سپون فیڈنگ کسے کہتے ہیں ؟۔۔عبدالستار

یہ ایک ایسا عمل ہے جو اس وقت اختیار کیا جاتا ہے جب بچہ بہت چھوٹا ہوتا ہے اور اپنی مدد آپ کے تحت کچھ بھی کھانے پینے کے قابل نہیں ہوتا تو ماں بچے کو ابتدائی خواراک کا عادی بنانے کے لیے تھوڑی تھوڑی خوراک چمچ کے ذریعے بچے کے منہ میں ڈالتی ہے تاکہ بچہ ڈائٹ پراسس کا عادی ہوسکے اور ایسا کرنا بچے کی ذہنی اور جسمانی نشوونماکے لیے ضروری ہوتا ہے ،بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ ایک مناسب وقت پر یہ پراسس ختم ہوجاتا ہے اور میچور ایج میں بچہ خود کھانے کے قابل ہوجاتا ہے اس سارے عمل کو ہم بچے کا ابتدائی ڈایٹ پیکج بھی کہہ سکتے ہیں، اس کے علاوہ بچے کی ابتدائی ذہنی اسپون فیڈنگ بھی ہوتی ہے جو  والدین اپنی روایتی سوشل کنڈیشنگ یا سکولنگ کے حساب سے کرتے ہیں ،ایک بنے بنائے فکس پیکج کی طرح ایک وراثتی عمل کے طور پر بچے کی تربیت کا آغاز کر دیا جاتا ہے ۔

یہی روایتی ذہنی اسپون فیڈنگ بچے کی ابتدائی زندگی کا خاکہ تشکیل دیتی ہے یہ روایتی دائرہ یا زنجیر اتنی پختہ ہوتی ہے جس کو عبور کرنے میں یا توڑنے میں اس کی زندگی کے ماہ و سال ضائع ہو جاتے ہیں ،بہت سارے تو اس روایتی سرکل کو توڑنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور اکثر اسی روایتی چکر میں پھنسے رہ جاتے ہیں اور نرگسیت کے دائرے میں قید ہو کر ایک طرح کی روایتی زندگی گزارنے پر اکتفا کر لیتے ہیں ۔

یہ ابتدائی ذہنی اسپون فیڈنگ اتنی خطرناک ہوتی ہے جو ایک شخص کی سوچ کو محدود بنا دیتی ہے اور وہ ایک ایسے فریب کا شکار ہوجاتا ہے جس سے وہ ساری زندگی باہر نہیں نکل سکتا ،یہ ابتدائی فریب ایک ایسے ڈوگ میٹک ببل کی طرح ہوتا ہے جس میں مقید رہنا اچھا لگنے لگ جاتا ہے ۔ایسے بندے کی سوال کرنے کی صلاحیت مسخ ہو جاتی ہے اور وہ ایک ایسے مشینی روبوٹ کی طرح بن جاتا ہے جس کی پروگرامنگ پہلے سے ہی فکس کردی گئی ہو یعنی اس کی اپنی سوچ کا عمل دخل بالکل ختم ہوجاتا ہے اور وہ اپنی محدود سوچ کے بارے میں cocksure خود پسند یا بالکل پر یقین ہوجاتا ہے ،وہ اپنے ماحصل پر سیکنڈ تھاٹ کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا کیونکہ جس چیز کو آپ پہلے سے پرفیکٹ مان لیتے ہو تو اس پرسیکنڈ تھاٹ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔

جو لوگ روایتی سوشل کنڈیشنگ سے نہیں نکل پاتے وہ اپنے رویے اور رائے میں خود سر اور خود پسند ہوجاتے ہیں ،جب بھی ان کے سامنے کوئی مختلف نقطہ نظر آتا ہے تو وہ جلد طیش میں آجاتے ہیں اور جذباتی ہو کر اپنے مخاطب پر طرح طرح کے کفریہ ٹیگ لگا دیتے ہیں زندگی میں اکثر ایسے لوگوں سے سامنا ہوتا رہتا ہے جو اپنے قائم شدہ تصورات کے بارے میں اٹل ہوتے ہیں اور زندگی کی حادثاتی چھلنی کے نتیجہ میں حاصل ہونے والے حقائق کو حتمی سچ کا درجہ قرار دے کر دوسروں پر تھوپنے کی کوشش میں مگن رہتے ہیں ،ایسے لوگ دوران گفتگو اپنے نقطہ نظر کو بڑے جذباتی لہجے میں پیش کرتے ہیں ،ان کے لہجے میں خاص طرح کی نرگسیت ہوتی ہے ۔مختلف قسم کی سچائیوں کے سامنے انہیں اپنا سچ اعلیٰ اورارفع نظر آتا ہے ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کا یہ ہارڈ رویہ پیدائشی ہوتا ہے یا معاشرتی ؟بنیادی وجہ ابتدائی سکولنگ ہے جس میں سر فہرست والدین دوسرے نمبر پر تعلیمی نظام اور تیسرے نمبر معاشرتی حد ودوقیود آتی ہیں ، پیدائشی طور پر بچہ ایک لحاظ سے سائنسدان ہوتا ہے اور اس کے اندر بے پناہ تجسس پایا جاتا ہے ،والدین اپنے مذہب ،فرقہ اور روایات کے مطابق بچے کی پرورش کرتے ہیں جب وہی بچہ بڑا ہو کر تعلیمی میدان میں داخل ہوتا ہے تو مختلف تعلیمی ادارے اسے نمبر گیم کا کھلاڑی بنا دیتے ہیں اور سمارٹ سٹڈی کی بنیاد پر اسے ایزی آپشنز کی طرف دھکیل دیتے ہیں پھر جب یہی بچہ پختہ عمر میں معاشرتی ماحول میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کرتا ہے تو وہ کچھ نیا نہیں کر پاتا یا روایات سے ہٹ کر کچھ بھی پرفارم نہیں کرسکتا کیونکہ اس کی تربیت میں کچھ بھی پریکٹیکل نہیں ہوتا ہے ، اس طرح سے وہ ایک معاشرتی روبوٹ کی مانند معاشرے میں پرفارم کرنے پر مجبور ہوجا تا ہے ۔وقتی ٹارگٹ کو حاصل کرنے کا یہ سٹرکچر دراصل بچے کی وسیع و عریض کائنات کو محدود کر دیتا ہے بالکل اسی طرح جیسے گھوڑے ،گدھے اور خچر پر مال برداری کرنے کے لیے اس کا مالک ان کی آنکھوں پر بلنکرز چڑھا دیتا ہے تاکہ وہ اپنی پوری توجہ سے سڑک پر دوڑتا رہے بالکل اسی طرح ہم اپنے بچوں کی آنکھوں کے گرد روایتی بلنکرز چڑھا دیتے ہیں تاکہ وہ اپنی مرضی سے ادھر ادھر نہ دیکھ سکیں ،شروع سے ہی بچےکے رجحان میں ایزی آپشن کی گھٹی ڈال دی جاتی ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمیں ایک سوال کا ایک ہی جواب یاد رکھنے پر مجبور کیا جاتا ہے ،یہ بتایا ہی نہیں جاتا کہ ایک سوال کے کئی جواب ہوسکتے ہیں ۔اپنے بچوں کو فائدہ مند اور باوقار انسان بنانے کے لیے انہیں سیکھنے کے لیے آزاد کرنا ہوگا تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر اپنی صلاحیت کو جانچیں اور ایک اچھے انسان بنیں۔ہم بطور والدین ،اساتذہ اور معاشرتی پنڈت ہونے کےبچوں کو کچھ بھی بننے پر مجبور نہ کریں بلکہ یہ فیصلہ ان پر چھوڑ دیں اور زندگی کی بھاگ دوڑ ان کے ہاتھ میں تھما کر خود کو پرسکون کرلیں اور اپنے بچوں کو موقع دیں کہ وہ اپنا جہان اور آسمان خود تشکیل دیں ،خدا را ان کے پَر مت کاٹیے انہیں اپنے پَروں پر بھروسہ کرنے دیجیے ۔

Facebook Comments