ماں تو آخر ماں ہوتی ہے/ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بخاری

 بچہ آئی  سی یو-چلڈرن ہسپتال،لاہور

 

 

 

 

 

رات کے ڈھائی بج رہے ہیں اور میں ابھی تک سو نہیں پا رہا۔ میں یہاں بچوں کے آئی سی یو میں نائٹ ڈیوٹی پر ہوں۔ اور میرے سامنے حالات سے نبرد آزما چند مائیں ہیں۔ چند کہانیاں ہیں۔ چند دل سوز کہانیاں جو تھکاوٹ کے باوجود مجھے سونے نہیں دے رہیں۔
میں یہ کہانیاں آپ سے شیئر کرنا چاہتا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بیڈ نمبر 5

چار سال کے اس بچے کی ماں میرے سامنے ہے جسے آنتوں کی شدید ہوتی بیماری کے ساتھ یہاں لا کر داخل کیا گیا تھا۔ یہ بچہ تین دن سے اسی طرح اپنے والدین کے سامنے بے سدھ لیٹا ہے۔ اور وہ عورت جو اس کی ماں ہے، مسلسل اپنے شوہر کو تسلیاں دیے  جا رہی ہے جو تقریباً پھوٹ پھوٹ کر  رو رہا ہے۔
اُف، مرد کو یوں پہلی بار روتا دیکھ رہا ہوں۔

کتنی بہادر ماں ہے یہ۔ اس کے دل میں بھی تو کئی درد ہونگے،؟
یہ بھی تو پھوٹ پھوٹ کے  رونا چاہتی ہو گی؟
اسے بھی تو سہارے کے لیے کسی کا کندھا چاہیے ہو گا؟ مگر نہیں۔
اپنے آنسوؤں کو اپنے شوہر اور دنیا والوں سے چھپائے یہ عظمت کا  پہاڑ اپنے شوہر کو حوصلہ دیئے جا رہی ہے۔
لیکن خدا جانے یہ کب تک خود کو روک پائے گی۔
کیونکہ اس کے بچے کو آنتوں کا کینسر ہے جو نجانے کب اس کی جان لے لے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بیڈ نمبر 8

مریض کےسرہانے بیٹھی وہ پیلی چادر والی عورت کب سے کچھ پڑھ رہی ہے۔
بہانے سے قریب جا کر دیکھا تو اسکے ہاتھ میں قرآن تھا اور وہ سورۃ یٰسین کا ورد کیے جا رہی ہے۔ قرآن کے صفحے اس کے آنسوؤں سے گیلے ہو رہے ہیں جنہیں چھپانے کی تمام تر کوششیں رائیگاں جا رہی ہیں۔
اس کی تین سالہ بیٹی ابھی ابھی دوسری بار آپریٹ ہو کر آئی ہے۔ پچھلی سرجری کی پیچیدگیوں کی وجہ سے یہ سرجری بہت مشکل تھی اور تقریباً ساڑھے تین گھنٹے تک جاری رہی۔ لیکن سرجری کے دوران کوئی پیچیدگی نہیں ہوئی۔
ایک گھنٹے بعد وہ بچی حرکتِ قلب بند ہو جانے سے اللہ میاں سے جا ملی۔
اور میں تب سے یہ سوچ رہا ہوں کہ وہ ماں اس صدمے سے کیسے باہر نکلے گی ؟
کیا وہ دوبارہ کسی مشکل میں سورة یٰسین پڑھ پائے گی۔ ؟؟
اس کے آنسوؤں سے گیلا وہ پارہ یہیں سائیڈ ٹیبل پر میرے سامنے ہی رکھا ہے۔ اور میں ٹکٹکی باندھے اسے دیکھے جا رہا ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بیڈ نمبر 10

یہاں تو شاید مامتا کا سب سے بڑا امتحان ہے۔
وہ ماں جو تقریباً آٹھ سال سے بستر سے لگے اپنے جسمانی و دماغی طور پہ معذور بیٹے کی خدمت کرتی چلی آ رہی ہے آج کچھ تھکی تھکی سی لگ رہی ہے  ۔
یہ عورت آٹھ سال سے لگاتار چوبیس گھنٹے، بلا چوں و چرا اپنی اس اولاد کی خدمت کرتی آ رہی ہے جو خود سے کچھ نہیں کر سکتا۔ اس کو کسی سے بھی اس کا صلہ نہیں چاہیے۔

”مائیں اپنی خدمت کا صلہ نہیں مانگا کرتیں“۔

یہ کم ظرف اولاد ہی ہوتی ہے جو ماں باپ پر اپنے احسان گنوانے سے بھی باز نہیں آتی۔
ابھی جب اس نے میرے پاس آ کے  پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب اسے دودھ دے دوں۔ ؟
تو میرے منہ سے بڑی مشکل سے نکلا ،
جی دے دیں۔
شاید میں ان ماؤں کے حوصلے، ان کے صبر، اولاد کے لیے ان کی محبت دیکھ کے  سکتے میں ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ بے شک یہ مائیں محبت، عزم و ہمت اور عظمت کا پیکر ہیں، لیکن کیا یہ تھکتی نہیں۔ ؟

Advertisements
julia rana solicitors london

آپ ہی بتائیں کون یہ سب دیکھ کر سونے کی خواہش کرے گا۔ آج رات کی نائٹ ڈیوٹی شاید ایسے ہی گزر جائے۔
اور یہ مجھ ناچیز کی طرف سے ان ماؤں کو ایک ادنیٰ سا خراج عقیدت ہو گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply