نیم کا مردہ پودا اور استاد ۔مدثر اقبال عمیر

جدائی تکلیف دیتی ہے، چاہے تعلق مختصر سے وقت کے لئے ہی کیوں نہ ہو۔اور جس رشتے کو سینت سینت کر جوڑا جائے یا یوں کہہ لیجیے سینچا جائے وہ رشتہ کسی حادثے کی نذر ہوجائے تو تکلیف کی شدت بڑھ جاتی ہے۔

زمین پہ گرے اس نیم کے پودے اور یاسر کے درمیان ایسا ہی رشتہ تھا ۔

یاسر ہمارے کالج کے بیچلر ہاسٹل کا اٹینڈنٹ ہے۔ہاسٹل سے ملحق لان بھی اس کی ذمہ داری ہے۔

یاسر کے چہرے پہ تکلیف کی شدت بڑی واضح تھی ۔میں ناشتہ کرتے اسے بدستور دیکھے جارہا تھا ۔آج اس کے لہجے میں پہلے جیسی شادابی بھی نہیں تھی ۔اس کی پریشانی کی وجہ تب میرے سامنے آئی جب اس نے دو تین افراد سے سے پوچھا کہ کیا یہ پودا دوبارہ اُگ سکے گا ۔حالانکہ اس سوال کا جواب اسے بھی معلوم تھا ۔لیکن جدائی کا یقین اتنی جلدی کہاں آتا ہے۔

“سر!کل رات چلنے والی آندھی نے اس پودے کو جڑ سمیت اکھاڑ دیا ۔میں نے بڑے پیار سے اسے بڑا کیا تھا ۔یہ ان تمام پودوں میں سب سے بڑا تھا۔شاید جڑیں کمزور تھیں ۔اب اس کا اگنا ناممکن ہے۔” اس کے لہجے میں بے بسی نمایاں تھی۔

مجھے اس کا یہ والہانہ پن بڑا بھایا ۔میں نے اسے موبائل تھمایا اور پودے کی تصویر کھینچنے کا کہا ۔وہ سمجھا کہ صاحب اپنی تصویر کھینچنے کا کہہ رہے ہیں اس نے جھٹ میری تصویر کھینچ دی۔جدائی کے احساس میں باقی چیزیں کہاں اتنی جلدی سمجھ آتی ہیں ۔

خیر پودا دیکھنے کا اشتیاق مجھے بھی بہت ہوا۔ہم دونوں نے نیم کے اس نوعمر درخت کو دیکھا۔جس کے پتے ابھی تک سبز تھے لیکن جڑیں اس کی موت کا اعلان کر رہی تھیں ۔یاسر کےچہرےپہ دکھ کا رنگ نمایاں تھا۔وہ اس پودے سے اپنے تعلق کی باتیں کرتا رہا ۔

میں نے یاسر کا حوصلہ بڑھایا اور اسے کہا کہ اب اپنی تمام تر توجہ ان بچ جانے والے پودوں کی طرف مرکوز کرو ۔گو نیم کا ایک پودا شجر سایہ دار نہ بن سکا لیکن ان بچ جانے والے پودوں کو تناور درخت بنادو ۔بیچلر ہاسٹل کا یہ چھوٹا سا گلستان جب اپنے عروج پہ آئے گا تو اس کی تعمیر میں تیرے کردار کی اہمیت بھلے لاکھ جھٹلائی جائے، اس سے انکار کرنانا ممکن ہوگا ۔آج جنہیں تم سینچ رہے ہو۔تپتی دھوپ میں ان کی خدمت کر رہے ہو ۔کل ان کی پھیلی شاخیں ، ان سے پھوٹتا سایہ، ان سے جڑا ٹھنڈک کا احساس اور ان سے فائدہ سمیٹتے لوگ چاہے تمھیں نہ جانیں لیکن تمھارے لئے دعاگو ضرور ہوں گے۔

کلاسز کا وقت ہونے والا تھا ۔میں نے یاسر سے رخصت لی اور اپنے قدم اکیڈمک بلاک کی طرف بڑھا دیے۔ لیکن میں یکدم رک گیا۔

سامنے خاکی بنیان اور پینٹ میں ملبوس ،سر پہ سی سی جے کی کیپ پہنے ،میرے جعفرینز آرہے تھے۔ان میں ساتویں تا دسویں کے کیڈٹس شامل تھے ۔

مجھے لگا یہ کیڈٹس نہیں، یہ تو پھولوں ،درختوں کے چھوٹے بڑے پودے ہیں ۔یہ تو گلاب ،موتیا ،صندل سمیت وہ پھلدار اور شجر سایہ دار ہیں جنہوں نے ابھی کھلنا ہے اور کھل کر اپنا احساس دلانا ہے ۔

مجھے لگا کہ مجھ پہ تو یاسر سے زیادہ ذمہ داریاں ہیں ۔یاسر نے پودوں کو نکھارنا تھا اور مجھے تو اک نئی نسل کی آبیاری کرنی ہے ۔میں نے تو انھیں ایسا شجر سایہ دار بنانے میں اپنی صلاحیتیں صَرف کرنی ہیں ۔جس کے سائے تلے بلا امتیاز رنگ،نسل مذہب سب بیٹھ سکیں ۔میں نے تو انھیں ایسا پھلدار درخت بنانا ہے ۔جس کے پھل کی مٹھاس سب کے لئے یکساں ہو۔انھیں ایسا گلاب بنانا ہے جو نفرت ،عصبیت کے تمام تر تعفن کی شدت اپنی خوشبو سے کم کردے۔

مجھے تو ان پودوں کو عدم برداشت کی لو سے محفوظ رکھنا ہے۔خودپسندی ،خود غرضی ،بددیانتی کا کیڑا لگنے سے بچانا ہے۔ان کی ایک ایک روش کو سنوارنا ہے۔وقت کے بے رحم تھپیڑوں سے بچانے کی ہرممکن کوشش کرنی ہے۔انھیں اپنے قدموں پہ کھڑا کر کے دوسرے پودوں کی پرورش کا ذریعہ بنانا ہے ۔

“السلام علیکم سر!”میرے پاس سے گذرتے بہت سے بچوں نے ایک ساتھ کہا اور میری سوچ کا تسلسل ٹوٹ گیا۔

“وعلیکم السلام بچو!”میرے لہجے کا اعتماد بڑھ چکا تھا ۔

میں نے یاسر کی طرف نگاہ ڈالی وہ ارد گرد سے بے نیاز ہوکر پودوں کو پانی دینے میں مصروف تھا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

“شکریہ یاسر! شکریہ نیم ! اک استاد کو اس کے مقصد کی تجدید کرانے پر۔” میں نے دل ہی دل میں کہا اور اکیڈمک بلاک کی طرف چل پڑا۔اپنے گلستان کو سینچنے کے لئے۔

 

Facebook Comments

Mudassir Iqbal Umair
بلوچستان کے ضلع جعفرآباد کے شہر اوستہ محمد میں بسلسلہ ملازمت مقیم ہوں۔تحریر اور صاحبان تحریر سے محبت ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply