• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • دانتے – ڈیوائن کامیڈی، ڈیوائن عشق، ڈیوائن ‘غیر جانبداری’/احمر نعمان سیّد

دانتے – ڈیوائن کامیڈی، ڈیوائن عشق، ڈیوائن ‘غیر جانبداری’/احمر نعمان سیّد

دانتے کی پیدائیش 1265ء میں فلورنس(اٹلی) میں ہوئی۔ ۹ سال کی عمر میں اس نے ۹ برس کی بیاٹرس (جسے بیاترچے بھی اردو دان لکھتے ہیں) Beatrice کو دیکھا اور پسند کیا، ۹ برس بعد ۱۸ برس کی عمر میں دانتے نے دوبارہ دیکھا اور عاشق ہو گیا۔ ۹ کا ہندسہ یوں بھی کیتھولک کلچر میں اہمیت رکھتا ہے، جیسے کیتھولک آسمان سمیت،تصورات ۹ پر قائم ہیں،دانتے ۳ (تثلیث) اور ۹ پر ایمان رکھتا تھا،اس کے لٹریچر میں کافی جگہوں پر آتا ہے۔ اب وہ بیاٹریس پرنظمیں کہنے لگا مگر کسی دوسری خاتون کا نام استعمال کرتا، ایکبار لکھا کہ کسی شادی کی تقریب میں بیاٹرس سے سامنا ہوا تو رعبِ حسن سے بدن پر رعشہ طاری ہو گیا؛ بیاٹرس نے خود بھی دیگر خواتین کی طرح اس کا مذاق اڑایا جس پر دانتے نے اس کے نام ایک نظم کہی جس کا مفہوم یہی تھا (تم بھی اوروں کے ساتھ مل کر مذاق اڑاتی ہو، یہ نہیں جانتی کہ اس حالت کی وجہ تم ہو)۔
شومئی قسمت، دانتے کی محبوبہ کا ۱۲۹۰ کے نویں ماہ، محض پچیس برس کی عمر میں انتقال ہو گیا،دانتے نے اس کے بعد فلسفہ اور شاعری میں پناہ لی۔ ایک کتاب لکھی؛ “نئی زندگی”.(Vita Nuova/ New Life) کہا کہ میں بیاٹرس پر وہ لکھوں گا جو دنیا کی تاریخ کی کسی عورت پر نہیں لکھا گیا۔
۱۲۹۸ میں دانتے نے فلورنس کی سیاست میں قدم رکھا۔ ۱۳۰۰ میں دانتے نے اپنے شاہکار پر کام شروع کیا،۱۳۰۱ تک وہ مجسٹریٹ بن چکا تھا کچھ عرصہ بعد مخالفین اقتدارمیں آئے  تو دانتے پر بھاری جرمانے عائد ہوئے، عدم ادائیگی پر جلاوطنی کا سامنا کرنا پڑا۔ اپنی وفات ۱۳۲۱ تک جلاوطن ہی رہا، یہ جلاوطنی فلورنس نے سرکاری طور پر سات سو برس بعد ۲۰۰۸ میں ختم کی۔ خیر دانتے کی نظم ۲۰، ۲۱ سالوں پر محیط ہے۔
دانتے کی اس نظم کا اصل عنوان تھا
The Comedy of Dante Alighieri, a Florentine by birth, not character
یہ تین حصوں پر مشتمل ہے؛ جہنم ، اعراف اور بہشت inferno, purgatorio, paradiso۔ موضوع بظاہر موت کے بعد کے حالات ہیں، مگر اس میں عشق، آزادی سے عدل، فریڈم آف چوائس سمیت ہر قسم کا فلسفہ اور تاریخی کردار گھومتے نظر آتے ہیں۔
کرافٹ اور فن کے اعتبار سے یہ ادبی عجوبہ ہے، پانچ سو صفحات پہ پھیلی طویل نظم، ۱۰۰ حصوں اور چونتیسcantos میں تقسیم ہے۔ عروضی اعتبار سے یہ دانتے ہی کی اختراع ہے، تین مصرعوں کے بند Stanza ہیں، ہر بند کا پہلا اور تیسرا مصرع ہم قافیہ ہے۔ انگریزی عروض Prosody میں دانتے کے اکثر متاثرین نے استعمال کیا، متاثرین جیسے ملٹن، لارڈ بائرن، ٹامس ہارڈی، شیلے، ایلیٹ اور رابرٹ فراسٹ جیسے عظیم شعرا نے اسے استعمال کیا، اس عروضی انداز کو Prosody میں Terza rima کہا جاتا ہے جیسے (aba bcb cdc) انداز میں لکھتے ہیں۔ حرف روی جیسے پہلے میں a اور a کا قافیہ بنا، دوسرے میں b اور تیسرے میں c۔
یہ دو دہائیوں میں لکھی نظم گڈ فرائڈے کی پچھلی شام سے ایسٹر ویکینڈ تک (جی ہاں صرف ایک ہفتہ) کے سفر پر مشتمل ہے۔ مگر اس لافانی نظم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کائیات کی تاریخ ہے؛ نفس مضمون نیا نہیں، تمام مذاہب میں یہی تصورات تھے، جنت، جہنم اور برزخ یا اعراف۔ ہرمز نے جہنم کا سفر کیا تھا، ہندوؤں میں ایسے سفر کا تذکرہ ملتا ہے، آسمانوں کا ملتا جلتا سفر، زرتشت اور مجوسیوں کے ایک پیغمبر نے بھی کیا، اسکی تفصیلات واقعہ معراج سے کافی قریب ہیں۔ ابن عربی کی کتب جیسے الاسرارالالمقام السری یا فتوحات مکیہ میں ملتے جلتےجہنم، جنت کی کیفیات یا شیطان کی سرد جہنم کی سزا جیسے بیان ہیں۔ طربیہ کی پہلی کتاب، انفرنو یا جہنم کا آغاز کچھ یوں ہے؛ Midway through journey of life۔۔
زندگی کے وسط میں (تقریباً پینتیس برس کی عمر )میں شاعر خود کو تاریک جنگل میں پاتا ہے, معلوم نہیں کہ کیسے پہنچا یا بقول اسی کے مصرع کے، نیند سے بھرا کسی دن درست راستے سے بھٹکا محسوس کیا،تمثیل کہیں یا جو بھی، وہ چلتا جاتا ہے جہاں وادی کا اختتام ہے، اسے بھیڑیے اور عفریت نظر آتے ہیں، خود کو مرنے والا پاتا ہے، تو اسے کوئی دکھائی دیتا ہے جسے وہ مدد کے لیے پکارتا ہے، وہ پہلی صدی قبل مسیح کا عظیم رومی شاعر ورجل (کی روح) نکلتا ہے جس سے دانتے کو محبت تھی اور جس کے انداز کو دانتے نے اپنایا۔ (اسی طریقہ پر اقبال نے جاوید نامہ میں مولانا رومی کی روح کے ساتھ آسمانوں کا سفر کیا تھا۔)
خیر یہاں ورجل اسے کہتا ہے کہ تمہیں مشکل راستہ اپنانا ہو گا، اوپر جانےکے لیے نیچے سے ہو کرجانا ہو گا، جہاں مایوس اور تکلیف میں چیختی آتمائیں ملیں گی پھر تمہیں اچھے وقت کے انتظار والے ملیں گے، اس کے بعد اپنے سے بہتر روح کے حوالہ کر دوں گا۔ جیسے رومی کے بقول ایک جگہ جبرائیل کے پر جلتے تھے ،دانتے کو وہاں سے بیاٹرس کی روح (یا عشق حقیقی)نے پار لگانا ہے جو بہشت لے جائے گی۔ یہ وہی جو دانتے کا وعدہ تھا کہ اپنی محبت پہ وہ لکھوں گا جو رہتی دنیا تک امر رہے گا۔
دانتے نے ہی بلایا تھا، آغاز میں مان جاتا ہے، مگر پھر عقل راہ روک دیتی ہے، ورجل سے کہتا ہے کہ میں کوئی ہیرو نہیں، دو ہیروز کے نام لیتا ہے، ایک مذہبی ہیرو سینٹ پال اور دوسرا دلیر اینیئس ، جو ورجل ہی کی لکھی نظم میںٹرائے کا ہیرو تھا، یعنی میں نہ نیک نہ بہادر، میرے لیے تو حماقت ہے۔ یہاں دانتے بتاتا ہے؛
Man who unwills what he wills, changing his plans for every little thought…
ورجل اسے بزدلی کا طعنہ دیتا ہے کہ تمہارا مسئلہ بزدلی ہے جو کمزور سوچ سے آتی ہے اور نقصان دہ ہے۔ Unwilling what you willed.
پھر وہ بتاتا ہے کہ اس سے بیاٹریس کی روح نے التجا اوردانتے کی مدد کی درخواست کی تھی کہ وہ کھو چکا ہے،(یہ نقاد ڈیوائن عشق اور اسکی طاقت گنتے ہیں) اسے اس مشکل سے نکالناہے۔ دانتے رو دیتا ہے اور اسے اپنا رہبر و رہنما مان کر اس کے ہمراہ کٹھن راستے پر چل نکلتا ہے۔
پہلے وہ جہنم جاتے ہیں جہاں دروازہ پہ معروف فقرہ ہے؛
Abandon all hope you who enter in
یعنی یہاں (جہنم) میں داخلے کے لیے امید ترک کر دینی چاہیے، ورجل اسے کہتا ہے کہ یہاں اب شکوک و شبہات ترک کرنا ہوں اور بزدلی چھوڑ کر داخل ہونا ہے۔ سب سے پہلے اسے وہ لوگ ملتے ہیں جنہیں جنت تو ایک طرف،جہنم بھی اپنانے کو ہی تیار نہیں، مگر کیوں؟ یہ ہمارا تھیم ہے؛
یہ وہ بدنصیب تھے جنہوں نے عقل کا استعمال نہ کیا۔ تشکیک اپنائی کیونکہ یہ مشکلات اور تکلیف اٹھانے سے گھبراتے تھے، ان میں وہ بھی تھے جو خدا اور شیطان دونوں سے دورنیوٹرل و غیر جانبدار تھے۔
ان کی بزدلی نے انہیں حق و باطل میں سے کسی فریق کو چننے کی ہمت نہ دی، اپنی فری ول اور قوت ارادی کا استعمال نہ کیا۔ ان میں دانتے وہ دیکھتا ہے جنہوں نےشیطان اور خدا/فرشتوں کی لڑائی میں ‘غیر جانبداری’ دکھائی تھی، اپنے دور کے پاپائے روم کے پوپ Pope Celestine V بھی نظر آتے ہیں جنہوں نے کلیسا کی انتظامیہ کے دباؤ پہ حق پہ کھڑے رہنے کے بجائے بزدلی دکھاتے استعفی دے دیا۔ ٹام ہینکس کی، اینجلز اینڈ ڈیمنز میں شاید ان والے پوپ کا ذکر بھی تھا۔
دانتے کی یوں یاد آئی جب سنا نیوٹرل کون ہوتا ہے، پھر کل عثمان صاحب کا اسی وقت سٹیٹس دیکھا کہ غیر جانبدار مبصران کرام وکٹ کے دونوں جانب کھیل رہے ہیں۔ بہت اچھے بھئی، فیصلے خود لینے کی ہمت اور کیپیسٹی ہی نہیں مگر قوم کی فیصلہ سازی پر اثر انداز ہونے کے شوق ضرور ہیں۔ عقل کا استعمال کیے بغیر دانشور کہلانے کا خبط۔
ہماری آپکی عام زندگی میں بھی دیکھیں تو فیصلہ لے کر پیچھے ہٹ جانا، غیر جانبداری کے نام پہ بزدلی دکھانے والوں کو دانتے کی جہنم بھی نہیں اپناتی۔ فی زمانہ ہر دوسرا بندہ اپنی بزدلی کا جواز یا فیصلہ نہ لینے کی وجہ تشکیک بتا کر کے گویا بطور وصف بیان کرتا ہے، ناچیز رائے میں یہ بھی منفی رحجان ہے، فیصلہ لینا اور اس پر ڈٹے رہنا تو وصف ہوا، بزدلی، کنفیوژن اور indecision کیسے وصف ہوئے؟
جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply