی ۔ویسے ہم پہلے مل بھی چکے ہیں۔”
ایک نوجوان کا خیال آیا جس سے آمنہ کے گھر اس کی ملاقات ہو چکی ۔ فوراً سنبھل کر اس نے خالص کاروبارہ انداز میں بات کی
” جی فرمائیے ۔”
ضحی نے فون کرنے کا مقصد پوچھا
” جی مجھے آمنہ نے بتایا تھا کہ آپ ہاتھ سے بنے کپڑوں کا شو روم چلاتی ہیں تو مجھے اس سلسلے میں کچھ بات کرنی تھی”
اور فیکٹری اور اپنے کام کی چیدہ چیدہ معلومات اظہر شاہ کو بتانے لگی
” جی ایسا ہی ہے بلکہ اب فیکٹری کھلی ہے آپ آئیے وزٹ کیجیے،کام کی نوعیت،انداز اور معیار دیکھیے اور جو بھی بات ہے ہم مل کر لیتے ہیں۔”
ضحی نے فیکٹری کے معائنے کی دعوت دے ڈالی
“جی ٹھیک ہے! لیکن یہ یاد رکھیں مجھے جرمنی میں ایک ٹیکسٹائل کی نمائش کے لیے نفیس ہاتھ سے کڑھائی کیے ہوئے ملبوسات چاہیں جن کا معیار بہت اعلی ہو اس کے کام کے ساتھ۔”
ضحی نے اس کی بات سنی اور تسلی آمیز لہجے میں کہا
” جی ضرور۔”
اظہر شاہ اپنے کام کی نوعیت بتانے کے بعد ذاتی حیثیت میں جائزہ لینے کا سوچتے ہوئے اس کی فیکٹری وزٹ کرنے کا پلان بنایا
۔
” جی پھر آپ مجھے فیکٹری یا آؤٹ لٹ کا پتہ اور وقت بتا دیں تاکہ میں وزٹ کرسکو ”
اور فیکٹری کا پتہ پوچھنے کے بعد خدا حافظ کہہ کر فون بند کر دیا

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ نظان قدرت ہے جب تک اس کی مخلوق خود سے اپنے رزق کی بھاگ دوڑ کے قابل نہیں ہوتی تو اس کے رزق کا اللہ بندوبست کرتا ہے ۔ ایک غیبی نظام سے اس کی دستگیری کی جاتی ہے ۔
ضحی کو اس فون کال کے آنے کے بعد یقین ہو گیا ۔ اعصابی نفسیاتی آزمائش کے بعد درپیش معاشی مشکلات اور زبوں حال کاروبار کو دیکھتے ہوئے اکثر اسے پریشانی لاحق
رہتی تھی، کہ ایک آزمائش سے تو کافی حد تک نکل آئی دوسری آزمائش سے کیسے نبرد آزما ہو گی، قلت سرمایہ، مارکیٹ میں دوبارہ شناخت بنانا ایک صبر آزما جہد کے ساتھ انتھک محنت طلب مشق بھی تھی ۔ لیکن اس نے زندگی میں پہلے سے بہتر، عمدہ منصوبہ بندی اور معیار کے ساتھ آنے کا عزم کیا ۔
آزمائشیں بھٹی کی طرح ہوتی ہیں انسان کو کندن تو بناتی ہی ہیں لیکن اس کے ساتھ لگی میل اور آلائشوں کو صاف بھی کردیتی ہیں ۔
اسے زندگی اب آسان، ہلکی اور کافی حد تک پرسکون محسوس ہونے لگے ۔ ابن الوقت، خود غرض اور طفیلیے مزاج لوگ اس کے شجر حیات سے کمزور پتوں کی مانند جھڑ گے،
مخلص، احترام دینے والے اور بااخلاق افراد اس کی زندگی کا حصہ بننے لگے ۔
“بیٹا ایک بات یاد رکھو اپنے لیے پہلے جینا سیکھو، تاکہ پھر تم دوسروں کی مدد کرسکوں، جب تم دوسروں کی زندگی بنانے کے لیے خود کو ہی فراموش کرنے لگو گی تو ایک وقت کے بعد تم دوسروں سے بھی جان چھڑوانے کی کوشش میں خود کو تنہا پاؤ گئی زندگی کو معتدل اور متوازن رویوں کے ساتھ گزارنا چاہیے ”
اسے کسی کے یہ الفاظ شدت سے یاد آئے اور بطور تشکر آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی بہہ نکلی ۔
” ہاں اب میں نے اپنے لیے جینا ہے ”
اپنے آفس میں بیٹھی کام کے شیڈول کو مختلف ورکرز میں تقسیم کرتی ضحی کو چوکیدار بخت زمین نے اطلاع دی۔
” میڈیم کوئی اظہر شاہ صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں”
ضحی نے سنتے ہی ورکرز کو اپنی اپنی جگہ جانے کا کہا اور چوکیدار سے کہا
“جی انہیں لے آئیں اور ساتھ میں مہمان کے اکرام کے لیے کچھ سنیکز، بسکٹ اور نمکو کے ساتھ چائے بھی پہنچا دیں”
جاری ہے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply