یقین ۔۔مختار پارس

مذہب تو محبت، زہد، ہدایت اور بنیاد کا مخفف ہے۔ مذہب کا فلسفہ نہ سمجھنے والا بت پرست بن جاتا ہے۔ بت پرست کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ خدا سے زیادہ خود کو دیکھتا ہے۔ وہ خدا کو اپنے جیسا دیکھنا چاہتا ہے اس لیے وہ پہناوے اور دکھاوے میں خود کو  جکڑ لیتا ہے۔ اسے کوئی دوسرا پسند ہی نہیں آتا۔ ہر شخص اپنی آنکھوں کا قیدی ہے،اسے جو نظر آتا ہے، سمجھتا ہے کہ وہی خدا ہے۔ خدا ایسے کہاں نظر آتا ہے ! خدا تو یقین کو کہتے ہیں اور یقین ذرّے کو سورج میں بدل دیتا ہے۔

محبتوں کا دارومدار صرف یقین پر ہے،خود پر یقین ہو تو نرگسیت، کسی دوسرے پر ہو تو عقیدت اور خدا پر ہو تو عبادت۔ محلے کی مسجد سنگِ مرر کی ہو اور ساتھ ہی کسی دعویدارِ حقِ خدمت کی افسردہ کٹیا ہو تو اس مسجد میں ماتھے ٹیکنے کا کیا فائدہ؟ مسجد و مندر تو من کے اندر ہوتے ہیں جہاں گنبدِ خاطر میں محبت کی اذاں گونجتی ہے اور جہاں آوازِ جرس میں امید کی نقرئی گھنٹیاں بج اٹھتی ہیں۔ جس دل میں یہ یقین نہیں کہ وہ بھی ایک مسجدہے، وہاں کون آ کر جھاڑو دے گا۔ مسجدیں شان و شوکت سے آباد ہوتیں تو ان سلاطین کی سنگِ سرخ سے بنائی ہوئی عبادت گاہیں مرجعِ ہجومِ آوارگاں کی بجاۓ مرکزِ فکر و نظر ہوتیں۔ محبت کی مٹی کی باس محرابوں کی محتاج نہیں ہوتی۔ کسی دیہات میں کسی پرانے پیپل کے ساۓ میں بنی کچی مسجد میں جب کبھی کوئی مسافر آ کر ٹھہرتا ہے تو گاؤں کے ہر گھر سے اس کےلیے لسی روٹی آ جاتی ہے۔ پورے گاؤں کی نماز تو اس وقت ہی قبول ہو جاتی ہے۔ حجرِ اسود بھی وہیں رکھا ہے ناں جہاں کبھی عزیٰ اور ہبل گڑے تھے۔ میرے آقا نے اسے محبت سے نہ چوما ہوتا تو اس پر کون ہونٹ ثبت کرتا؟ یقین کی فتح جب ہوئی تو لاٹھی کے ایک ٹہوکے سے وہ لات و منات زمیں بوس ہو گئے ،یہ دلوں میں عاد و ثمود جیسی نفرتیں پھر کہاں سے عود کر آئی  ہیں؟ کہیں ہم نے محبت کے لباسوں کو تارتار کر کے اپنے محرابوں میں لات و منا ت دوبارہ تو ایستادہ نہیں کر دیے جن کے گرد ہم برہنہ وار طوافِ ملامت کر رہے ہیں؟ محبت کے بوسے پتھروں پر ثبت کرنے کو نہیں ہوتے،ان کی انسانوں کو زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔

حیاتِ عالم کا فریب ایسا ہے کہ اس نے ہم سے ہمارے لہجے اور ہمارے نطق سے ہمارے مطلب چھین لیے ہیں۔ جو سرور و گداز کسی کا دکھ بانٹنے میں ملتا ہے وہ تو شاید شب بیداری میں بھی نہیں۔ محبت کسی سے لپٹ جانے کا نام تو نہیں،یہ نہ محتاجِ قربت ہے اور نہ طالبِ التفات۔ کسی پر بوجھ نہ بننا بھی محبت ہے اور کسی کی محبت کا ناجائز فائدہ نہ اٹھانا بھی محبت ہے۔ یہ یقین کہ کسی دوسرے کی زندگی میں آسانی کیسے پیدا کرنا ہے، انسان کو اس کی اصل فطرت سے روشناس کراتا ہے۔ ابنِ آدم میں روح اس کو اشرف المخلوقات بنانے کےلیے پھونکی گئی تھی۔ جو شخص کسی کےیقین کو برباد کر دیتا ہے وہ کسی وجود، کسی ذات پر یقین نہیں رکھتا۔ خدا کا وجود تو گھر کے کسی اندھیرے کمرے میں باہر کی طرف کھلنے والی کھڑکی کی مانند ہے، کسی راہرو کو یہ حق کیسے حاصل ہو سکتا ہے کہ وہ کسی اور کے خانہء دل کی طرف سے کھلنے والے طاقچوں کو بند کر دے۔ وہ اگر اس کھڑکی کے سامنے سے ہٹ جاۓ تو یہ بھی محبت ہے۔

خدا کا نظام ہے کہ جب آفتیں آتی ہیں تو محبت کرنے والوں اور یقین نہ رکھنے والوں کے درمیان لکیر کھینچ دی جاتی ہے۔ یقیں نہ ہو تو وہ آفت خدا کا عذاب لگتی ہے۔ دل میں محبت ہو تو لگتا ہے کہ یہ بادِ سموم بھی کوئے  جاناں کی طرف سے آئی ہے۔ ہر شخص کی نظر اس کے گرد محیط دائرے تک محدودہے،اسے کیا خبر یہ درد ہے یا دوا۔ کسی وبا کا پھیلنا اس بات کا نقارہ نہیں کہ خدا بےبس ہو گئےہیں، خدا نے ہی ان عذابوں کو بھیجا ہے۔ وہ تمہاری گڑگڑا کر مانگی ہوئی دعاؤں کو کیسے سنے؟ بھول گئے کہ وبا سے پہلے تم خود کو خدا سمجھ بیٹھے تھے۔ خدا کے عذاب سے بچنے کی خاطر سجدوں میں گرے لوگ کنویں سے کسی ناپاک کو پانی پیتے ہوۓ دیکھ لیں تو اسے مار دیتے ہیں اور اس وقت نہ ان کا عرش ہلتا ہے اور نہ ان کے نیچے سے فرش پگھلتا ہے۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ پہلی قوموں پر عذاب آتا تھا تو وہ ‘ قردۃ” خاسعین” کیسے بن جاتے تھے؟ جب کوئی انسان کسی دوسرے انسان کواپنے سے کمتر دیکھ کر مارنے پر اتر آتا ہے تو وہ جانور بن جاتا ہے۔ کسی کو اتنا یقین نہ ہو کہ انسان کون ہے اور جانور کون ہے تو اور خدا کا عذاب کیا ہوتا ہے۔ پھر نمرود کےلیے مچھر کو بھیجا جاتا ہے اور ابرہہ کےلیے ابابیل۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جہاں سے عذاب اٹھتے ہیں، وہاں سے نقاب بھی اٹھتے ہیں۔ اور پھر وہیں پر گلاب بھی کھلتے ہیں کیونکہ اسرارِ حیات ایک اندرون شہرکی مانند ہے جہاں بند گلیاں نہیں ہوتیں۔ ہر راستہ کسی نہ کسی گھر اور کسی نہ کسی شاہراہ کی جانب لے جاتا ہے۔ نہ زندگی ابتدا ہے اور نہ موت انتہا،نہ عروج ابتداۓ انتہا ہے اور نہ زوال انتہاۓ ابتدا۔ جو ستارہ جہاں چمکتا ہے، وہیں روشن ہے۔ اس کی روشنی مجھ تک اگر چند نوری سالوں کے بعد پہنچتی ہے تو اس وقت تک وہ ستارہ کسی اور کہکشاں کی زینت بن چکا ہوتا ہے اور میرے لیے اس کی روشنی ختم ہو چکی ہوتی ہے۔ مجھ تک پہنچنے والی روشنی نہ التباس ہے اور نہ حقیقت،مگر مجھے یقین ہے کہ وہ ہے۔ وہ ہے تو میں ہوں،میں نہیں ہوں تو بھی وہ ہے۔ اس نے اگر اتنی محبت سے مجھے یہاں بھیجا ہے تو میں اتنی نفرت پر یقین کیسے کروں؟

Facebook Comments

مختار پارس
مقرر، محقق اور مصنف، مختار پارس کا تعلق صوفیاء کی سر زمین ملتان سے ھے۔ ایک عرصہ تک انگریزی ادب کے استاد رھے۔ چند سال پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک کرنٹ افیئرز کے پروگرام کی میزبانی بھی کی ۔ اردو ادب میں انشائیہ نگار کی حیثیت سے متعارف ھوئے ۔ان کی دو کتابیں 'مختار نامہ' اور 'زمین زاد کی واپسی' شائع ہو چکی ھیں۔ ادب میں ان کو ڈاکٹر وزیر آغا، مختار مسعود اور اشفاق احمد جیسی شخصیات سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ٹوئٹر پر ان سے ملاقات MukhtarParas@ پر ھو سکتی ھے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply