• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کارِ جہاں دراز ہے، اب میرا انتظار کر( دوسرا،آخری حصّہ )۔۔عائشہ یوسف

کارِ جہاں دراز ہے، اب میرا انتظار کر( دوسرا،آخری حصّہ )۔۔عائشہ یوسف

10 مئی 2018 ، انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن
معمول کے مطابق میری صبح کا آغاز ہوگیا تھا۔ میں نے آنکھیں کھولیں، سلیپنگ بیگ سے لگی بیلٹ سے خود کو آزاد کیا اور ویو ونڈو کے سامنے جاپہنچا ۔ زمین کے کناروں سے کسی باریک سنہری انگوٹھی کی مانند سورج طلوع ہورہا تھا۔ زمین کے کچھ خطوں کے انسان سورج کے حساب سے اپنے دن کا آغاز کر چکے تھے۔ مگر یہاں ISS میں ہم یہ نظارہ یعنی طلوع آفتاب دن میں 16 مرتبہ دیکھتے تھے۔ کیونکہ ISS زمین کے گرد اپنا ایک چکر 90 منٹ میں مکمل کرتا ہے اسی حساب سے چوبیس گھنٹوں میں سولہ مرتبہ یہاں سورج طلوع اور غروب ہوا کرتا ہے۔ مجھے یہاں آئے ایک مہینہ ہوچکا تھا۔ یہاں کے انٹرنیٹ سسٹم اور ریڈیائی لہروں کی مدد سے میں کبھی کبھی ایما سے بھی زمین پر رابطہ کرلیتا تھا۔ جوں جوں دن گزر رہے تھے میرے کام کی حساسیت اور نوعیت پیچیدہ ہوتی جارہی تھی۔ اب تک میں آئی ایس ایس کےباہر جاکر بھی اسٹیشن کے بعض آلات کی مرمت کا کام کرچکا تھا، مگر یہ مرحلہ بہت خطرناک اور مشکل تھا، جس سے تمام خلابازوں کی جان جاتی تھی، کیونکہ EVA , Extra Vehicular Activity یا space walk کوئی بچوں کا کھیل نہیں تھا۔

بہرحال اس تمام عرصے میں ہم کافی حد تک اسپیس اسٹیشن کے روٹین اور ماحول کے عادی ہوگئے تھے۔ میں نے ویو ونڈو کے سامنے سے ہٹ کر WHC کی طرف تیرنا شروع کردیا ، جی وہی جسے زمین پر ہم واش روم کہتے ہیں ۔ اسے یہاں ویسٹ اینڈ ہائی جین کمپارٹمنٹ کہا جاتا ہے۔ یہاں پہنچ کر مجھے تین پیلے بلب وی کی شکل میں جلتے نظر آئے، جس کا مطلب تھا کہ WHC کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔” To check it’s v to pee”کی اصطلاح یہاں ISS میں رائج ہے۔ یہاں واش روم استعمال کرنا قدرے مشکل عمل ہے مگر بہرحال اب تک مجھے عادت ہوگئی تھی۔ خلائی اسٹیشن کا تمام wastage ایک خاص suction کے ذریعے ایک چیمبر میں لے جاکر جلادیا جاتا ہے۔ شروع شروع میں حضرت انسان کا فضلہ خلا میں ہی پہنچایا جاتا تھا مگر بعد میں انسان کو اس غلطی کا احساس ہوا کہ اس طرح تو انسان زمین کے ساتھ ساتھ خلا کو بھی آلودہ کردے گا ، اس کے بعد ویسٹ کو تلف کرنے یا زمین تک لے جانے کی تکنیک اپنائی گئی۔

اب میں کھانے کی ٹرے سنبھالے ناشتے سے نبرد آزما تھا۔ میرا ناشتہ سیریل ، انڈے ، کافی ، بریڈ وغیرہ پر مشتمل تھا۔ ہمیں اسپیس اسٹیشن پر کھانے کی کافی وسیع ورائٹی دستیاب تھی۔ تقریباً وہی سب چیزیں جو ہم زمین پر کھاتے ہیں ، مگر صرف ایک فرق کے ساتھ کہ ہمارا تمام تر کھانا ڈی ہائیڈریٹ یعنی پانی کا وزن ختم کرکے خلا  میں پہنچایا جاتا ہے۔ ناشتے سے فراغت کے بعد میں تیرتا ہوا اپنے کمپیوٹر روم میں جاپہنچا۔ آج کے ٹاسک کے مطابق مختلف اسائنمنٹس پر کام کرتے کرتے دوسرے ناشتے کا وقت ہوگیا۔ ہم لوگ اسپیس اسٹیشن پر عام طور پر دو دفعہ ناشتہ کرتے ہیں۔ کچھ دیر بعد مزید کام کرنے کے بعد لنچ کا وقفہ ہوا اور یونہی روٹین میں ایک اور دن گزر گیا۔

اگرچہ یہاں پر ہر کام کیلئے معمول سے زیادہ محنت کرنی پڑتی لیکن گریویٹی نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے مسلز اور ہڈیاں کمزور ہونے لگ جاتے ہیں۔ اس لئے ہمارے روٹین کا لازمی حصہ جم میں ٹریڈ مل اور ویٹ لفٹنگ سمیت کچھ مشینیوں پر روزانہ ورک آؤٹ شامل ہے۔ یہ ہمیں چاق و چوبند رکھنے کے ساتھ ساتھ جسم پر خلا کے منفی اثرات کو زائل کرتا ہے۔ اسی طرح کام کے اوقات کار ختم ہونے کے بعد ہم سب کریو ممبرز موسیقی ، کتابوں ، گفتگو اور دیگر مشاغل سے بھی روزانہ لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ایک اور دن ختم ہورہا تھا۔ انسانی ارتقا اور تسخیر جہاں کی ایک اور منزل سر ہورہی تھی۔ اور ہمارے سامنے آج کے دن کا سولہواں اور آخری سورج غروب ہورہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
5 جون 2018 ، فلوریڈا ، امریکہ
گیٹ وے اپارٹمنٹ کی بلند قامت عمارت کے پانچویں فلور کی بالکونی میں ایک نیلی آنکھوں اور سنہرے بالوں والی لڑکی خلا میں کسی نکتے کو کھوج رہی تھی۔ شام ڈھل گئی تھی ، آسمان پر تارے چمک رہے تھے، وہ ایما ولیم تھی جو کیلیفورنیا کی ایک شام یاد کر رہی تھی جب وہ اینڈریو کے ساتھ کیلیفورنیا vacation پر آئی ہوئی تھی تو اینڈریو نے اسے طلوع آفتاب کے بعد آسمان پر حرکت کرتے ایک چمک دار ستارے کو دکھاکر بتایا تھا کہ یہ ہے انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن۔
” کتنا اچھا ہوتا کہ اگر کیلیفورنیا کی طرح فلوریڈا میں بھی کبھی کبھی آئی ایس ایس کا نظارہ ممکن ہوتا ۔ ”
وہ جانتی تھی کہ یہ مشن چھ ماہ طویل ہے یعنی ابھی آنے والے چار پانچ ماہ اسے مزید انتظار کی گھڑیاں گننی ہیں۔ طویل اور صبر آزما انتظار ۔ اس شام ایما کسی چمکتے گردشی ستارے کو تو نہیں دیکھ پائی مگر ایک ٹوٹتا تارہ یا شہابیہ ضرور اپنی جھلک دکھلا گیا۔ ایما نے حسب عادت آنکھیں بند کرلیں اور دعا میں مشغول ہوگئی۔ خلاباز اینڈریو مورگن کی سلامتی کی دعا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
15 جون 2018 ، انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن
آج صبح روٹین کے مطابق میں نے دن کا آغاز کیا۔ ٹوتھ پیسٹ نکالا تو وہ بلبلے کی شکل میں فضا میں معلق ہوگیا ۔ چند قدم آگے بڑھ کر اسے نگلا ، سر پر لگے شیمپو کو تولیئے سے صاف کیا اور کام پر جانے کیلئے تیار ہوگیا۔ کیونکہ یہاں ہمارا پانی اور آکسیجن زمین سے آتی ہے دوسرے آئی یس ایس کے مخصوص انفراسٹرکچر کی وجہ سے اس کے استعمال میں ہم بہت محتاط ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں مخصوص ٹوتھ پیسٹ اور شیمپو کے استعمال کے بعد پانی کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔

آج کے دن کی سرگرمیوں میں ایک اہم سرگرمی EVA یعنی اسپیس واک شامل تھی۔ آج مجھے اسپیس اسٹیشن سے باہر نکل کر اپنے مخصوص خلائی لباس میں ISS کو پاور سپلائی کرنے والے سولر پینلز کی مرمت کا کام سر انجام دینا تھا۔ یہ ایک خطرناک اور تیکنیکی کام تھا۔ اس ٹاسک کو پورا کرنے کیلئے میں اور میرا ساتھی رابرٹ جان وقت مقررہ پر خلا میں جانے کیلئے تیار ہوگئے۔ وقت مقررہ پر ہم دونوں ائر لاک کی راہداری سے گزرتے ہوئے اسپیس اسٹیشن سے باہر آگئے۔ خلا میں ہر سو اندھیرا اور سناٹا تھا۔ اتنا سناٹا اور خاموشی جو زمین پر کبھی ممکن ہی نہیں۔۔۔۔

ہر لمحہ پھیلتی خدا کا مظہر خداوندی “کائنات” ہمارے چہار سو پھیلی ہوئی تھی۔ میں نے اور رابرٹ نے اپنے ہدف پر پہنچ کر کام شروع کردیا۔ ہم دونوں انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن سے ایک 26 میٹر لمبے وائر سے منسلک تھے ، ہم انتہائی محتاط انداز میں کام کر رہے تھے کیونکہ کوئی بھی نٹ ، بولٹ یا پن بھی اگر ہمارے اسپیس سوٹ سے ٹکرا جاتی تو وہ پنکچر ہوسکتا تھا جس کا مطلب چند سیکنڈز میں موت تھا، دوسرا خطرہ ہمیں خلا میں گھومتے مختلف سیٹلائٹس کے ملبے سے بھی تھا ، ایک خطرہ خود سے منسلک وائر کے ٹوٹ جانے کا بھی تھا مگر اس کے امکان نہ ہونے کے برابر تھے، اس کی وجہ ناسا کے سو فیصد فول پروف حفاظتی انتظامات تھے ، جس کی وجہ سے آج تک کبھی وائر ٹوٹنے کا حادثہ نہیں پیش آیا مگر چونکہ کچھ بھی سوفیصد نہیں اور حادثات کا امکان بہرحال موجود رہتا ہے اسی وجہ سے 1961 ، 1986 اور 2003 میں روسی اور امریکی اسپیس شٹل تباہ ہوچکے تھے جن کا ملبہ اور اس میں موجود انسان سب راکھ بن کر جلتے ہوئے زمین پر گرے تھے ، بالکل کسی شہاب ثاقب کی طرح !!

کام کے دوران اچانک ہی میرے میٹل وائر سے کوئی چیز ٹکرائی ، اور وہ جھٹکے سے ٹوٹ کر مجھے خلا کی وسعتوں میں دھکیل گیا۔ میری بدقسمتی تھی کہ میں روئے زمین کا وہ پہلا انسان بن گیا جو اس نوعیت کے حادثے کا شکار ہوا۔ میں جھٹکے سے لگنے والی قوت کی سمت میں تیزی سے بڑھ رہا تھا، میرے ہیلمٹ میں لگے ڈیوائس مجھے رابرٹ جان کی آواز پہنچا رہے تھے جو بار بار مجھے SAFER کا آپشن استعمال کرنے کا کہہ رہا تھا ، میں نے ہاتھ SAFER کی طرف بڑھائے مگر میرا ذہن بے ہوشی کی طرف جارہا تھا ، یہ بہت خطرناک صورتحال تھی ، میں جانتا تھا کہ راڈ ٹوٹنے کی صورت میں دوسرا آپشن Simplified Aid For Eva Rescue یعنی safer کا ہے جو میرے خلائی لباس میں لگا ایک ایمرجنسی جیٹ پیک سسٹم ہے ، یہ مجھے دوبارہ انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن کی طرف دھکیل دے گا، بس اس joystick کو استعمال کرنے کی دیر ہے پھر میں دوبارہ ISS کے قریب ترین پہنچ جاؤں گا میں نے اپنے ماؤف ہوتے دماغ کو ہدایت اور تسلی دی اور joystick پر گرفت مضبوط کی ، مگر میرا ذہن تاریکیوں میں ڈوب چکا تھا۔ safer کے استعمال سے پہلے ہی میں unsafe اور لامتناہی کائنات میں بھٹک چکا تھا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جب مجھے ہوش آیا تو میں خوف کے مارے منجمند ہوکر رہ گیا کہ اس بے کراں اور وسیع و عریض کائنات میں کسی تنکے کی مانند اڑے جارہا ہوں۔ اسپیس سوٹ کے وقت کے مطابق اس حادثے کو گزرے آدھا گھنٹہ ہوچکا تھا ۔ میں یقیناً بہت دور آچکا تھا۔ Safer کے استعمال کا وقت گزر چکا تھا، اور میرے سارے رابطے بھی منقطع ہوچکے تھے۔ اصل میں ، میٹل وائر کے ٹوٹتے ہی میں ایک خاص سمت میں قوت لگنے سے تیزی سے بڑھتا گیا اور فی الوقت زمین کے مدار میں چاند کی طرح زمین کے گرد چکر کاٹ رہا تھا۔ یہ بھی ممکن تھا کہ میں تیزی سے بڑھتے ہوئے زمین کی سطح کی طرف سفر شروع کردیتا اور جل کر گرجاتا مگر ایسا ہوا نہیں ، میں زندہ سلامت تھا اور خلا میں بے وزن ، بے حرکت خس و خاشاک کی مانند زمین کے گرد گھوم رہا تھا۔ اب تک یقیناً میرے ساتھیوں کو علم ہو چکا ہوگا ، اور میرے بچنے کا تیسرا آپشن یہی تھا کہ وہ ریسکیو آپریشن کریں مگر ایسا آپریشن بہت مشکل اور تقریباً ناممکنات میں سے تھا، ایسی کوئی اسپیس شٹل اب تک ایجاد نہیں ہوئی تھی جو خلا میں گمشدہ کسی خلا باز کو ڈھونڈ کر لاسکے۔ مگر میں وہ پہلا بدنصیب انسان تھا جس کو شاید یونہی ہمیشہ خلا میں بھٹکنا تھا۔ اب میرے پاس آٹھ گھنٹے بچے ہیں ۔ خدا کی بنائی لامحدود ، لامتناہی کائنات ہے، اور میری زندگی کے چند گھنٹے۔ وہی چند گھنٹے جب تک میرے اسپیس سوٹ کی آکسیجن ختم نہیں ہوتی ۔ جیسے ہی میرے خلائی لباس کی آسکیجن ختم ہوگی ، میری زندگی کی ڈور بھی ٹوٹ جائے گی۔ اگر کوئی outer object اس سے پہلے ہی مجھ سے ٹکرا کر اسپیس سوٹ کو تباہ کردے تو باہر کوئی بھی ائر پریشر نہ ہونے کی وجہ سے دس سیکنڈ میں میرا خون بھاپ بن جائے گا ،
پندرہ سیکنڈز میں بے ہوش ہو جاؤں گا اور فقط بیس سیکنڈ میں ہی میرے پھیپھڑے کام کرنا بند کردیں گے۔ یعنی اسپیس سوٹ تباہ ہوتے ہی میری زندگی فقط بیس سیکنڈ کی مار تھی۔ مگر اس کے بعد بھی میرا جسم کبھی فنا نہیں ہوگا، بلکہ غبارے کی طرح پھول جائے گا اور مصری ممی کی طرح حنوط ہوکر ہمیشہ کیلئے محفوظ ہو جائے گا۔ ظاہر ہے جب خلا میں آکسیجن ہی نہیں تو کوئی بھی جسم گلنے سڑنے ، ٹوٹنے پھوٹنے یا ختم ہونے کے عمل سے نہیں گزر سکتا بلکہ میرا وجود اب ہمیشہ کیلئے کائنات کا حصہ بن کر زمین کے مدار میں چکر کاٹتا رہے گا ۔ ایما ولیم کی دعائیں جانے کس انداز میں قبول ہوئی ہیں کہ میں زندہ سلامت تو نہیں مگر سدا سلامت ضرور رہنے والا ہوں۔ میں اینڈریو مورگن ، ناسا کا صف اول کا سائنسدان اور خلا باز ، اس وقت سامنے پھیلی کائنات کے رحم و کرم پر اور چند گھنٹے ختم ہونے کے انتظار میں ۔۔۔!!!
مگر کیا کبھی ایما ولیم کا انتظار بھی ختم ہوپائے گا۔۔۔؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
15 جون 2018 ، ناسا ہیڈکوارٹرز، واشنگٹن۔ ڈی ۔ سی۔
” تمام رپورٹس ، ریڈار اور آلات اینڈریو مورگن کو ٹریس کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ہم مکمل طور پر اسکا سراغ کھوچکے ہیں۔ انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن کے لئے فی الوقت وسائل کی عدم فراہمی کی وجہ سے ریسکیو آپریشن کرنا بھی ممکن نہیں ، ہماری تحقیقاتی کمیٹی اس حادثے کی وجوہات ، مختلف پہلوؤں اور اثرات پر کام شروع کرچکی ہے۔ اینڈریو مورگن کی موت تقریباً 48 تا 72 گھنٹوں کے بعد مشترکہ لائحہ عمل اور اعلامیہ طے کرنے کے بعد ڈیکلیئر کی جائے گی۔ اس سے پہلے یہ حادثہ اور خلاباز کی گمشدگی  کو انتہائی خفیہ اور حساس قرار دیا جارہا ہے۔۔۔ ”
ناسا کے چیف ڈائریکٹر جم گرین اور” مشن اسپیس ایکس ” کے ہیڈ کی مشترکہ بریفنگ جاری تھی ، ہال میں موت کا سناٹا تھا، تمام ناسا اسٹاف ، سائنسدانوں اور بورڈ ممبرز سانس روکے بریفنگ سن رہے تھے ، اس سناٹے کو چیرتی ، ناسا ڈائریکٹر ، جم گرین ، کی آواز دوبارہ فضا میں گونجی۔۔۔
” بڑے اور عظیم مقاصد کیلئے ایسی قربانیاں ہمارے حوصلوں اور منزل کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنیں گی۔۔۔۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
15 جون 2018 ، کراچی ، پاکستان
گزشتہ تین گھنٹوں سے مفتی جناب پروفیسر جلال احمد خان کی سربراہی میں رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس جاری تھا ۔ تمام تر شہادتوں اور پہلوؤں پر غور کیا جارہا تھا۔کمیٹی واضح طور پر دو دھڑوں میں بٹی نظر آرہی تھی۔ ماحول پر تناؤ اور گرما گرمی کا اثر نظر آرہا تھا۔ چاند کی پیدائش، اس کی روئیت اور موصول ہونے والی شہادتوں پر زور و شور سے بحث جاری تھی۔ میڈیا نے مسلسل چینلز پر سنسنی پھیلا رکھی تھی۔ باہر میڈیا کے نمائندے اور تمام قوم محو انتظار تھے۔ دوسری طرف محکمہ موسمیات اور دوسرے اداروں کی پیشگوئیاں بھی محل نظر تھیں۔ ہال میں مختلف آوازوں کے گونجنے سے خاصا شور مچا ہوا تھا ۔ کمیٹی کے چیئرمین ، ماہر علوم فلکیات اور عالم دین مفتی جلال احمد خان کیلئے کوئی فیصلہ لینا انتہائی مشکل ثابت ہورہا تھا۔ ہر صورت میں کسی نہ کسی طاقتور دھڑے کی ناراضگی کا اندیشہ تھا۔ آخرکار ، ایک فیصلے پر پہنچنے سے پہلے ان کی آواز کانفرنس ہال میں گونجی۔۔۔
” بڑے اور عظیم مقاصد کیلئے ایسی قربانیاں ہمارے حوصلوں اور منزل کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنیں گی۔۔”

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply