فلسطین (21) ۔ لبنان جنگ کے اثرات/وہاراامباکر

پہلی لبنان جنگ اسرائیل کے لئے مہنگی ثابت ہوئی۔ یہ اسرائیل کے لئے ویسا رہا جیسا امریکہ کے لئے ویت نام۔ دنیا میں اس کا تاثر مجروح ہوا۔ اس کے عالمی تعلقات خراب ہوئے۔ مصر کے ساتھ تعلقات کے جو بحالی ہوئی تھی، حسنی مبارک کے دور میں وہ پھر سردمہری میں بدل گئی۔ بیگن، شیرون اور ایتن کے “بڑے خوابوں” میں سے کوئی پورا نہیں ہوا۔ اس میں بارہ سو اسرائیلی فوجی مارے گئے۔ (مرنے والے لبنانیوں اور فلسطینیوں کی تعداد کہیں زیادہ تھی)۔ اگرچہ پی ایل او کا ملٹری انفراسٹرکچر تباہ کر دیا گیا لیکن اسرائیلی قبضے نے مقامی شیعہ آبادی کو اسرائیل مخالف بنا دیا (اگرچہ اس نے شروع میں پی ایل او سے اپنے تلخ تعلقات کی وجہ سے اس حملے کو خوش آمدید کہا تھا)۔ اینٹی اسرائیل شیعہ تحریک کی حمایت بہت بڑھ گئی اور اس سے حزب اللہ نے جنم لیا۔ سیریا اور ایران کی فنڈنگ اور اسلحے کی وجہ سے حزب اللہ 1985 تک جنوبی لبنان کی سب سے بڑی فورس بن چکی تھی۔
حزب اللہ نے جنوبی لبنان میں اسرائیلی فورس اور اس کی اتحادی ساوتھ لبنان آرمی کے خلاف موثر گوریلا جنگ لڑی۔ حزب اللہ بھی پی ایل او کی طرح ہی اسرائیل کی طرف راکٹ داغا کرتی تھی۔ مئی 2000 تک ایسے چار ہزار راکٹ پھینکے جا چکے تھے۔ اسرائیلی آرمی نے اس کو روکنے کے لئے دو بڑے آپریشن کئے۔ 1993 میں “آپریشن جوابدہی” اور 1996 میں “آپریشن قہر والے انگور”۔ لیکن راکٹ جاری رہے۔
اس جنگ کے اٹھارہ سالہ بعد اسرائیل نے لبنان مکمل طور پر چھوڑ دیا۔ لیکن حزب اللہ کے راکٹ برستے رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری لبنان جنگ (حربِ تموز) 12 جولائی 2006 کو شروع ہوئی اور 14 اگست تک جاری رہی۔
حزب اللہ کے قائد حسن نصر اللہ نے 2005 میں اعلان کیا تھا کہ وہ اسرائیل کی قید سے چار قیدی چھڑوائیں گے۔ اسرائیلی فوجی اغوا کرنے کی کوشش کر رہی تھی تاکہ ان کے بدلے یہ سودا کیا جا سکے۔ یہ چار قیدی:
سمیر القنطار: ایک دروز تھے۔ ایک پولیس افسر سمیت کئی شہریوں کو قتل کرنے کے الزام میں 1979 سے سزا کاٹ رہے تھے۔
نسیم نصر: اسرائیلی تھے۔ ان کی فیملی نے نے یہودیوں کی واپسی کے پروگرام کے تحت اسرائیل ہجرت کی تھی۔ حزب اللہ کے لئے جاسوسی کے الزام میں 2002 میں گرفتار ہوئے تھے۔
یحیٰی سکاف: جنہیں 1978 میں کئے گئے coastal road massacre میں ملوث ہونے کے الزام میں سزا دی گئی تھی اور فتح کے ممبر تھے۔
علی فاراتان: ایک لبنانی مچھیرے تھے، جن کی تفصیل حزب اللہ نے نہیں بتائی۔ (اسرائیل کے مطابق یہ ان کی قید میں نہیں تھے)۔
حسن نصر اللہ کے اعلان کے بعد اگلے ایک سال میں حزب اللہ نے تین ناکام کارروائیاں کیں۔ کامیابی چوتھی کوشش میں ہوئی۔ 12 جولائی 2006 کو حزب اللہ نے سرحد پار اسرائیلی سرحدی فورس کی دو بکتر بند گاڑیوں پر اینٹی ٹینک راکٹوں سے حملہ کیا۔ اس سے تین فوجی مارے گئے۔ دو فوجیوں کو لبنان لے جایا گیا۔ ان کو چھڑوانے کا آپریشن ناکام رہا اور اس میں پانچ مزید اسرائیلی فوجی ہلاک ہو گئے۔
اس واقعے کے جواب میں اسرائیل نے پورے سکیل کا جنگی حملہ کیا جس میں بیروت پر حزب اللہ کے ہیڈکوارٹر پر حملہ بھی تھا۔ اس دوران لبنانی انفراسٹرکچر بھی تباہ کیا گیا۔
چونتیس روز کی اس جنگ میں 165 اسرائیلی ہلاکتییں ہوئیں جن میں 44 سویلین تھے جبکہ 1100 لبنانی جس میں زیادہ تر سویلین تھے۔ دس لاکھ لبنانی سویلین آبادی اور تین لاکھ اسرائیلی آبادی کو گھر چھوڑنا پڑے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری لبنانی جنگ میں ایران، سیریا اور یمن نے حزب اللہ کی بھرپور حمایت کی۔ امریکہ، جرمنی، آسٹریلیا اور کینیڈا نے اسرائیل کے حقِ دفاع کی۔ فلسطینی اتھارٹی، سعودی عرب، مصر، اردن، کویت، عراق، امارات، بحرین اور عرب لیگ نے لبنان کی حمایت کی۔ اس جنگ کا ذمہ دار حزب اللہ کو قرار دیا اور اس کے ایکشنز کی مذمت کی جن کی وجہ سے لبنان کو نقصان اٹھانا پڑا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس جنگ کے بعد حزب اللہ نے فتح کا اعلان کیا۔ اس کے لیڈر حسن نصراللہ عرب دنیا میں ہیرو بن گئے۔ ان کا مقامی اثر و رسوخ بڑھ گیا۔ سیاسی پوزیشن مضبوط ہوئی اور اب یہ لبنانی سیاست میں حرکت الامل کے بعد دوسری بڑی شیعہ جماعت ہے جس کی پارلیمنٹ میں بارہ نشستیں ہیں۔ (اگرچہ اس کی عسکری صلاحیت کو نقصان پہنچا اور لبنان کی سرحد کی طرف سے اسرائیل پر حملے اس جنگ کے بعد بہت کم رہ گئے)۔
اسرائیلی وزیرِ دفاع، چیف آف سٹاف اور کئی سنئیر جنرلوں کو اس جنگ کی وجہ سے مستعفی ہونا پڑا۔ اسرائیلی وزیرِاعظم ایہود اولمرٹ کو سیاسی طور پر نقصان اٹھانا پڑا اور وہ سیاست سے باہر ہو گئے۔ ان کی جگہ بنجمن نیتن یاہو نے لے لی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلی لبنان جنگ نے اسرائیل کے لئے ایک حریف (پی ایل او) کی جگہ نیا حریف (حزب اللہ) پیدا کر دیا۔ اس کے ذریعے علاقے میں ایران کے لئے موقع بن گیا۔ جنگ کا مقصد لبنان میں دوستانہ حکومت کا قیام تھا جو ناکام رہا۔ لبنان کی پارلیمان نے مئی 1983 میں اسرائیلی امن معاہدہ منسوخ کر دیا۔
پہلی لبنان جنگ کا پی ایل او پر بھی وہ اثر نہیں ہوا جو جنگ پلاننگ کرنے والوں نے سوچا تھا۔ تنظیم کمزور تو ہو گئی، ختم نہیں ہوئی۔ اس کی لیڈرشپ تیونس میں جمع ہوئی جہاں نیا ہیڈکوارٹر بنا۔ فلسطینیوں میں یہی تنظیم مقبول رہی، مغربی کنارے اور غزہ میں بھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پی ایل او نے اگلے برسوں میں مسلح جدوجہد کے بجائے سفارت کاری اور مذاکرات کی راہ لی۔ یاسر عرفات نے بعد میں اسرائیل کو تسلیم کر لیا جس نے امن کے پراسس کی راہ ہموار کی۔
اس جنگ کی وجہ سے پی ایل او نے عملیت پسندی اپنا لی، جو کہ بیگن اور شیرون کی توقعات کے خلاف تھا۔ اور ان کے لئے ستم ظریفی یہ کہ اس تنظیم کو کچل دینے کا پلان ہی تھا جس وجہ سے پی ایل او مغربی کنارے اور غزہ میں بعد پاور میں آئی۔ اس نے بہت سے اسرائیلیوں کو قائل کیا کہ عسکری برتری کے باوجود مسئلے کا جنگی حل نہیں ہے۔ اسرائیل کو اپنی سخت پوزیشن چھوڑ دینا پڑی اور مذاکرات کی میز پر آنے کا راستہ بن گیا۔
(جاری ہے)

Advertisements
julia rana solicitors london

پکڑے گئے دو اسرائیلی فوجیوں کو قتل کر دیا گیا اور 2008 میں ان کی لاشوں کے بدلے سمیر قنطار اور نسیم نصر آزاد ہوئے۔ قنطار نے سیرین خانہ جنگی میں بشار الاسد اور حزب اللہ کی طرف سے کمانڈر تھے۔ اسد حکومت کے خلاف لڑنے والی فری سیرین آرمی کے ہاتھوں دمشق کے قریب جرمانا کے علاقے میں 2015 میں مارے گئے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply