عالی جاہ!مجھے نہ کر وداع۔۔۔۔۔ستیہ پال آنند

(اس برس میں نے آخری دو کورس بھی جو آن لائن پڑھا رہا تھا، ترک کر دیے۔۔۔۔۔ جامعات کی سطح پر درس و تدریس میں 65 برس پورے ہوئے۔ کیا کھویا ، کیا پایا میں نے اس عرصے میں ،اس پر میرا حلفیہ بیان)
اس نظم کا فارمیٹ ن م راشد کی نظم کا مرہون منت ہے

مجھے نہ کر وداع
مجھے نہ کر وداع پھر
کہ اس سے پیشتر بھی میں
اناتھ، ناتواں، یتیم طفل
اپنے آپ ہی
تمہاری انگلی چھوڑ کر
بچھڑ گیا تھا رونق ِ حیات کی فروش گاہ ِ علم میں ٰ؎
میں بے خبر
اکھڑ گیا تھا سر بسر
نہ چاہتے ہوئے بھی میں
بھٹک گیا تھا
علم و فن کی جامعات کی اندھیری کھوہ میں
نکل پڑا تھا
ہفت خواں مفکروں کے قافلوں کی ٹوہ میں
میں بے ریا تھا
بات کا کھرا، مگر
مجھے وداع کر کے، مجھ کو
علم کی فسوں گری کی بھٹیوں میں جھونک کر
مری اُٹھان روک دی
مجھے نحیف کر دیا
طبیعی سِن سے پیشتر
مجھے ضعیف کر دیا!

مجھے نہ کر وداع پھر
کہ سر بہت کھپا چکا
دماغ اپنا کھا چکا
ادب کی درس گاہوں کے
قدیم مرگھٹوں میں لاکھوں بار پہلے جل چکی
پرانی میّتوں کے ساتھ
میں بھی اپنا جسم و جاں جلا چکا
مجھے نہ کر وداع!

مجھے نہ کر وداع پھر
کہ چاہتا ہوں اپنی رہتی عمر تک
میں تم سے منسلک رہوں
تمہارے ساتھ رہ کے میں بھی سُن سکوں
جو ’بے صدائی‘
’آنسوؤں کے آئینوں‘ کے آب میں اسیر ہے
جو ’حرف زیر ِ لب‘سی مست اَلست ہے
جو ’دست و پا کی نارسائی‘
عام آدمی کی زندگی کی چیز بست ہے
’سلام ِ روستائی‘ جو پِسے ہوئے ، دبے ہوئے
عوام کے جنم جنم کے دُکھ کی باز گشت ہے!

مجھے نہ کر وداع پھر
کہ ’حرف زیر ِ لب سا‘ میں
دبا دبا، رُکا رُکا
زباں کی بے صدائیوں کے گوش و ہوش کھو چھکا
میں بار بار، بار بار، بار بار رو چکا
مری زبان گُنگ ہے
سماع پردہ گوش ہے
کہ چھند، گائیکی، بھجن
غزل، سلام، مرثیہ
درود، حمد و نعت
مجھ سے ثقل گوش کے لیے
صدا و صوت کی نفی
اصم برائے ہوش ہے!

مجھے نہ کر وداع پھر
’شجر حجر ‘، وہ جانور، وہ طائران ِ خستہ پر
جو میرے حلفیہ بیان کے لیے
کھڑے ہیں نیچے باغ میں
میں کیا مکالمہ کروں گا اُن سے، میری ذات، بول
کہ مجھ سے تو سماع و صوت چھِن گئے
میں ’شہر ِ ہست‘ کی گلی میں
’نیستی کی گرد کی قبا میں سے سے پاؤں تک
ڈھکا ہوا
مدام اپنا سر چھکائے
ملزموں سا صم بکم کھڑا ہوا
مجسمّہ ہوں سنگ کا
سماع ہوں نہ صوت ہوں
تواتر ِ حیات میں ہوں منجمد
نہ زندگی، نہ موت ہوں!

مجھے نہ کر وداع پھر
کہ یہ مکالمہ توعدلیہ کے بینچ و بار پر ڈٹے ہوئے
حکومتوں کی انتظامیہ میں حکمتوں کے پختہ کار
ٓآمروں کے حکم ِ خویش کا مطیع ہے
ذرا سمجھ یہ، ذات ِ من
کہ من وعن
مرا کمال صرف شعر و شاعری کے داؤ  گھات
کرتبوں کے فن کی ساحری نہ تھی
مرا ہنر نہیں تھا
بیچنا دکان ِ علم میں ؎ٰ
پرائی عقل و فہم مہنگے نرخ پر!
مجھے تو نیچے ’ہال‘ میں
جو لوگ ہیں
انہی کے ساتھ
ہاتھ ہاتھ میں دیے
عَلم اٹھائے بڑھتے رہنا چاہیے تھا
آمروں کے سنگ گوش
عدلیوں، حکومتوں کی اونچی بلڈنگوں
کے پھاٹکوں تلک!

مجھے نہ کر وداع پھر
کہ ایک بار مجھ کو خود سے دور کر کے
تم نے، میری ذات، مجھ کو
جامعات کی غلام گردشوں میں
ایک چوکیدار سا
’ہمیشہ جاگتے رہو‘ ۲؎کے نا شنیدہ ورد پر لگا دیا
مجھے سبق پڑھا دیا
کہ سحر کار ِ بے نشاں
(جو شرق کا خدا نہ تھا!)
وہ خالق ِ جہاں
جو لازماں ارب کھرب برس
فضول، بے ثمر حیاتِ خام جی چکا تھا۔۔۔۔
آج اپنی موت مر گیا!
کہ ’در رسالتوں ‘ کے بند ہو گئے
کہ ’مشرقی افق پہ عارفوں کے خواب‘
اپنے بے نمود بیج بو گئے
کہ ’شاعران ِ نو‘ ۔۔۔ ’رسالتوں کا بار‘
اپنے ناتواں ، نحیف کندوں پر لیے ہوئے
تھکے تھکے، قضا کی نیند سو گئے!
مجھے نہ کر وداع!

سمجھ تو، میری ذات، میری بات سُن
یہ درس درس ِ حق نہ تھا
خدا کی موت کب ہوئی؟
’شجر شجر، وہ جانور، وہ طائران ِ خستہ پر
عباد ِ آب و گل بشر‘
وباؤ ں کا شکار، بھُکمری کی مار سے تباہ
یہ بشر
کہ جن کی خستگی کا مستقل سبب
دیار ِ غرب کے خداؤ ں کی ہوس تو تھی، مگر
یہ خستہ حال لوگ خود تو گہری نیند سو گئے
اور اپنے سربراہ آمروں کے ظلم کا شکار ہو گئے
وہ سر براہ شرق کے
جنہیں کبھی عوام نے الیکشنوں میں اختیار ِ کل دیا
کبھی یہ مطلق العنان
اپنی عسکری کے زور و زعم میں
دیار شرق کی زمیں لتاڑتے پھرے
بلا دریغ سالہا تلک!
بہت غلط خیال تھا
کہ زرق و غرب کی حدود
ٹین کی سلیٹ پر
کھنچی لکیر سی مٹیں کی جلد یا بدیر
آخرش !

میں بوچھتا ہوں، ذاتِ من
خدا کو کیوں برا کہیں
یہ سوچ کر کہ اس نے اہلِ غرب کو
عنانِ کل کا اختیار دے دیا
یہ فرض کیوں کریں
کہ نیتشے کی بات عین حسبِ حال تھی ؎۳
دیار ِ شرق کی رفاہ جس کا مدّعا نہ تھا

مجھے نہ کر وداع
کہ میں تو، میری ذاتِ خاص
منکرِ مسیح تھا
وہ پطرسِ خدا شناس
اس گھمنڈ میں کہ خود کفیل و خود شناس تھا
مچل گیا
رفاہِ خود کے چکنے چُپڑے وعدوں پر پھسل گیا
یہ منقسم، یہ نا تمام
قطع دائرہ سا جزو
لخت لخت، بخت بخت ٹوٹ کر
صلیب اپنی اُلٹے رُخ اُٹھائے
صراطِ مستقیم پر رُکا رہا
کھڑا کھڑا جھکا رہا

Advertisements
julia rana solicitors london

مجھے اٹھا
مجھے گلے لگا
نہ کر وداع، میری ذات آج
الٹے رُخ کی یہ صلیب
میں نے اپنے کندھوں سے اتاردی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کل کی بات چیت کے سلسلے میں ۔۔۔ دیکھیں۔
دِیباچَہ {دی + با + چَہ} (فارسی)

دِیبا، دِیباچَہ

فارسی زبان سے اسم جامد دیبا کے ساتھ چہ بطور لاحقۂ تصغیر لگایا گیا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے 1791ء کو “ریاض العارفین” میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ (مذکر – واحد)

واحد غیر ندائی: دِیباچے {دی + با + چے}

جمع: دِیباچے {دی + با + چے}

جمع غیر ندائی: دِیباچوں {دی + با + چوں (و مجہول)}

معانی

1.وہ تحریر جو کسی کتاب کے شروع میں ہو اور جس میں نفس مضمون وغیرہ سے متعلق یا دوسری ضروری باتیں بطور تعارف کتاب کے لکھی گئی ہوں۔ مترادف مقدمۂ کتاب، پیش لفظ، تعارف، تمہید۔

“کتاب کسی تعارف، دیباچہ یا عرض ناشر کے بغیر چھپ رہی تھی۔” ( 1981ء، اکیلے سفر کا اکیلا مسافر، 9 )

دیوان کے شروع میں مصنف کا خود تحریر کردہ اشعار کا وہ مجموعہ جو حمد، نعت، مدح یا سبب تالیف وغیرہ پر مشتمل۔

؎ پس از ختم سرِ دیباچہ حمد خداوندی

مخاطب ہو کے اہل بزم کو یہ بات سمجھائی ( 1935ء، عزیز لکھنوی، صحیفہ ولا، 88 )

زمانہ قدیم میں کتابوں کے سرورق کی زیبائش: سرورق پر اس کی خوبصورتی کے لیے بنائے گئے بیل بوٹے وغیرہ۔

“دیباچہ، اس زمانے کی یاد کراتا ہے جب کتابوں کے سرورق رنگا رنگ کی گلکاریوں سے مزین کئے جاتے ہیں۔” ( 1923ء، سرگزشت الفاظ، 165 )

2. کسی چیز کا پہلا اور لازمی جزو، کسی چیز کے لیے پہلی شرط۔

؎ حلم بن نیں ہے عمل کو برتری

حلم ہے دیباچۂ پیغمبری، ( 1791ء، ریاض العارفین، 50 )

3. کسی چیز کا ابتدائی حصہ، ابتدائی دور، پہلا زینہ، تمہید۔

“مہدی کی کامیابی کا حال، جو ان کی ترقی مقصود کا مبارک دیباچہ ہے تم کو معلوم ہوا ہو گا۔”، ( 1914ء، شبلی، مکاتیب، 94:1 )

4. پیش خیمہ، کسی چیز کے ظہور کی علامت۔

“پاکستان ان کے (لطیف اثر) لیے نئے امکانات اور فتوحات کا دیباچہ اور دریچہ بنا۔”، ( 1983ء، حصارِانا، 21 )

5. { مجازا } سب سے پہلا شخص، سب سے پہلی چیز۔

؎ نبی موعود ہے دیباچہ سب مولود میانے

سو ہے نو روز عیداں میں انند لیے سروری کا، ( 1611ء، قلی قطب شاہ، کلیات، 11:3 )

انگریزی ترجمہ

frontispiece (of a book); preface, exorcism, introduction, preamble

مترادفات

اِفْتِتاحِیَہ، تَقْدِیم، مُقَدَّمَہ، عُنْوان، پیش لَفْظ،

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply