• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • جو مختلف سوچتا ہے، اسے مار ڈالیے/ڈاکٹر ندیم عباس

جو مختلف سوچتا ہے، اسے مار ڈالیے/ڈاکٹر ندیم عباس

ہمارا خطہ عمومی طور پر پرامن لوگوں کی آماجگاہ رہا ہے۔ حد سے بڑھی ہوئی انسانیت دوستی نے دنیا بھر سے مختلف اقوام کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ یہاں بار بار حملہ آور ہوں اور خطے کے وسائل کو لوٹ کر چلتی بنیں۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ مقامی آبادی کی کثرت کے باوجود یہاں پر بڑی جنگجو ریاستیں معرض وجود میں نہ آئیں، جو ہندوستان سے چلیں اور ترکی تک کے علاقے فتح کر لیں یا چین کی طرف جائیں تو کامیابی کے جھنڈے گاڑیں۔ اس کی مختلف وجوہات رہی ہوں گی، مگر ایک وجہ یہاں کے لوگوں کا پرامن مزاج ہونا ہے۔ جب دنیا میں طاقت اور جنگ کا قانون حکمران ہو تو پرامن رہنا استعمار کو خود پر قبضے کی دعوت دینے جیسا ہوتا ہے۔ یہی یہاں بھی ہوا اور مسلسل ہو رہا ہے، ہمیشہ یلغار پر یلغار ہوتی رہی ہے۔ دنیا کو علم کی کئی بنیادیں فراہم کرنے والا یہ خطہ سوچنے، سمجھنے اور غور و فکر کرنے والے لوگوں کا مرکز رہا ہے۔

یہاں دنیا کے قدیم ترین مذاہب کی جڑیں ہیں اور جو بھی آیا، جس نے بھی دلیل سے بات کی، اس کی بات کو سنا، سمجھا گیا اور اگر لوگوں کو نئے نظریہ میں کشش محسوس ہوئی تو وہ اس کی طرف خود ہی کھنچے چلے گئے۔ تھوڑی سے توجہ کریں تو معلوم ہو جائے گا کہ طاقر کے مراکز دلی، حیدر آباد، لکھنو اور آگرہ رہے، مگر مسلم آبادیاں ان سے دور ہی ہیں، چاہے بنگال ہو یا کشمیر اور موجودہ پاکستان کے علاقے۔ یہ اس بات کے شاہد ہیں کہ یہاں سوچنے کی آزادی بہرحال دستیاب رہی ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے خطے میں اکثریت پسندی کی لہر آئی ہوئی ہے، یہ لہر عسکریت پسندی سے زیادہ خطرناک ہے۔ عسکریت پسند چند ہزار لوگوں کا گروہ ہوتا ہے، جسے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اکثریت پسندی وہ عفریت ہے، جس کے جن کو قابو میں نہیں لایا جاسکتا اور وہ ہر حال میں معاشرے کے کمزور اور تعداد میں کم گروہ کو کچلنے کے درپے ہوتا ہے۔

ہم ہندوستان میں دیکھیں تو وہاں اس پر بہت زیادہ بحث ہو رہی ہے کہ اس اکثریت پسندی کے نتیجے میں سینکڑوں سال پرانی مسجد کو گرایا جاتا ہے اور عدالتیں بھی اسی کے حق میں فیصلے دیتی ہیں، جج بھی اکثریت کی رائے ہی رکھتے ہیں۔ اگر غور کریں تو اکثریت پسندی دوسرے گروہوں کو معاشرے سے الگ کر دیتی ہے اور یہی سے کسی بھی کمیونٹی کی نسل کشی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ہندوستان کے مشہور مذہبی رہنماء ارشد مدنی صاحب سے ایک ٹی وی والا پوچھتا ہے کہ اذان کی آواز سے اکثریت کو تکلیف ہوتی ہے، وہ یہ نہیں سننا چاہتے، آپ کی عبادت ہے، آپ اسے مسجد کی چاردیواری میں کریں؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ اذان تو بڑی کام کی چیز ہے اور اس میں بڑے گیان کی باتیں ہیں۔ وہ پوچھتا ہے کہ اللہ اکبر کا کیا معنی ہے؟ اس پر وہ بتاتے ہیں کہ ہمارا اللہ سب سے بڑا ہے۔ اینکر پوچھتا ہے کہ کیا آپ کا اللہ ہمارے ہندووں کے سب سے بڑے خدا سے بھی بڑا ہے؟ مدنی صاحب خاموش ہو جاتے ہیں کہ اگر ہاں کہیں تو مسئلہ ہے، کیونکہ وہ اکثریت پسندی کے خلاف ہے اور اگر نہ کہیں تو مسئلہ ہے کہ بنیادی مسلم عقائد کے خلاف ہے۔

کافی لمبے عرصے سے یہ کوشش جاری ہے کہ صحابہ کرام کے نام پر ایک گروہ کی رائے کو قانونی شکل دے دی جائے۔ گالی گلوچ، توہین اور اہانت مسلمان کیا؟ کسی بھی مذہب کی مقدس شخصیات کی نہیں کرنی چاہیئے۔ ہر اخلاقی بات کو قانون کے دائرے میں لا کر عمر قید جیسی لمبی سزا، وہ بھی اس معاشرے میں جس میں لوگ توہین کے جھوٹے الزام لگا کر آگ لگا دیتے ہیں، کسی بھی طور پر ناقابل فہم ہے۔ لگ یوں رہا ہے کہ کسی کو پاکستان میں پھر سے فرقہ واریت کی ضرورت ہے اور وہ چاہتا ہے کہ یہاں سے ایک مکمل طور پر طے شدہ بات کو دوبارہ اٹھا کر آگ و خون کی ہولی کھیلے۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ مودودی کی جماعت اسلامی نے یہ کام کیا ہے، نہیں جناب مودودی صاحب کا اس جماعت اسلامی سے اتنا ہی تعلق ہے، جتنا مسلم لیگ سے قائد اعظم کا ہے۔ بقول پروفیسر ڈاکٹر طفیل ہاشمی صاحب کے، اس جماعت اسلامی کا کب سے انتقال ہوچکا ہے۔

سراج الحق کی جماعت کا یہ کارنامہ مولانا مودودی کو عدالتی کٹہرے میں کھڑا کرنے کے مترادف ہے۔ جماعت کے پرانے ہمدردوں اور پڑھنے لکھے ارکان کو سوچنا ہوگا کہ اگر اس قانون کی منظوری کے بعد مولانا مودودی پاکستان میں تشریف لائیں تو انہیں ناقابل ضمانت جرم میں پچیس سال کے لیے جیل جانا ہوگا۔ قانونی طور پر قرارداد مقاصد میں یہ بات طے کر دی گئی ہے کہ پاکستان کے ہر مسلک کی فقہ کی تعبیر و تشریح معتبر ہوگی، جو اس کے مذہب کے مطابق ہے۔ سزا کا یہ تصور جن کے ہاں فقہی جواز رکھتا ہے، ان پر شوق سے لاگو کریں۔ جو مسلک اس رائے کو درست نہیں سمھتا، اسے سرے اس کا انکار کرکے آئین کی روشنی میں اسلامی نظریاتی کونسل، شریعت کورٹ اور سپریم کورٹ رجوع کرنا چاہیئے۔

ویسے مجھے حیرانگی اس بات پر ہے کہ پاکستان کا قانون بنانے کا نظام انتہائی بوسیدہ اور سوچنے سمجھنے والے لوگوں سے عاری ہوچکا ہے کہ اس میں کوئی فلٹر نہیں، جو یہ دیکھے کہ جو قانون منظور ہو رہا ہے، اس کے نتائج کیا ہوں گے؟ جس کمیونٹی کو ٹارگٹ کرنے کے لیے یہ قانون بنایا جا رہا ہے، اس کمیونٹی کی رائے کیا ہے؟ یہ بہت ہی غلط رجحان ہے کہ مذہب کے نام پر جو کچھ قانونی تبدیلی آئے، اسے خود کو زیادہ پکا مسلمان ثابت کرنے کے لیے بڑھ چڑھ کر بغیر سوچے سمجھے قبول کر لیا جائے۔ یاد رکھیں نہ یہ مذہب کی تعلیم ہے اور نہ ہی مذہب کا یہ مطالبہ ہے کہ جن امور کو شریعت نے اخلاق پر چھوڑا ہے، ان پر سزائیں دی جائیں اور وہ بھی عمر قید جیسی سزا؟ کل روز محشر پرودگار یہ سوال کرے گا کہ شریعت میں نے نازل کی تھی اور میں نے اس میں جرائم کی سزائیں معین کر دی تھیں، تم نے کس بنیاد پر انسانوں کی آزادیاں چھین لیں اور انہیں دہائیوں پس زندان رکھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

یاد رکھیں اگر کبھی اس سرزمین پر آزادی سے سوچنے والوں کا دور آیا تو ہماری یہ قانون سازیاں ایسے ہی پڑھی جائیں گی، جیسے آج ہم سقراط پر لگے الزامات کو پڑھتے ہیں، ویسے آپ بھی یہ الزامات پڑھ لیں۔
1۔ یہ ہمارے نوجوانوں‌ کو گمراہ کر رہا ہے۔
2۔ یہ ہمارے دیوتاوں‌ کو نہیں مانتا۔
3۔ یہ ایک الگ خدا کا تصور پیش کرتا ہے، جسے کسی نے نہیں دیکھا۔
لگتا یہ ہے کہ ہر دور کے سقراطوں کو زہر کے پیالوں کے لیے تیار رہنا چاہیئے کہ جسے وہ حق سمجھتے ہیں اور جو وہ مختلف سوچتے ہیں، اس بڑے جرم کی سزا فقط اور فقط یہی ہے کہ اسے مار ڈالئے۔ مذہب کے ان خود ساختہ فرنچائز ہولڈرز سے یہی گزارش کروں گا کہ تمہارے ہاں عمر قید کی سزا کا کوئی تصور نہیں، تاریخی طور پر تم زہر کے پیالے پلاتے آئے اور آگ میں جلاتے آئے ہو، اسی پر عمل کرو اور اس بل کو دوبارہ ترمیم کرکے یہی سزائیں تجویز کرو۔ خدا تم سے اپنے دین کو محفوظ رکھے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply