فراست بازار کی جنس نہیں نہ ہی تدبر کسی منڈی میں برائے فروخت ہے۔انسانی حیات کے تجربات نسل ِ انسانی کے لیے غور و فکر کرنے کو کافی وشافی ہیں، قرآن بھی عالم انسانیت کو کائنات کے اسرار پر غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ گزشتہ اقوام کے حالات و واقعات قرآن مجید میں بیان کیے گئے ہیں ، تا کہ انسان اس سے عبرت حاصل کریں اور صراطِ مستقیم کی طرف پلٹیں ، لیکن انسان ہے کہ اپنی انا اور ضد میں اپنا اور اپنی نسل کا نقصان کیے جا رہا ہے۔شرط مگر یہ کہ کوئی غور و فکر کرے تو۔ بے شک انسان خسارے میں ہے۔سوشل میڈیا نے زندگی سہل بھی کی تو دشوار بھی۔ہمارے سماج نے بالخصوص آخر الذکر کو دانستہ پسند کیا۔اس روش میں بھی حکمران طبقہ آگے آگے ہے۔عربوں کا مشہور مقولہ ہے کہ ” عوام اپنے حکمرانوں کے مذہب پر ہوتے ہیں” یہاں مذہب سے مراد طرزِ حیات وسیاست ہے۔اِس اخبار نویس نے چند دن قبل ایک پوسٹ شیئر کی تو کئی جانب سے کہا گیا کہ سکول کھولنے کے فیصلے کی مخالفت کرنے سے پرائیویٹ سکولز کے اساتذہ براہ ِ رست متاثر ہوں گے۔ یہ بھی کہا گیا کہ سکول کھلنے سے پرائیویٹ سکول کے اساتذہ کو تنخواہیں ملنے کی راہیں ہموار ہوں گی۔
مجھ سے ذاتی طور پرمیرے شہر کے،ایک پرائیویٹ سکول ٹیچر نے رابطہ کر کے اپنا اور اپنے ہمصفیروں کا درد بیان کیا۔ اُن ٹیچر نے مجھے بتایا کہ وہ شہر کے ایک معروف سکول میں گذشتہ پانچ سالوں سے پڑھا رہے تھے،، اب مگر کورونا کی وجہ سے انھیں پانچ ماہ کی تنخواہ نہیں ملی، اسی طرح اُنٹیچر نے مجھے تین چار سکولوں کے نام بتائے او ر دیگر متاثرہ اساتذہ کا بھی بتایا۔میں نے اس مسئلے کی طرف جب توجہ دلانے کی کوشش کی تو ایک وکیل دوست نے لکھا کہ انھوں نے دی سمارٹ سکول کے اساتذہ کی طرف سے راولپنڈی ڈی سی او صاحب کو درخواست دی کہ اساتذہ کو سکول تنخواہیں ادا نہیں کر رہا۔اس درخواست پر جب ایکشن ہوا تو وکیل صاحب کے بقول ٹیچرز نے سکول انتظامیہ سے درون ِ خانہ مفاہمت کر کے ” این آر او” لے لیا۔یہ مسئلے کا ایک پہلو ہے۔میری دانست میں اگر درخواست گزارنے اور ایکشن ہونے پر اساتذہ کو تنخواہیں ادا کر دی گئیں تو اسے مثبت لیا جائے،مگر امر واقعی یہ ہے کہ ایسا کلی طور پرہوتا نہیں۔بے روزگاری کےخوف، نوکری سے فارغ کر دیے جانے کے ڈر سے پڑھے لکھے نوجوان وائٹ کالر مافیاز کے ہاتھوں فکری و معاشی استحصال کا شکار ہو رہے ہیں۔عدالت نے والدین کو یہ رعایت دی ہے کہ وہ پرائیویٹ سکولوں کو 20 فی صد کم فیس ادا کریں۔یہ بھی حقیقت ہے کہ کئی والدین چھ چھ ماہ تک فیس ادا نہیں کرتے، کیونکہ بہر حال وہ بھی کورونا سے معاشی تنگدستی کا شکار ہوئے ہیں، لیکن یہی والدین یکمشت چار ،چھ ماہ کا بقایا سکول انتظامیہ کو ادا کر دیتے ہیں۔
میں اس حق میں ہوں کہ سکول انتظامیہ کو فیسیں ادا کی جائیں، کیونکہ بچوں کے لیے آن لائن کلاسز کا ورک تو جاری ہے اور یہ کام سکول انتظامیہ اپنے سٹاف سے ہی لے رہی ہے۔ انتظامیہ کو البتہ چاہیے کہ وہ سٹاف کو طے شدہ تنخواہیں ضرور ادا کرے۔سٹاف میں کمی کر کے بھی اس امر کو یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ تنخواہیں بر وقت ادا ہوتی رہیں۔ پرائیویٹ سکول ٹیچر کی تنخواہ ہوتی ہی کتنی ہے؟حکومت اس حوالے سے پالیسی بنائے، اور پرائیویٹ سکولز ایسوسی ایشن سے مذاکرات کرے، انھیں احساس دلائے کہ آپ پڑھے لکھے ہی جب یوں استحصال کریں گے تو آپ کے اداروں سے نکلنے والے طلبا ملک کی کیسے بہتر خدمت کر سکیں گے؟ کیونکہ ان طلبا کو پڑھانے والے ذہنی یکسوئی سے محروم اور دبائو کا شکار رہتے ہیں۔حکومت پرائیویٹ سکول اساتذہ کے لیے موثر پالیسی لائے، مثال کے طور پر کوئی استاد جتنی تنخواہ اپنے ادارے سے لے رہا ہے، حکومت اس استاد کو اس کی تعلیم کے مطابق، ساتھ ماہانہ وظیفہ بھی دے۔ وظیفہ لینے والے استاد کی کم از کم تعلیم بی اے شرط رکھی جائے۔کیا حکومت چینی بر آمدگان و در آمدگان سمیت مختلف سیکٹرز کو سبسڈی نہیں دیتی؟تھوڑی سے پرائیویٹ سکول اساتذہ کے لیے بھی رقم مختص کر دی جائے۔
یہ ایک تجویز ہے جو رائیگاں جائے گی، کیونکہ پاکستان میں گذشتہ و موجودہ حکومت میں سے کسی کی بھی ترجیح ِ اول تعلیم و صحت نہیں۔تعلیم اگر ترجیح ِ اول ہوتی تو کیا حکومت جون میں سکول کھولنے کا اعلان کرتی؟کالجز کھل چکے ہیں۔7 جون سے ،نرسری سے میٹرک تک سکول کھل رہے ہیں۔اب اگر حکومت 50 فی صد طلبا ایک دن اور 50 فی صد دوسرے دن سکول آنے کی پابندی عائد کرے تو بھی موجودہ حالات میں یہ ناقص ترین پالیسی ہے۔پاکستان میں موسم ِ گرما کی چھٹیاں موسمی حدت کے پیش ِ نظر سالہا سال سے دی جاتی ہیں۔ بالکل اسی طرح موسمِ سرما کی چھٹیاں بھی ،اگرچہ ان کا دورانیہ ہفتہ دس دن ہی ہوتا ہے۔کیا پرائیویٹ سکولوں کی عمارتیں ایسی ہیں جو بہت ہوا دار اور ،کلاس رومز اے سی والے ہوں؟ کیا سرکاری سکولوں میں کوئی اعلیٰ تدریسی نظام موجودہ ہے؟ فرض کریں اگر کلاس رومز اے سی والے بھی ہوں تو بھی جون میں سکول کھولنے کی پالیسی ناقص ہی ہے۔
موسم سیاسی اثر و رسوخ کے تابع نہیں ہوتے، نہ ہی موسم شخصیت پرست ہوتے ہیں۔لہٰذا خاطر جمع رکھیں کہ موسم پر وزیر اعظم کی بول شخصے طلسماتی شخصیت کا کوئی رعب نہیں پڑنے والا۔ حکومت منصوبہ بندی کے ساتھ طلبا ،اساتذہ اور والدین کے لیے نئی مصیبت لا رہی ہے۔سازشی تھیوری کی عینک سے دیکھا جائے تو کیا بجٹ سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے کہ خدانخواستہ ہرطرف سے صرف ” ہِیٹ سٹرک” کی صدائیں سنائی دیں؟حکومت اس خوفناک حقیقت سے آگاہ رہے کہ ،تعلیمی ادارے سخت گرمی کے ایام میں کھولنے کے منفی اثرات ڈیڑھ دو ہفتوں میں ہی سامنے آ جائیں گے۔ تصور کیجیے کہ معصوم طلبا چھوٹے چھوٹے بند کمروں میں بیٹھے ہیں،اور بجلی غائب ہے۔سکولوں کے اوقاتِ کار صبح 7 سے پونے گیارہ، یا بارہ کرنے سے تعلیمی کنفیوژن مزید بڑھے گی۔کیونکہ کم سے کم وقت میں نصاب ختم کرنے کی دوڑ سے طلبا،اساتذہ ہر دو ، بوریت اور دبائو کا شکار رہیں گے۔ ہمیں سبق رٹنے والے طوطے پیدا کرنے کے بجائے فہیم نسل اپنے ورثے میں چھوڑنے کی پالسی اختیار کرنی چاہیے۔یقین مانیے کہ ” ٹویٹر” سے باہر کی دنیا ٹویٹر کی شاداب دنیا سے یکسر مختلف ہے۔کورونا سے جو ،طلبا و طالبات اور اساتذہ بچ گئے حکومت اب انھیں گرمی کے ہاتھوں ستا ستا کر مارنے پر تیار ہو گئی ہے ہے۔میڈیکل کی ایک اصطلاح ہے ” ڈی ہائیڈریشن” یعنی پانی کی کمی۔جون میں سکول کھولنے سے ملک بھر میں کورونا کے ساتھ میڈیکل کی مذکور اصطلاح سے خدانخواستہ ہر دوسرا گھر واقف ہو جائے گا۔ حکومت جون جولائی کے بجائے اگست میں ہی سکول کھولے۔زمینی حقائق کسی بھی طرح سکول کھولنے کے حق میں نہیں۔موسم بے رحمی پر تُلا ہوا ہے۔ اس سے قبل موسم ِ گرما کی چھٹیاں بھی موسم کی وجہ سے ہی دی جاتی تھیں، نہ کہ گندم و باجرہ کی دیکھ بھال کے لیے۔خدا نخواستہ طلبا و طالبات ہیٹ سٹروک کا شکار ہونا شروع ہو گئے؟ تو حکومت کے پاس کیا پالیسی ہو گی؟صحت کے نظام پر پہلے ہی کورونا کی وجہ سے دبائو ہے،یہ نظام مزید دبائو سہنے کے قابل ہی نہیں۔ حکومت مگر ٹویٹر ہینڈلنگ کی طرح موسم کو بھی ” ہینڈل ” کر لینے کا خواب دیکھ رہی ہے۔نہیں ایسا نہیں ہوتا، موسم کسی پالسی ساز کے تابع نہیں ہوتے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں