ہمارا معاشرہ شدت پسند کیوں ؟۔۔سید اعزاز الرحمٰن

پاکستان ہمیشہ سے مختلف مسائل کا شکار رہا ہے جن میں سے تشدد پسندی سب سے اہم ہے، جو بد قسمتی سے ختم ہونے یا کم ہونے کا نام  ہی نہیں لے رہی،  آئیے دیکھتے ہیں کہ پاکستانی معاشرے میں وہ کون سے عوامل ہیں جو ایک امن پسند انسان کو تشدد پسندی پر اُکساتے  ہیں ۔

غربت:
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ اگر آپ کے ہاتھ میں دو روٹیاں ہیں اور  آپکا گزر کسی غریب کے راستے پر ہو تو آپ چپ چاپ ایک روٹی اُس کے ہاتھ میں پکڑا دیں، ورنہ ایک روز نہ آپ ہوں گے اور نہ ہی آپ کی روٹیاں۔۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں 24فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، آپ ان سے ہزار قسم کے الگ الگ سوال پوچھیں آپ کو ان کے جواب میں بھوک، غربت، تنگدستی اور افلاس ملے گا  ۔ ان کی یہ غربت جب حد سے بڑھ جائے تو یہ کبھی اپنے بچوں کو نہر میں پھینک کر خودکشی کرلیتے ہیں، کبھی پریس کلب کے سامنے خودسوزی کرتے ہیں ، ٹرین کے آگے لیٹ جاتے ہیں یا ہتھیار اٹھا کر اور اپنی بھوک اور بے بسی کو اپنی طاقت بنا کر کسی دکان، گھر یا چوراہے کا رخ کرتے ہیں اور مزاحمت کی صورت میں سامنے  آنے والے شخص کو گولی تک مار دیتے ہیں۔ اس ملک کے حکمرانوں کو اگر لوگوں کی جانوں کی پرواہ ہے اور سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس ملک سے تشدد پسندی کا خاتمہ کرنا ہے تو غربت کی طرف توجہ دینی ہوگی۔

سیا سی وابستگیاں:
اس ملک میں تین سو سے  زیادہ رجسٹرڈسیاسی پارٹیاں ہیں اور آپکو اگر کوئی چھوٹا موٹا ، جائز وناجائز کام کرنا ہو، آپکو اپنی گلی کنکریٹ کروانی ہو، نکاسی آب کا مسئلہ ہو یا آپ پولیس کے روکنے پر “لو جی بات کریں” کہنے کے  خواہشمند ہوں ،  آپکے بچے یا بھائی کو چھوٹی موٹی سرکاری نوکری چاہیےہو تو آپ کسی بھی سیا سی جماعت کی ٹوپی پہنیں، گلے میں پارٹی رنگ کا اک مفلر لٹکائیں، ایک چھوٹی  سی  میٹنگ ارینج کروائیں اور اپنی شمولیت کا اعلان کریں ۔اپنی  پارٹی کو ہر صورت میں سپورٹ کریں، چاہے وہ قتل کریں،دہشت پھلائیں، احتجاج کریں، گاڑیوں کو آگ لگائیں یا تشدد کریں اورمخالف پارٹی کے خلاف نعرے لگائیں تو تب کہیں جا کر آپکا ہر جائز و ناجائز کام باآسانی ہوجائےگا، لیکن ان سب کے دوران  آپ شاہزیب شہید جیسے نوجوان کھو دیں گے، جو الیکشن کے دن ہی مخالف پارٹی کی گولیوں کا نشانہ بن گیا تھا اور اسی شام کووزیراعظم عمران خان صاحب نے بیان دیا تھا کہ شاہزیب شہید کے قاتلوں کو معاف نہیں کیا جائےگا ،شاہزیب شہید نے اپنی  شہادت سے نئے پاکستان کی بنیاد رکھی  ہے،لیکن بد قسمتی سے اس واقعے کو تین برس گزر چکے ہیں اور نئے پاکستان کی نئی بنیادیں بھی بوسیدہ ہوچکی ہیں ، لیکن شاہزیب شہید کے والد آج بھی عدالتوں کے باہر انتظار کر رہے ہیں  ،کیا شاہزیب شہید کی موت اور پھر انصاف میں رکاوٹ، لوگوں کو اس بات پر نہیں اُکسا رہے  کہ چاہےآپ سیا ست کے میدان میں گولی چلائیں،تشدد کریں یا قتل بھی کریں لیکن جب تک آپ کی پارٹی کا ہاتھ آپ کے سر کے  اوپرموجود ہے، اس ملک کی کوئی عدالت ، کوئی پولیس آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔

حقوق کی پامالی:
حقوق کی پامالی روزِ اوّل سے ہمارا مسئلہ رہا ہے،اور یہی سب سے بنیادی مسئلہ ہے جوکہ لوگوں کو،خصوصاً نوجوان نسل کو اپنی  ہی دھرتی ماں کے خلاف ہتھیار اٹھانے پر مجبور کر دیتا ہے، آپکوبلوچستان کا شاہداد خان بلوچ یاد ہوگا جو قائداغظم یونیورسٹی کا طالبعلم تھا، حامد میر کے پروگرام میں اس وقت کے وفاقی وزیر احسن اقبال صاحب سے ایک سوال کیا تھا کہ ریکوڈک،سندک اور سوئی گیس بلوچستان اور بلوچستان کے لوگوں کی قسمت نہیں بدل سکا تو سی پیک ہمارے عوام کی قسمت کیسے بدل سکتا ہے،اس نے کچھ اور سوالات بھی اٹھائے تھے لیکن تقریباً دو سال بعد شاہداد بلوچ نے ملک مخالف تحریک میں شمولیت اختیار کی اور اسی تحریک میں مارا گیا، اس کی غلطی صرف یہ تھی کہ اس نے پہلے اپنے حقوق کی بات کی، جب اسے کوئی دوسرا راستہ نظر نہیں آیا تو وہ ملک مخالف تحریک کا حصہ بن گیا اور غلط ہاتھوں میں چلا گیا، ہمیں اگر اورشاہداد بلوچوں کو غلط لوگوں کے ہاتھوں میں جانے سے بچانا ہے تو ہمیں   ان کے حقوق کا خیال رکھنا ہوگا ، ان کے ہر سوال کا جواب دینا ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تفریق:
اس ملک میں تعلیم سے لیکر صحت تک اور صحت سے لیکر کھیل تک، ہرچیز تفریق کا شکار ہے، آپکو ایلیٹ کلاس کے بچے ملک سے باہر تعلیم حاصل کرتے نظر  آئیں  گے جب کہ غریب کا بچہ 73 برسوں میں ٹاٹ سے کرسی تک کا سفر نہ کرسکا،  آپ کو ملک کے ایلیٹ لوگ علاج کے لیے مہنگے ہسپتالوں میں نظر  آئیں گے جب کہ غریب کسی سرکاری ہسپتال کے کسی او پی ڈی میں انتظار کرتا نظر  آئے گا، بات یہیں پر  نہیں رکتی ،آپ کو غریب کا بچہ کسی کچرے کے  ڈھیر پر کھیلتا نظر  آئے گا جبکہ امیر کا بچہ مہنگے جھولوں میں جھولتا  دکھائی دے گا، ان حالات میں غریب کے بچے کے پاس صرف ہتھیار آنے  کی دیر ہوتی ہے اور اسلحہ  آتے ہی وہ اس کے  زور  پہ  اپنے  احساسِ  محرومی کا حساب لینے کی کوشش شروع کردیتا ہے۔

Facebook Comments

سید اعزاز الرحمٰن
خیبر میڈیکل یونیورسٹی سے طب کی سند مکمل کرنے میں مصروف ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply