• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • جدید پنجابی شاعری کے دو سب سے بڑے شاعر۔اوتار سنگھ پاش اور شو کمار بٹالوی/زاہد علی بھٹی ۔۔۔حصہ اول

جدید پنجابی شاعری کے دو سب سے بڑے شاعر۔اوتار سنگھ پاش اور شو کمار بٹالوی/زاہد علی بھٹی ۔۔۔حصہ اول

انیس سو ساٹھ اور ستر کی دہائیاں دنیا بھر میں انقلابی تحریکوں کی دہائیاں تھیں عالمی جنگوں کے اختتام اور دنیا کے نئی جغرافیائی حدود کی شکل میں سامنے آنے کے بعد اب لوگوں میں سیاسی و سماجی شعور اور اپنے بنیادی حقوق کے مطالبات کا مرحلہ تھا پرانی روایات تبدیل ہو رہی تھیں.
ایسے میں ہندوستان میں مغربی بنگال کے اک ضلع دارجلنگ کے اک چھوٹے سے قصبے “نکسلباڑی” سے نیکسلائٹ موومنٹ کا آغاز ہوا، یہ تحریک دیکھتے ہی دیکھتے ہندوستان بھر میں پھیل گئی آج بھی ہندوستان کے تقریباً بیسویں حصے اور ملک کے جنگلات کے پانچویں حصے پر نکسیل باغی قابض ہیں
اس تحریک سے پنجابی ادب میں انقلابی شاعری کی اک پوری کھیپ دنیا کے سامنے آئی جن میں درشن کھٹکڑ، لال سنگھ دل، سنت رام اداسی، امر جیت چندن اور اوتار سنگھ سندھو (پاش) جیسے بڑے مزاحمتی اور انقلابی شعراء شامل ہیں ان سب میں سے اوتار سنگھ سندھو یعنی پاش کو لوگوں نے بے حد پسند کیا اسکی شاعری آج بھی نوجوانوں کو کچھ کر گزرنے، خاموشی اور معاشرتی جمود کو توڑ کر رکھ دینے پہ اکساتی ہے
اگر دیکھا جائے تو پچھلی صدی اور جدید پنجابی شاعری کے دو ہی بڑے شعراء ہیں جنکی شاعری میں مماثلت تو نہیں لیکن اگر کسی نے سگنیچرڈ شاعری کی ہے تو دو نام ہی ہمارے سامنے آتے ہیں اوتار سنگھ پاش اور شو کمار بٹالوی ، جنکا کلام پڑھ کے قاری سمجھ جاتا ہے کہ یہ ان کا ہی انداز ہے بات کرنے کا یہ ڈھنگ شو یا پاش کا ہی ہو سکتا ہے
پاش کی نظمیں کھیتوں کھلیانوں سے ہوتی ہوئی سیدھی سسٹم سے ٹکراتی اور اسے پاش پاش کر دیتی ہیں وہ خود ہنسی خوشی جینے کی بجائے اپنی شاعری اور سماجی و معاشرتی تفرقات کو سونپنا ہے
عام شعراء گاؤں کے باہر کھڑے ہو کر وہاں کی خوبصورتی اور خالص آب و ہوا دکھاتے ہیں اور اسے اک خوش قسمت ماحول بتاتے ہیں، لیکن اسکے برعکس پاش پڑھنے والے کو انگلی سے پکڑ کر گاؤں کی گلیوں اور پگڈنڈیوں پہ لے جاتا ہے اور وہاں کے مسائل و مشکلات سے بھری زندگی دکھاتا ہےاس نے ہمیشہ عالمی و حکومتی فیصلوں کو اپنے گاؤں پہ ہونیوالے اثرات کی روشنی میں دیکھا.
اسکی شاعری میں پنجاب کا اک پورا گاؤں نظر آتا ہے.

“اڑتے ہوئے بازوں کے پیچھے”
جنہوں نے دیکھی ہے
چھتوں پہ سوکھتی مکئی کی فصل
اور نہیں دیکھیں منڈیوں میں سوکھتی ہوئی قیمتیں
وہ کبھی نہیں سمجھ سکتے
کی کیسے دشمنی ہے
دلی کی اس حکمران عورت کی
اس ننگے پاؤں والی گاؤں کی خوبصورت لڑکی کے ساتھ”

پاش کی پیدائش پنجاب کے ضلع جالندھر کے اک گاؤں تلونڈی سلیم میں 9 ستمبر 1950 کو سردار سوہن سنگھ سندھو کے ہاں ہوئی سوہن سنگھ سندھو فوج میں ملازم تھےپاش اپنے والدین کی انتہائی لاڈلی اولاد تھا۔
1964 میں ہائی سکول کھیوہ سے پاش نے مڈل پاس کی، اسی سال یعنی چودہ سال کی عمر سے ہی وہ مارکسزم کے پرچاروں کے جلسوں میں شرکت کرنے اور باقاعدہ بحث میں حصہ لینے لگا اور انکی کارروائیوں اور کوششوں کو انتہائی سست گردانتا، 1965 میں اس نے اپنی پہلی نظم لکھی اور اپنے والد کو خط میں لکھ بھیجی تب وہ جونیئر ٹیکنیکل سکول کپورتھلہ میں پڑھ رہا تھا اس زمانے میں اس کی کچھ نظمیں “نواں زمانہ” میں بھی چھپیں۔پاش نے اپنا تخلص “پاش” میکسم گورکی’ کے مشہور ناولMother (ماں)  کے اک کردار پاویل سے متاثر ہو کر لکھا جسے اسکی ماں پیار سے پاشا کہہ کر پکارتی ہے
1967 میں پاش نے جینیئس سکول جالندھر سے نویں جماعت پاس کی اور اسکے بعد بی-ایس- ایف( بارڈر سکیورٹی فورسز)  میں بھرتی ہو گیا. فوج میں بھرتی ہوتے ہی اسے احساس ہو گیا کہ عام آدمی لڑنا نہیں چاہتا بلکہ حکمران اور وہ لوگ لڑوانا چاہتے ہیں جنکے مفادات لڑائی کے ساتھ جڑے ہیں، اور ناں ہی  وہ اپنی خدمت کا حقدار صرف ایک ہی ملک کے لوگوں کو سمجھتا تھا

“ریڈیو کو کہو
قسم اٹھا کر کہے
دھرتی اگر ماں ہوتی ہے تو کس کی؟
یہ پاکستانیوں کی کیا ہوئی
اور ہندوستانیوں کی کیا لگی؟”

عام آدمی اور محنت کش کسان کی سوچ کو وہ ایسے بیان کرتا ہے :-

” وہ ریڈیو نہیں سنتے
اخبار نہیں پڑھتے
جہاز کھیتوں میں ہی خبر دے جاتے ہیں
ہل کی ہتھی کو پکڑتے ہوئے
وہ صرف ہنس دیتے ہیں
کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ہل پاگل نہیں
پاگل تو توپ ہوتی ہے ”

اسی سال ہی اس نے فوج کی ملازمت چھوڑ دی.
صرف نویں جماعت پاس یہ عام سا لڑکا، دنیا بھر کے ادب، تاریخ، سیاست، فلسفہ، مذہب اور شاعری کا وسیع مطالعہ رکھتا تھا، سیگمند فرائیڈ، میکسم گورکی،مارکس، پابلو نرودا، رجینش،برٹنڈر ، شیکسپیئر  ، ایم نوائے، راہل شنکر، شلوکوف، سب کو پڑھا، آچاریہ رجنیش پر تو آرٹیکلز بھی لکھے، ایک ایک لکھاری کو انتہائی دلچسپی سے پڑھا اور دو دو سال تک ایک ایک لکھاری کو پڑھتا رہتا، گاؤں سے باہر اپنے کنویں پر بیٹھا یہ نوجوان دنیا بھر سے باخبر تھا اور اپنی شاعری سے اپنے پورے سسٹم کو للکار رہا تھا
1968 میں امر جیت چندن نے اک انڈر گراونڈ رسالہ”دستاویز” نکالا جس میں پاش کی کچھ نظمیں چھپیں اور جنہوں نے اس وقت ہونے والی شاعری کا رخ ہی بدل دیا پاش اور سنت رام اداسی لوگوں میں اور خاص طور پر نوجوانوں میں بے حد پسند کیے جانے لگے یہاں تک کے لوگ اس وقت شو کمار بٹالوی کی شاعری پر بھی معترض نظر آئے نظریہ سے خالی شاعری کو لوگ ناپسند کرنے لگے.
1969 میں نیکسلائٹ موومنٹ شروع ہوئی جس میں ہندوستان بھر کے لوگ شامل ہوئے پنجاب میں یہ تحریک انتہائی زوردار طریقے سے چلی، پاش بھی اس تحریک میں شامل ہو گیا
مئی 1970 میں پاش کو اک جھوٹے قتل کیس میں پرتشدد کاروائی کے بعد جیل بھیج دیا گیا، جیل پہنچ کر اسکی شاعری اور انقلابی خیالات میں شدت آتی گئی جیل سے ہی اسکی پہلی کتاب “لوح کتھا” شائع ہوئی لوح کتھا کی نظموں میں پاش ملک میں طرز حکمرانی، جمہوریت کے دعووں، سماجی روئیوں اور انکی قدروقیمت، وطن اور محب وطنی کے پیمانوں کو چیلنج کرتا ہے اس میں وہ جمہوریت، قومی وحدانیت اور بھارت ماتا کے نظریات کو رگیدتا ہے

” میرا اب حق بنتا ہے
میں نے ٹکٹ خرچ کر
تمہارا جمہوریت کا ناٹک دیکھا ہے
اب تو میرا ناٹک ہال میں بیٹھ کر
ہائے ہائے اور چیخیں مارنے کا
حق بنتا ہے
تم نے بھی ٹکٹ کاٹتے ہوئے
ٹکے کی چھوٹ نہیں کی
میں بھی اپنی پسند کا بازو پکڑ کر
کرسیاں پھاڑ ڈالوں گا
پردے جلا ڈالوں گا”

نظم” بھارت” میں کہتا ہے

” انکے پاس پیٹ کے علاوہ کوئی سمسیا نہیں
وہ بھوک لگنے پر
اپنے انگ تک چبا سکتے ہیں
انکے لئے زندگی اک روایت ہے
اور موت کا مطلب نجات ہے
جب بھی کوئی عظیم بھارت کی
قومی وحدانیت کی بات کرتا ہے
تو میرا دل کرتا ہے
اسکی ٹوپی ہوا میں اچھال دوں
اور اسکو بتاوں
کہ بھارت کا مفہوم
کسی “دشینت”سے سمنبدھت نہیں
بلکہ کھیتوں میں پڑا ہے
جہاں اناج اگتا ہے
جہاں نقب لگتی ہے”
(راجہ دشینت جسکے بیٹے بھرت کے نام پہ بھارت کا نام مانا جاتا ہے)

اک اور نظم” انتکا” میں کہتا ہے
” ہم نے پیدا نہیں ہونا تھا
ہم نے لڑنا نہیں تھا
ہم نے تو ہیمکنٹ پہ بیٹھ کر
بھگتی کرنی تھی
پر جب ستلج کے پانیوں سے بھاپ اٹھی
پر جب قاضی نذرالاسلام کی زبان رکی
جب لڑکیوں کے پاس دیکھا جم کارٹر
اور لڑکوں کے پاس دیکھا جیمز بانڈ
تو میں کہہ اٹھا چل بھئی سنت سندھو
نیچے زمیں کے چلتے ہیں
گناہوں کا وزن تو بڑھتا ہی جا رہا ہے”

جیل سے نکلنے کے بعد پاش نے” سیاڑ” نام کا رسالہ نکالہ
1972 میں طلبہ تحریک انقلاب کے تین طالب علموں کو پولیس نے قتل کر دیا، پاش نے ان طلبہ کے لیے اک نظم” بارڈر” لکھی اور اس تحریک میں بھرپور حصہ لیا جس کی بنا پر پاش کو ایک بار پھر جیل بھیج دیا گیا
” بارڈر”
در اصل
یہاں ہر جگہ پر اک بارڈر ہے
جہاں ہمارے حقوق ختم ہوتے ہیں
اور طاقتور لوگوں کے شروع ہوتے ہیں
اور ہم ہر طرح سے آزاد ہیں،
اِس پار بیٹھ کر
گالیاں دینے کو
مُکے لہرانے کو
الیکشن لڑنے کے لیے
سات قسم کی مسکراہٹ کو چومنے پر
کوئی پابندی نہیں اِس پار
اور اس سے آگے ہے قصبوں
میں اڑتی ہوئی دھول،
پلی ہوئی جووں کی طرح
بی ایس ایف کے رینگھتے ہوئے ٹرک”
1973 میں پاش کو” سیاڑ”  بند کرنا پڑا
اسی برس پاش کی دوسری کتاب” اڑتے بازوں کے پیچھے” شائع ہوئی
” اڑ گئے ہیں باز چونچوں میں لےکر
ہماری چین سے اک پل بتا سکنے کی خواہش
تو دوستو اب چلا جائے
اڑتے بازوں کے پیچھے”
اسی کتاب کی نظموں میں،” اڑتے بازوں کے پیچھے، سفر، میں پوچھتا ہوں، جیل، ہم لڑینگے ساتھی، لنکا کے انقلابیوں کے نام، احمد سلیم کے نام” جیسی اعلیٰ نظمیں بھی شامل تھیں
” ہم لڑینگے ساتھی”
اداس موسموں کے لیے
ہم لڑینگے ساتھی غلام خواہشات کیلئے
ہ………..
جب بندوق ناں ہوئی، تو تلوار ہو گی
جب تلوار ناں ہوئی، لڑنے کی لگن ہوگی
لڑنے کا پتا ناں ہوا، لڑنے کی ضرورت ہو گی
اور ہم لڑینگے
ہم لڑینگے
کہ لڑے بغیر کچھ بھی نہیں ملتا
ہم لڑیں گے
کہ ابھی تک لڑے کیوں نہیں
ہم لڑیں گے
اپنی سزا قبول کرنے کے لیے
لڑ کر مر جانے والوں کی یاد زندہ رکھنے کیلئے
ہم لڑیں گے”
مئی 1974 میں ریلوے ہڑتال کیس میں پاش کو پھر گرفتار کر لیا گیا پاش نے جیل سے” لالی” نام کا ہاتھ سے لکھا ہوا رسالہ نکالا  اسے وہ ایڈیٹ بھی خود ہی کرتا، یہ ہاتھ سے لکھا رسالہ بھی اک انوکھا تجربہ تھا، اسی سال پاش نے مشہور ایتھلیٹ ملکھا سنگھ کی بائیو گرافی لکھی جو ملکھا سنگھ کی پہلی بائیو گرافی بھی تھی
جیل سے رہائی کے بعد 1976 میں میٹرک اور اسکے بعد گیارہویں پاس کی اور جالندھر کالج میں داخلہ لیا،
سال 1978 میں پاش نے جے-بی-ٹی پاس کی، اسی سال پاش کی شادی راجوندر کور سندھو سے ہوئی، 1978 میں ہی پاش کی تیسری کتاب “ہمارے وقتوں میں” شائع ہوئی جو بعد میں گرو نانک یونیورسٹی میں داخل نصاب بھی ہوئی اس کتاب کی نظموں میں پاش فکری عروج پر نظر آتا ہے چند ایک رومانوی نظمیں بھی اس کتاب میں شامل تھیں
“ہمارے وقتوں میں” اک کافی لمبی نظم ہے جس میں وہ مارکسزم کی جھوٹی دعویدار سیاسی پارٹیوں پر تنقید کرتا ہے
“یہ شرمناک حادثہ ہمارے ہی ساتھ ہونا تھا
کہ دنیا کے سب سے پاک لفظوں نے
بن جانا تھا، تخت کی سیڑھیاں
مارکس کا شیر جیسا سر
دلی کی گلیوں میں چیختا پھرتا
ہم ہی نے دیکھنا تھا
میرے یارو
یہ کفر ہمارے ہی وقتوں میں ہونا تھا
……..
میرے یارو! ہمارے وقتوں کا اتحاس
بس اتنا ناں رہ جائے
کہ ہم آہستہ آہستہ مرنے کو ہی
جینا سمجھ بیٹھے تھے
کہ ہمارا وقت گھڑیوں سے نہیں
اعضاء کے گلنے سے ماپا گیا
یہ سب ہمارے ہی وقتوں میں ہونا تھا”
1979 میں پاش نے گرو نانک نیشنل سکول شروع کیا یہاں پہ جھاڑو دینے سے پڑھانے تک سب کام وہ خود کیا کرتا اسکا ماننا تھا کہ ایک اچھا معلم ہی معاشرے میں سدھار پیدا کرسکتا ہے اس سکول کی ایک خاص بات یہ تھی کہ یہاں دلتوں، اور بچھڑے ہوئے طبقات( چھوٹی ذات لوگوں ) کے بچوں کو بھی خاص طور پر پڑھایا جاتا پاش کی نظر میں سب انسان برابر ہیں اور علم حاصل کرنا انکا بھی حق ہے سکول کی دیوار پہ اک پیغام لکھا تھا :- ” قسمت کو چھوڑو اور اپنی زندگی سے جینے کے لئے ایک دن چُرا لو”
لیکن پاش کو گھریلو حالات اور تنگدستی کے سبب یہ سکول بند کرنا پڑا
1980 کے بعد پنجاب میں فرقہ واریت اور سرکاری تشدد دونوں عروج پر پہنچ گئے پاش نے خالصتانیوں اور حکومت، دونوں کی ڈٹ کر مخالفت کی اندرا گاندھی پر تو اپنی نظموں میں نام لے کر تنقید کی

” بلے بلے بھئی، جادوگرنی اندرا نے
لوگ کاٹ دئیے جیلوں میں بھر بھر کے
بھئ جادوگرنی
بلے بلے بھئی، نہرو کی لاڈلی بیٹی
دوسرا ناک ناں لگوانا پڑ جائے
بھئی نہرو کی
بلے بلے بھئی، جھوٹے نعرے اندرا تیرے
روح کی دیوار پہ لکھنے ناں دیں گے
بھئی جھوٹے نعرے”

بلکہ اندرا کی موت پر نظم بھی لکھی

” بے دخلی کے لیے بنے پتر”
” میں نے عمر بھر اسکے خلاف سوچا اور لکھا
اگر اسکے سوگ میں پورا ملک شامل ہے
تو میرا نام اس میں سے مٹا ڈالو
میں خوب جانتا ہوں نیلے ساگروں تک پھیلے
کھیتوں، کھلیانوں اور بھٹیوں کے بھارت کو
وہ ٹھیک اسی کا معمولی سا اک کونا تھا
جہاں پہلی بار
کسی مزدور کا تھپڑ رک گیا
کسی کے کھردرے بے نام ہاتھوں میں
ٹھیک وہی وقت تھا
جب اس قتل کی سازش رچی گئی
کوئی بھی پولیس تلاش نہیں کرسکتی
اس سازش کی جگہ
کیونکہ ٹیوب لائٹس صرف دارالحکومت میں جلتی ہیں
اور کھیتوں، کھلیانوں اور بھٹیوں کا بھارت بہت تاریک ہے
ٹھیک اسی سرد اندھیرے میں ہوش سنبھالنے پر
جینے کے ساتھ
جب پہلی بار اس جیون کے بارے سوچنا شروع کیا
میں نے خود کو اس قتل کی سازش میں شریک پایا
میں نے سدا ہی اسکو قتل کیا ہے
ہر جاننے والے کے سینے سے تلاش کر
اگر اسکے قاتلوں کو یونہی سڑکوں پہ مارنا ہے
تو میرے حصے کی سزا مجھے بھی دو
میں نہیں چاہتا کہ صرف اس بنا پر بچ جاؤں
کہ میرا پتا نہیں “بھجن لال بشنوئی” کو
اسکا جو بھی نام ہے، غنڈوں کی سلطنت کا
میں اسکا باشندہ ہونے پہ تھوکتا ہوں
میں اس پائلٹ کی
مکار آنکھوں میں کھٹکتا بھارت ہوں
ہاں، میں بھارت ہوں کھٹکتا ہوا اسکی آنکھوں میں
اگر اسکا کوئی اپنا خاندانی بھارت ہے
تو میرا نام اس میں سے مٹا ڈالو”

1981 میں پاش ہاں ایک بیٹی ونکل نے جنم لیا،  جولائی 1986 میں پاش امریکہ چلا گیا، امریکہ سے اس نے اینٹی 47 فرنٹ کا رسالہ نکالا جسکا مقصد یہ تھا کہ جس طرح 1947 میں مذہبی بنیادوں پر ملک کی تقسیم اور فرقہ وارانہ فسادات ہوئے دوبارہ ہونے والی کسی بھی ایسی کوشش کی مخالفت کی جائے، جس میں سر فہرست خالصتانی تحریک تھی
کچھ ماہ بعد ہی پاش ہندوستان واپس آ گیا، 23 مارچ 1988 کو بھگت سنگھ کی پھانسی والے دن ہی پاش اپنے دوست ہنس راج کے ساتھ اپنے گاوں سے باہر کنویں پر بیٹھا تھا کہ خالصتانی دہشت گردوں نے حملہ کر کے دونوں کو قتل کر دیا، خالصتان کمانڈو فورس کے کمانڈر “لاب سنگھ” اور کئی دوسرے کمانڈروں نے پاش کے قتل کی ذمہ داری قبول کی جس پر  بعد میں  افسوس بھی ظاہر کیا کہ ہم سے غلطی ہوئی تھی ، خالصتان کا عروج ٹوٹنے کے بعد جب ان پہ تنقید کی گئی کہ انہوں نے تو قلمکاروں کو بھی نہیں بخشا، تو ایک دو حلقے پاش کے قتل سے بچنے کی کوشش بھی کرتے پائے گئے حالانکہ کے خالصتانی دہشت گردوں کے ہاتھ اور بھی بڑے بڑے قلمکاروں کے خون سے رنگے تھے،
قاتلوں کی یہ سوچ تھی کہ قتل کرنے سے پاش کی آواز دب جائے گی لیکن انہیں اندازہ نہیں تھا کہ بھلا روشنی کا قتل بھی کبھی ممکن ہوا ہے وہ تو اندھیرے کی شدت سے اور بھی بڑھتی ہے
“گھاس”
میں گھاس ہوں
میں تمہارے ہر کئے کرائے پر اُگ آوں گا
بم پھینک دو چاہے وشو ودیالے پر
بنا دو ہاسٹل کو ملبے کا ڈھیر
سہاگہ پھیرا دو بھلے ہمارے جھونپڑیوں پر
میرا کیا کرو گے
میں تو گھاس ہوں ہر چیز پر اگ آوں گا
بنگے کو ڈھیر کر دو      (بھگت سنگھ کا گاوں)
سنگرور مٹا ڈالو     (اُدھم سنگھ کا شہر)
دھول میں ملا دو لدھیانہ ضلع
میری ہریالی اپنا کام کرے گی
دو سال، دس سال بعد
سواریاں پھر کسی کنڈکٹر سے پوچھیں گی
یہ کونسی جگہ ہے
مجھے برنالہ اتار دینا
جہاں ہرے گھاس کا جنگل ہے
میں گھاس ہوں، اپنا کام کروں گا
میں تمہارے ہر کئے کرائے پر اُگ آؤں گا”
پاش نے جدید پنجابی شاعری کو اک نیا رخ دیا، اسکی نظمیں مزدور، چھوٹے کسان اور عام آدمی کی خواہشوں اور نا امیدی کو آشکار کرتی ہیں وہ آج بھی ہر اس انسان کے دل میں موجود ہے جو کہیں ناں کہیں سرکاری، غیر سرکاری یا مذہبی شدت پسندی کی چکی میں پستا ہے، اس نے کچھ رومانوی نظمیں بھی لکھیں
“میں اب وداع لیتا ہوں”
“میری دوست میں اب وداع لیتا ہوں
میں نے اک نظم لکھنی چاہی تھی
جسے تم تا عمر پڑھتی رہ سکو
……… تم
تم یہ سب کچھ بھول جانا میری دوست
سوا اسکے
کہ مجھے بھی جینے کی بڑی خواہش تھی
میں گردن تک زندگی میں ڈوبنا چاہتا تھا
میرے حصے کا بھی جی لینا میری دوست
میرے بھی حصے کا جی لینا”
پاش کے لکھے ہوئے خطوط بھی اس کے اعلی پائے کے شاعر اور مفکر ہونے کا ثبوت دیتے ہیں، جن میں وہ اپنے دوستوں، ناقدین سے نجی گفتگو ہی نہیں اس وقت کے سیاسی مسائل، عدم برداشت، طبقاتی تقسیم، فرقہ واریت، اپنے اردگرد کے حالات و واقعات، عالمی سیاست اور ادب پر گفتگو کرتا نظر آتا ہے
پاش نے شاعری کو ملکی سطح سے آگے لے جا کر دوسرے ممالک بھی ظلم کے خلاف جنگ کرنے والوں کے حق میں لکھا جن میں پاکستان کے مشہور پنجابی لکھاری و ریسرچر احمد سلیم کے نام بھی اک لمبی  نظم شامل ہے
“احمد سلیم دے ناں”
اے قلم کے مزدور، اے میرے احمد سلیم
چوم کر سلاخیں، میرے نئے بنے رشتے کے ویر
میں بھی ہوں جیلوں کا شاعر، میرا بھی ہیں عشق لوگ
تمہیں پوچھتے ہیں پنڈی کے، مجھے دلی کے تیر”
اس نے” سری لنکا کے انقلابیوں کے نام ” اک نظم لکھی، کیوبا و چی گویرا کا بھی ذکر کیا اور اک نظم “یورپی لوگوں کے نام” سے بھی لکھیں،
پاش  نے جارج مینگاکف،  پابلو نرودا ، رضابرہیلی اور کارل سینڈبرگ کی چار نظموں کو پنجابی میں ترجمہ کر کے لکھا ـ
پاش عشقیہ اور دکھی شاعری پر معترض نظر آتا ہے وہ عشقیہ شاعری کے حق میں نہیں تھا ایسے حالات میں جب آپ کے اردگرد آپ کے عشق سے بڑے مسائل موجود ہیں تو ایسی شاعری جس میں کسی کی بھلائی کی بات نہیں کی جاتی فضول ہے، شو کمار بٹالوی کی اک نظم “کنڈیالی تھوہر” بہت مشہور ہوئی اس کو نام لے کر تنقید کا نشانہ بنایا
“کھلی چٹھی”
معشوقہ کو خط لکھنے والو
اگر تمہاری قلم کی نوک بانجھ ہے
تو کاغذوں کی توہین مت کرو
تاروں کی طرف دیکھ کر انقلاب کی باتیں کرنے والو
انقلاب آیا تو تمہیں بھی تارے دکھائے گا
یا…………
آج وارث شاہ کی لاش
“کنڈیالی تھوہر” بن کر
سماج کے جسم پر اگ آئی ہے
اس سے کہو
یہ عہد وارث شاہ کا عہد نہیں
یہ ویت نام کا عہد ہے
ہر کھیڑے کے حق کی جنگ کا عہد ہے”
شو اور دوسرے رومانوی شعراء کی شاعری پہ وہ کہتا تھا کہ یہ شاعری جلد ختم ہو جائے گی کیونکہ انکی شاعری عورت کے مسائل اور مرد اور عورت کے تعلق پر ہے تو جب زمانہ بدلے گا لوگوں میں شعور آئے یہ مسائل اور رکاوٹیں ہٹ جائیں گی تو یہ شاعری بھی لوگ بھول جائیں گے”چڑیاں دا چمبہ” پنجاب کا اک قدیم لوک گیت ہے جسے شو نے بھی  استعمال کیا، پاش اسکے بالکل الٹ کہتا ہے
“چڑیاں دا چمبہ”
اڑ کر کہیں نہیں جائے گا
یہیں کہیں پگڈنڈیوں سے گھاس کاٹے گا
کچی پکی روٹیاں لایا لے جایا کرے گا
اور میلا دوپٹہ بھگو کر
لو سے جُھلسے ہوئے چہرے پہ پھیرا کرے گا
چڑیوں کا چمبہ کہیں نہیں جائے گا
یہیں کہیں لک چھپ کر رویا کرے گا
اور اپنی جوانی کے جوبن کے مرثیے گایا کرے گا
…. “اس نے اردو، ہندی اور انگریزی کے بے مقصد شاعری کرنے والے شعرا پر بھی تنقید کی اپنی نظم “شبد، کلا،کویتا” میں کہتا ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

” ٹیگور یا غالب کی داڑھی میں
لفظ کویتا نہیں ہوتے
تنکا ہوتے ہیں
اگر تمہیں بہت مان ہے
اپنے فن، اپنے فلسفے پہ
تو کھولو سنہری جلدوں والے دیوان
اور بتاو
تمہارے شیکسپیئر نے
زندگی کے قہقہے میں
موت کے لطیفے کا
کیا مقام بتایا ہے؟
تمہارے بیتھوون نے
ماں بہن کی گالیوں کا کیا مطلب بتایا ہے؟
محبوب کی چھاتی کے گیت گانے والوں نے
ماں کے دودھ
اور دودھ کی لاج کا کیا گیت لکھا ہے؟ ”
1989 میں پاش کے مرنے کے بعد اس کے کچھ رہ جانے والے اور بکھرے ہوئے کلام کو اکٹھا کر کے اس کی چوتھی کتاب “بکھرے ہوئے ورق” کی شکل میں شائع کیا گیا
جس میں اسکی مشہور نظم ” سب سے خطرناک” کے علاوہ “خواب”، “تو اسطرح کیوں نہیں بن جاتی”، ” ہمارے لہو کو عادت ہے”، “حکومت تری تلوار کا قد”، “میں سلام کرتا ہوں جیسی بے مثال نظمیں شامل تھیں
” ہمارے لہو کو عادت ہے ”
موسم نہیں دیکھتا، محفل نہیں دیکھتا
زندگی کے جشن شروع کر دیتا ہے
سولی کے گیت چھیڑ دیتا ہے
شبد ہیں کہ پتھر پر بہہ بہہ کر گھِس جاتے ہیں
لہو ہے کہ تب بھی گاتا ہے
ذرا سوچو کہ روٹھی سرد راتوں کو کون منائے
آدھے پلوں کو ہتھیلیوں پر کون کھیلائے
لہو ہے جو ہر بار دھاروں کے ہونٹ چومتا ہے
لہو تاریخ کی دیوار کو پھلانگ جاتا ہے
یہ جشن، یہ گیت کسی کو بہت ہے
جو کل رات ہمارے لہو کے خاموش دریا میں
تیرنے کی مشق کرتے ہیں ”
گُڑ کھانے، فلمیں دیکھنے اور دوستوں کے ساتھ محفلیں کرنے والا پاش اپنی ذاتی زندگی میں بے حد پیار کرنے والا شخص تھا، جس سے کسی کا بھی دکھ برداشت نہیں ہوتا تھا
اسکے گاوں “تلونڈی سلیم”میں اسکے پیدائش کے دن 9 ستمبر کو اک جلسہ ہوتا ہے جس میں اس کی شاعری اور ادبی کام پہ روشنی ڈالی جاتی ہے جبکہ اسکے قتل کے دن 23 مارچ  کو پنجاب کے مختلف مقامات پر جلسہ کیا جاتا ہے جس میں اسکی سیاسی سوچ پر سوچ بچار کی جاتی ہے
2013 میں اسکے والد سردار سوہن سنگھ نے پاش کے اپنے دوستوں، ناقدین اور دوسرے ہم عصر لکھاریوں کو لکھے گئے خطوط، اور مختلف رسائل سے اسکا کچھ غیر مطبوعہ کلام مزید تلاش کر “مجھے تلونڈی سلیم جانا ہے” کہ نام سے اک کتاب شائع کی ہے جس میں پاش کہ کچھ آرٹیکلز بھی شامل ہیں
آخر پہ پاش کی اک غزل
“دہکتے انگاروں پہ”
دہکتے انگاروں پہ سوتے رہے ہیں لوگ
اسطرح بھی رات کو روشناتے رہے ہیں لوگ
ناں قتل ہوئے، اور ناں ہونگے عشق کے یہ گیت
موت کی چوکھٹ پہ بیٹھ، گاتے رہے ہیں لوگ
غلط فہمی ہے اندھیروں کو، اندھیرا کرنے کی
اندھیروں کو، ختم بھی کرتے رہے ہیں لوگ
زندگی کا جب کبھی، اپمان کیا ہے کسی نے
موت بن کر موت کی، آتے رہے ہیں لوگ
توڑ کر مجبوریوں کی، زنجیر کو درمیاں سے
ظلم کی گردن میں زنجیر، ڈالتے رہے ہیں لوگ “۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply