حکیم خطرہ جان کا جہنم سے ایک خط

“مکالمہ” اس خط اور اس کے مندرجات سے بلکل اتفاق نہیں کرتا، طالبان ہمارے بھائی ہیں اور مانی جی یہودی ایجنٹ ہیں۔ ہم صرف اسلیۓ چھاپ رہے ہیں کہ دنیا کو پتہ چلے کہ یہودی ایجنٹ کتنے برے ہیں۔ ایڈیٹر)

پڑھنے والے کے لیئے ہدایت: خط کو زیادہ ہِل کر اور لیٹ کر پڑھنے سے گریز کریں (منصور احمد خان)

پیارے قاسم بلونگڑے کو مل کر، ہر دل خبیث احسان کو ملے؛

یہ دنیا پیتل دی۔۔ وے طالبان میں سونے دی، آپ سب کا طالبعلم، دا طالبان دا امیر،حکیموں کا حکیم، صرف اپنے احسان عرف پکی کلی سے مخاطب ہے!
وے کم بخت بلا وجہ کے احسان۔ بونگی مار ترجمان۔ میری پنجابی اور اردو پر زیادہ دیدے نہ پٹ پتا۔۔۔ ورنہ تیری آنکھیں نکال کر اسی طرح بنٹے کھیلوں گا جیسے تو نے اس نیلی آنکھوں والے فرنگی کافر کی آنکھیں نکال کر کھیلی تھیں۔ یاد ہے نا؟ ارے وہ ہی جس کے پیچھے سارے طالبان لونڈے لگ گئے تھے، حالانکہ وہ آگے سے زیادہ خوبصورت تھا۔ یار یہ اردو، یہ سب، بس اسی عطار کے لونڈےکا کرم ہے، جو اپنی اردو تے پنجابی گرم ہے! سنا ہے کوئی میر تقی میر دوا لیتا تھا اس سے! خیر اردو اور پنجابی کے کچھ بڑے کائنات پھاڑ ادھر میرے ساتھ ہیں!

بس یار ایک گلہ ہے، یہاں تو اپنے سے بھی بڑے بڑے گرد ہیں۔ نہ، نہ دہشت کا یہاں کیا کام۔ یہاں کوئی بم یا خود کش جیکٹ بنانے کا فیکٹری تھوڑی ہے! خود کش سے یاد آیا، اپنا وہ چودہ سال کا خود کش یاد ہے؟ ابے وہی جس کو زرین پٹاخہ کے ساتھ چھوڑا تھا! پھر بعد میں حوروں کے آسرے دیے تھے کہ بیٹا زرین پٹاخہ بھول جائے گا۔ایسا ایسا میڈ ان انگریز مال ملے گا ہاں! آ گیا نہ یاد؟ دیکھا مجھے تو پہلے ہی شک تھا تجھ پر، کیسے فوراً سے آگیا یاد! تیری بڑی نظر تھی اس پر۔ ابے یار یہ حرکتیں اپنے لونڈوں کے ساتھ چھوڑ دو۔ بدک جاتے ہیں۔ پھر بولتے پھرتے ہیں کہ کون کہتا ہے کہ مرد کے درد نہیں ہوتا! خیر یار اس لونڈے نے پکڑ لیا مجھے۔۔۔ بتائو کل کاچھوکرا ہمارے منہ آ رہا تھا کہ جنت کا وعدہ کیا تھا، حوروں کا بولا تھا کدھر ہیں!! یہاں تو بڑی بڑی مونچھوں والے جن ہیں! اب میں اس کو کیسے بتاؤں کے میرے ابے نے بھی مجھے یہ ہی آسرے دیے تھے۔ آ لینے دے ابے کو، یار کل سے ابے کو بڑی والی دیگ میں ڈال کر کھولتے ہوئے پانی میں ابال رہے ہیں۔ یار تجھے تو پتہ ہے ہمارے ابے کے بال جونا کٹ تھے۔ اب یہاں کا جو “ہیڈ جن” ہے، وہ ابے کو جھانویں کی طرح استعمال کرتا ہے۔ پہلے تو میں سمجھا کہ “ہیڈ جن” کا طالبان یخنی کا موڈ ہے، مگر۔۔مگر کم بخت میل اتارتا ہے اپنا!!! میرے ابے سے۔

یار یہ کمبخت سے یاد آیا، وہ کون سی فلم تھی، جس میں کم بخت عشق جنت دکھاتا ہے؟؟ ذرا معلوم تو کر!اس کم بخت عشق کی وجہ سے ہمارا بزنس چوپٹ ہو جائے گا۔ دیکھو بھلا اگر کم بخت عشق ہی جنت دلا دے گا تو ہمارے خود کش کیا آم کے چکر میں پھٹیں گے؟ اور سنا پاکستان کے کیا حال ہیں؟ سنا ہے کوئی آپریشن چل رہا ہے؟ تم سب تو بچے ہوئے ہی ہو گے ابھی تک، کیونکہ جو جو مر رہا ہے وہ یہاں آ کر میرا گریبان پکڑ رہا ہے۔ یار اپنے ساتھ تو دھوبی کے کتے والی ہو گئی۔یہاں بھی منہ چھپا کر پھرنا پڑ رہا ہے۔۔ایک منٹ رک ذرا۔۔میرے آگ کے انجکشن کا ٹائم ہو گیا ہے۔۔آ آ۔۔کون کم بخت کہتا ہے طالبان کو درد نہیں ہوتا۔۔۔

ہائے ہائے یہ دنیا پیتل دی اور میں طالبان سونے دی! یار نسوار بڑی یاد آتی ہے۔ خیر میں تجھ کو بتا رہا تھاکے یہ جو اسلام اور حوروں کے نام پر ہم لوگوں کو پھاڑ رہے ہیں اب اس میں تھوڑی تبدیلی لاو۔ ہمارے جتنے بھی آقا ہیں ان میں سے کچھ میرے ساتھ ہیں یہاں پر۔ وہ کہتے ہیں کہ اب لوگوں کوپتہ چل رہا ہے کہ ہمارا اسلام سے دور دور کا بھی کوئی لینا دینا نہیں۔ یہ کہتے ہیں کے اب سنی کو شیعہ اور بریلوی کو دیو بندی سے لڑادو! اس میں زیادہ پیسہ ہے۔باقی خود کش کے لیے نو عمر لڑکے پکڑو اور ان کے لیے زرین پٹاخہ جیسی لڑکیاں تا کہ ان کا دل لگا رہے۔

یار پٹاخہ بڑی یاد آتی ہے۔یہاں پر تو ہم خود پٹاخے کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ہائے ہائے، اچھا یار سن، تجھ سے ایک کام ہے، اب تیرے سے کیا پردہ، یار نیویارک میں اپنے چار فلیٹ ہیں، ہر فلیٹ میں اپنا ایک ایک عورت، بولے تو بیوی ہے، یار میں نے ان کو کوئی ایک لاکھ ڈالر بھجوانے تھے خرچے کے لیے!! پر برا ہو اس ڈرون کا جو مجھ پر آن پھٹا! خیر یار میرا افغانستان والا جو بنگلہ ہے، اس کے لان میں پوست کی جو چھوٹی سی فصل میں نے لگائی ہوئی ہے، وہاں میں نے ڈالرز دبا کر رکھے ہوئے ہیں۔ یار توذرا وہاں سے نکال کر اپنی چار پیاری پیاری بھابیوں کو تو بھیج دے اور سن جو چوتھی والی بیوی جو ہے، وہ فرنگی کافر ہے اس کو انگریزی میں بھیجنا۔ حق ہائے پانچ ہوتیں، اگر اسلام میں پانچ کی اجازت ہوتی، تجھے تو پتہ ہے میں کتنا پکا مسلمان تھا!

یار یہ داعش والے بھی اپنے آپ کو ہم سے بڑا مسلمان کہہ رہے ہیں۔ کہنے دے، ان کے لیے ایک ملٹی اسٹوری سو فی صد آگ سے بنی دیگ اور چائنہ سے در آمد شدہ سو فی صدخالص تانبے کے ڈنڈے تیار ہیں، ابے مزے کی بات سن یہ ڈنڈے چینیوں نے اس باتنے کے تار سے بنائے ہیں جو کراچی میں، “کے الیکٹرک” کسی زمانےمیں استعمال کرتی تھی،اب تو سب سلور ہے نرا!!!

رات کو جب ہم طالبان غسل آگ سے فارغ ہو کر ایک دوسرے کو کوڑے مار رہے ہوتے ہیں تو کئی پاکستانی سیاست دان اور جرنیل بھی شغل میلے کے لیے ہمارے ساتھ آ جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک سیاسی لیڈر کا ٹانکا واپڈا اور کے الیکٹرک سے جڑا تھا۔ اسی نے بتایا۔ میں تو جھوٹ جانوں،کہ یہ ہمیں پیسے دیتے وقت کیسا رونا پیٹنا ڈال دیتے تھے۔ ان کا بھروسہ نہیں مجھے!

یار ویسے اب لوگوں کا بھروسہ ہی نہیں رہا دنیا میں تو! مجھےا بھی کچھ دن پہلے ایک خود کش دھماکے میں پھٹنے والے کدو کش خان نے بتایا اس کے باپ امرود خان کو چند روز قبل پولیس خود کش جیکٹ بنانے کے الزام میں گرفتار کر کے لے گئی۔ اب وہ چیخ چیخ کر بتا بھی رہا تھا کےبھائی پولیس، میں یہ خود کش جیکٹ بنانے کا کام نہیں کرتا۔ یہ دہشت کا کام میں نہیں کرتا، میرا کام تو بس خود کش بمباروں کو لوکل پریاںسپلائی کرنے کا ہے، یہ مارنے والے گند بلا میں نہیں پڑتا میں۔ غضب خدا کااس کے معصوم باپ کے سچ پر کسی نے یقین ہی نہیں کیا، کہا اچھا ہمیں ان لوگوں کا پتہ دو جن کو سپلائی کرتے ہو۔ بے چارے نے معصومیت میں پتہ بتا دیا کے چل یار جان تو چھوٹ ہی جائے گی۔۔ مگر نہیں، اس کے بعدبھی الٹا ٹانگ دیا، صحیح کہا کدو کش نے، سچ بولنے اور بھلائی کرنے کا تو زمانہ ہی نہیں ہے!

Advertisements
julia rana solicitors

چل یار بس!اب میں پھر کبھی تجھ کو لکھوں گا باقی احوال، اب میرا روسٹ ہونے کا ٹائم ہو گیا ہے۔ بس ایک بات میری یاد رکھ کے مسلمانوں کو کبھی پتہ نہیں چلنا چاہیے کے یہ سب ایک ہیں، اللہ کو ان کے ہاتھ باندھ کر یا ہاتھ چھوڑ کر،سنی، شیعہ، دیوبندی ہونے، بریلوی ہونے سےکوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس کی نظر میں سب اسی کے بندے اور ایک اللہ اور آخری نبی کو ماننے والے ہیں! ان کو اسی طرح لڑواتا رہے اور اسلام کے نام پر ایسے ہی سب کو دھوکا دیتاجا۔ چل اب اجازت دے، ایسا نا ہو کہ میرے ساتھ تجھے بھی روسٹ کر دیں!
از طرف
آپ کا حکیم خطرہ جاں
جہنمی کالونی، درجہ اول، چوک جہل پورہ، جہنم

Facebook Comments

منصور مانی
صحافی، کالم نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply