خودنوشت(افسانہ)۔۔بنت الہدیٰ

“میں ایک نثرنگار ہوں، ایسا لوگ کہتے ہیں اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ میں اپنے حصے کا بہترین کام کر رہی ہوں، جبکہ میری لکھی کوئی بھی تحریر ادب کا حصہ شمار نہیں ہوتی۔
مگر لوگ مجھے بتاتے ہیں کہ میں ان کے دل کا حال تحریر میں لے آتی ہوں۔۔ ان کے جذبات کو الفاظ دیتی ہوں۔ میرا نام ایک پہچان رکھتا ہے۔ جبکہ میں خود الفاظ سے خالی ہوں۔ میرے پاس کہنے کے لیے خاموشی کے سوا کچھ نہیں مگر لکھنے کے لیے اتنے الفاظ نہیں معلوم کہاں سے آجاتے ہیں۔۔؟ یہ معمہ میں آج تک حل نہیں کر پائی۔
اپنی ہی تحریروں میں، میں کیا لکھتی ہوں؟ مجھے آج تک اسے کوئی بھی نام دینے میں تردد درپیش  آتا رہا ہے۔

کل رات میں ہسپتال کی کھڑکی سے ایک درخت کے پتّوں کو ہوا سے حرکت کرتے ہوئے ایک ٹک دیکھتی رہی اور پھر اسی  انداز میں دو گھنٹے گزر گئے۔
کھڑکی کے پار دو گھنٹے ایک ہی انداز میں بیٹھی دیکھتی رہی تو مجھے سمجھ آیا کہ وہ دو گھنٹے میں صرف اس درخت کی شاخوں اور پتو کو نہیں دیکھ رہی تھی اسے سن بھی رہی تھی۔ وہ درخت مجھے اپنی کہانی سنا رہا تھا۔

اور جب میں اس کی ٹہنی اور پتّو کے سبز رنگ اور زردی کے مکسچر کو صفحے پہ اتار رہی تھی تو وہ زندگی کہلائی۔ جس کی ضرورت مجھے ہسپتال کے اس کمرے میں لے آئی تھی۔
درد کو سمجھنا خاصا مشکل کام ہے اور مجھے تو چہروں میں چھپی تحریریں پڑھنا بھی نہیں آتی ہیں ۔۔ یہ بہت مشکل ہے۔

ایک روز میں نے آئینہ سامنے رکھ کر خود کو لکھنے کی کوشش کی۔۔
اس وقت دو چہرے آمنے سامنے تھے مگر عجیب بات یہ ہے کہ سامنے نظر آنے والا چہرہ میرا اپنا نہیں تھا۔۔
میری آنکھیں ان آنکھوں سے بدل چکی تھی جن میں، میں ہمیشہ اپنا ہی عکس تلاش کرتی رہی ہوں۔
میرے رخسار کی زردی اس چہرے کے سرخ رخساروں میں بدل چکی تھی جنہیں یہ ناز تھا کہ وہ اپنی مسکراہٹ سے ہر درد چھپا سکتے ہیں۔۔

میں ان سب کو تحریر کرنا شروع کرتی ہوں تو کوئی لفظ مجھے اس احساس کا ترجمان نظر نہیں آتا ہر صفحے  پر  صرف خاموشی ہی اترتی ہے۔
ہسپتال کے اس کمرے میں پھیلی خاموشی دھیرے سے میرے قلم کو جکڑ لیتی ہے کہ وہاں مجھے اپنے موجود ہونے پہ شک ہونے لگتا ہے۔
یہاں تک کہ میں آئینے سے منہ موڑ لیتی ہوں، قلم رکھ دیتی ہوں اور تیزی سے صفحے پلٹنے لگتی ہوں۔

خود کو تحریر کرنے کی کوشش میں ہر لفظ اتنے حصوں میں بٹ جاتا ہے کہ تحریر کا کوئی بھی حصہ پڑھے جانے کا خواہشمند نہیں رہتا۔

تخیّل میں بُنی گئی کہانیوں سے گھبرا کے جب میں دنیا میں مگن ہونے لگتی ہوں تو ہر گزرتے دن کے ساتھ میرا روپ بدلنے لگتا ہے۔ یہاں تک کہ میرے ساتھ رہنے والوں میں سے بھی کوئی مجھے مکمل جاننے کا دعوی نہیں کرسکتا۔

عجیب جادوگری ہے کہ مجھ سے ملتے لوگوں کو یہ تک علم نہیں ہو پاتا کہ یہ میں ہوں۔۔۔ مگر کون سی میں۔؟
لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔۔

ہر گزرتا دن اک نئی کہانی کے تانے بانے جوڑتا اسے لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے اور لوگ اس آدھی ادھوری کہانی کو اپنے جذبات و احساسات کی ترجمانی سمجھنے لگتے ہیں۔
کیا آپ کو بھی لگتا ہے کہ آپ کے خیالات کسی کہانی کا حصہ بن جاتے ہیں اور کہانی کے اختتام کے ساتھ آپ اپنے آدھے ادھورے یہاں وہاں بکھرے احساسات کو یکجا کر لیتے ہیں۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

اس نے کہانی لکھ کر اک لمبی گہری سانس لی، آج پھر اسے لگا تھا کہ وہ کہانی کے اختتام تک خود کو کھو چکی ہوگی۔۔ اس کی لکھی کہانیاں یہیں رہ جائیں گی اور وہ ہسپتال کے اس خاموش کمرے سے خود کو آزاد کر لے گی۔

Facebook Comments

بنت الہدی
کراچی سے تعلق ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply