کیا ڈاکٹر یاسمین راشد کی یہ پالیسی درست تھی کہ وائے ڈی اے کو تقسیم رکھا جائے اوراس کے نتیجے میں نوجوان ڈاکٹروں کی نمائندہ تنظیم ’کینچوا‘ بن کے رہ جائے کہ پی ٹی آئی کی رخصتی کے بعد جیسے ہی اس کا ’اتحاد‘ ہوا ہے ایک مرتبہ پھر ہڑتالیں شرو ع ہو گئی ہیں۔میں اپنی بات کے آغاز میں ہی چلڈرن ہسپتال کے ڈاکٹر سعد رفیق پر سندھ پولیس کے ایک اہلکار اور اس کے بدمعاش خاندان کی طرف سے بہیمانہ تشدد کی شدید مذمت کرتا ہوں مگر ایک ینگ ڈاکٹر کوپڑنے والی مار کو مالی مفادات کے حصول کے لئے استعمال کرنا کسی بھی حوالے سے درست نہیں۔ اس تشدد کے بعد آؤٹ ڈورز کو مسلسل بند رکھا جا رہا ہے اور بظاہر مطالبہ سیکورٹی ایکٹ کی تشکیل کا ہے مگر آپ وائے ڈی اے کے کسی رہنما سے گفتگو کر لیجئے، دوسرے مطالبات اسی طرح ساتھ ہیں جس طرح کسی شخص کا اونٹ گم ہوگیا تواس نے ڈھونڈتے ڈھونڈتے تنگ آ کے قسم کھا لی کہ اگر اس کا اونٹ مل گیا تو وہ ایک ہزار دینار مالیت کا اونٹ ایک دینار میں فروخت کردے گا، خوش قسمتی سے اونٹ واپس مل گیا تو اسے قسم ستانے لگی، سو اس نے اونٹ کے گلے کے ساتھ رسی سے ایک بلی باندھی اور اونٹ فروخت کے لئے بازار میں لے گیا۔ جو بھی اس سے قیمت پوچھتا، جواب دیتا ایک دینار مگر ساتھ میں بلی بھی خریدنی لازمی ہے جس کی قیمت نوسو ننانوے دینار ہے۔
میں نے وزیر صحت پنجاب پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم سے پوچھاکہ یہ ہسپتال کس طرح کھل سکتے ہیں۔ ان کے جواب سے پہلے میں بتا دوں کہ ڈاکٹر جاوید اکرم وائے ڈی اے کے لئے واقعی ایک شفیق او ر دانا باپ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میں نے ان کا جو کردار ینگ ڈاکٹرز کی فلاح و بہبود کے لئے بطور پرنسپل علامہ اقبال میڈیکل کالج یا بطور وائس چانسلر یو نیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز قریب سے دیکھا ہے وہ پاکستان کی میڈیکل ہسٹری میں ایک الگ باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ ڈاکٹر جاوید اکرم نے ہسپتال کے اندر پڑنے والی مار پر نہ صرف ایف آئی آر درج کروائی بلکہ حکومتی اثرورسوخ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس میں سیون اے ٹی اے یعنی دہشت گردی کا جرم بھی شامل کروا دیا۔ ہسپتالوں کی سکیورٹی کے قانون پر ان کا کہنا ہے کہ وہ نگران حکومت کے وزیر ہیں جن کے پاس قانون سازی کے اختیارات نہیں ہیں مگر وہ وائے ڈی اے کو کہتے ہیں کہ وہ جس صبح ہڑتال ختم کر دے وہ اسی صبح وفاقی حکومت کے پاس جانے کے لئے تیار ہیں تاکہ ہسپتالوں کی ملک بھر میں سیکورٹی کے لئے یکساں قانون سازی کی جا سکے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ اس پر ایک آرڈیننس بھی پنجاب کابینہ کے سامنے پیش کرنے کے لئے تیار ہیں مگروہ صرف ایک وزیر ہیں، پوری کابینہ نہیں سو اس کی منظوری کی گارنٹی نہیں دے سکتے۔ انہوں نے چلڈرن ہسپتال کا سکیورٹی آڈٹ بھی کروالیا ہے اور وہاں پر بہت سارے اقدامات بھی کر لئے ہیں مگر اس کے باوجود وائے ڈی اے اپنے احتجاج کو علامتی یا ایک آدھ گھنٹے پر محدود کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے اصل مقاصد کچھ اور ہیں جن میں کچھ سیٹوں کا اضافہ اور کچھ الاونسز بھی شامل ہیں۔ میں ایک بات پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں اور کوئی ینگ ڈاکٹر اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ اگر ان کا کوئی کام جاوید اکرم بطوروزیر صحت نہیں کرسکتے تو پھر ان کا وہ کام اس صوبے میں کوئی دوسرا شخص نہیں کرسکتا۔ مجھے اپنے ساتھ گفتگو میں ان کا ایک فقرہ یہاں کوٹ کرنے دیجئے کہ جس ملک میں کور کمانڈر ہاؤس بدمعاشوں اور بلوائیوں سے محفوظ نہ ہو اس ملک میں آپ ہسپتالوں کی عمارتوں، سامان اور عملے کے لئے سو فیصد سکیورٹی کی یقین دہانی چاہتے ہیں؟
مجھے پی آئی سی کے ڈاکٹر عرفان بتا رہے تھے، وہی ڈاکٹر عرفان جن کا پڑھا ہوا ایک شعر لائیرز کمیونٹی کے تن بدن میں آ گ لگا گیا تھا اوراس کمیونٹی نے تاریخ کی بدترین غلطی کر لی تھی، کہ ہسپتالوں کی سکیورٹی اور مینجمنٹ کا بڑا مسئلہ سکیورٹی اور جینیٹوریل سٹاف کی آؤٹ سورسنگ بھی ہے۔ مجھے یاد ہے ایک میٹنگ میں اس وقت کے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے یہ مثال دی تھی کہ جس طرح لاہور اسلام آباد موٹروے کے واش رومز صاف ہوتے ہیں اسی طرح ہسپتالوں میں بھی ہونا چاہئے مگر جینیٹوریل سٹاف کی آؤٹ سورسنگ نے بہت سارے مسائل پیدا کر دئیے ہیں۔ میں اس اجلاس میں بطور آبزرور موجود تھا، اب یہ سٹاف یہاں پر پانچ، پانچ سو روپے روزانہ پر بیڈ بیچتا ہے اور کیونکہ وہ ہسپتال کی ایڈمنسٹریشن میں نہیں سو اسے کسی تادیبی کارروائی کا ڈر بھی نہیں لہٰذا ہسپتال گندے ہیں اورعملہ دیہاڑیاں لگا رہا ہے۔ یہی معاملہ سیکورٹی سٹاف کا ہے۔ وہ بتار ہے تھے کہ ایک ایک سیکورٹی والا اپنے ساتھ پانچ، پانچ بندے لے آتا ہے جس میں سے کوئی وہاں چنے بیچ رہا ہوتا ہے اور کوئی دوسری غیر قانونی خدمات فراہم کر رہا ہوتا ہے۔ یہ اہلکار جن کی دیہاڑی صرف پانچ، سات سو روپے ہوتی ہے وہ روزانہ پانچ، سات ہزار روپے چھاپ کے لے جاتے ہیں۔ یہ صحت کارڈ کے نام پر مریضوں ورغلاتے ہیں اور طبی عملے کے خلاف بھڑکاتے ہیں۔ لواحقین کے پارکس میں بیٹھنے سے پارکنگ تک کے مسائل ان کی وجہ سے ہیں مگر کوئی انہیں کچھ کہہ نہیں سکتا۔ حکومت کو آوٹ سورسنگ کی اس پالیسی پر نظرثانی کرنی ہوگی کیونکہ اگر کسی سیکورٹی گارڈ یا جینیٹوریل سٹاف کی شکایت بھی ہوجائے اور وہ برطرف بھی کر دیا جائے تب بھی وہ ایسا چھوٹا موٹا مافیا بن چکا ہوتا ہے کہ وہ وردی یا بغیر وردی وہیں موجود رہتا ہے۔
میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ بھائیوں کی طرح محترم ڈاکٹر شبیر چودھری، ڈاکٹر اجمل چوہدری، ڈاکٹر شعیب خان نیازی، ڈاکٹر عاطف مجید، ڈاکٹر سلمان حسیب سمیت پوری وائے ڈی اے کی قیادت اس وقت انصاف سے کام نہیں لے رہی۔ ایک وقت تھا کہ وائے ڈی اے کی قیادت شہباز شریف کے مذاکرات میں مجھے گارنٹر بنانا چاہتی تھی اور اب ڈاکٹر جاوید اکرم نے کہا ہے کہ میں اس معاملے میں گارنٹر بن جاوں، میرا خیال ہے کہ میں ان کی کمیونٹی فرینڈ جرنلسٹ کے طور پر زیادہ بہتر بات کر سکتا ہوں اور کہنا صرف یہ ہے کہ ان کے مطالبات درست ہیں اور یہ بھی درست ہے کہ ان کی تکمیل میں برس ہا برس کی تاخیر ہوئی ہے مگر انہوں نے یہ ہڑتالیں اس وقت کیوں نہیں کیں جب یاسمین راشد جیسی سیاستدان ان کی وزیر تھی۔ انہوں نے ایک ہیلتھ کارڈ لانے اور ہسپتالوں میں ٹھیکیداری نظام لانے والی ڈاکٹر وزیر سے سیکورٹی کا بل منظور کروانے کے لئے ہسپتال کیوں بند نہیں کئے، اس وقت تالے کیوں نہیں لگائے جب کورونا میں ناقص حفاظتی لباسوں کی وجہ سے طبی عملے کی سب سے زیادہ شہادتیں ہو رہی تھیں۔ تب تو ایک پھسپھسا مظاہرہ کرتے تھے اور بھیگی بلی بن کے ڈیوٹی پر پہنچ جاتے تھے۔ جس طرح ڈاکٹرسعد رفیق پر تشدد کی حمایت نہیں کی جا سکتی اسی طرح او پی ڈیز پر خاموشی ضمیر کا قتل ہے۔ میں ینگ ڈاکٹروں کے اس ’احسان‘ کو ماننے کے لئے تیار نہیں کہ انہوں نے ایمرجنسی، ان ڈور اور آپریشن تھیٹر بند نہیں کئے۔ انہیں فوری طور پر ہسپتال کھولنے ہوں گے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں