فلسفے کی سوچ کا سب سے اہم اصول ہے کہ آپ کسی بھی چیز کو بس ویسے ہی قبول نہیں کر لیتے جیسی دکھتی ہے۔ ہمیں اس بات کے لئے تیار رہنا پڑتا ہے کہ جو دکھائی دے رہا ہے، اس سے بہت زیادہ کچھ اور بھی ہو سکتا ہے۔ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ جو آج واضح سچ لگ رہا ہے، وہ ویسا نہ نکلے۔
فلسفے کے مشکل ترین سوالات میں یہ ہے کہ رئیلیٹی اصل میں کیا ہے (نہ کہ وہ جو ہمارا خیال ہے) اور ہم کیسے اس فرق کو معلوم کریں۔
اور ہمارے پاس اس سفر میں کئی گائیڈز ہیں جو اس مہم میں ہمارے مدد کر سکتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہالی وڈ کی مشہور فلم Inception ہے جس میں ہیرو ایک چور کا کردار ادا کرتا ہے۔ اور یہ چوری لوگوں کے خوابوں میں گھس کر ان کے آئیڈیا چوری کرنے کی ہے۔
لیکن کچھ عرصے بعد لیو کی ٹیم کے ممبران کے لئے یہ مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ ایک خواب اور دوسرے خواب میں فرق کر سکیں یا پھر حقیقت اور خواب میں تفریق کر سکیں۔ فلم میں ایسے لوگ موجود ہیں جو خواب کی دنیا میں رہتے ہیں لیکن انہیں یقین ہے کہ وہ اصل زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے لئے خواب ہی سب کچھ ہے۔ اور یہی ان کے لئے حقیقت بن چکا ہے۔
لیکن وہ لوگ جو اس کو باہر سے دیکھ رہے ہیں، انہیں سوئے ہوئے جسم نظر آ رہے ہیں اور ان کی نظر میں یہ خوابیدہ افراد جس حقیقت کا پیچھا کر رہے ہیں، وہ حقیقی نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ اچھی فلم ہے لیکن اس کا آئیڈیا نیا نہیں۔ اس کا بنیادی سوال بہت پرانا ہے۔ “کیا یہ ممکن ہے کہ میری موجودہ حقیقت بالکل بھی حقیقی نہ ہو؟”۔ اور یہ سوال افلاطون نے کیا تھا۔
افلاطون نے اپنی مشہور کتاب Republic میں ایک تمثیلی کہانی کے ذریعے ایسا سوال پیش کیا۔
کچھ قیدی ہیں جو پیدائش کے بعد سے ہی ایک تاریک غار میں ہیں جہاں انہیں زنجیر سے باندھا گیا ہے۔ وہ صرف اپنے سامنے خالی دیوار کو دیکھ سکتے ہیں۔ ان کی پچھلی طرف دور اوپر آگ کا الاو ہے , وہی اس غار میں روشنی کا واحد ذریعہ ہے۔ کچھ لوگ کچھ چیزیں اٹھائے ادھر سے ادھر چلتے رہتے ہیں , چنانچہ ان لوگوں اور چیزوں کے حرکت کرتے سائے سامنے چٹان پر بنتے رہتے ہیں , قیدیوں نے زندگی بھر سوائے ان سایوں کے کبھی کچھ نہیں دیکھا۔ انہوں نے کبھی ان اصل چیزوں کو نہیں دیکھا ، جن کے وہ سائے سامنے چٹان پر موجود ہیں۔ ان کے لئے حقیقت یہ سائے ہی ہیں۔
غور کریں کہ آپ نے تمام عمر صرف سائے دیکھے ہوں تو آپ کا دنیا کے بارے میں تصور کیا ہو گا۔ آپ کو معلوم نہیں ہو گا کہ اس کے علاوہ بھی کچھ اور ہے۔ آپ کو تین ڈائمنشن کا تصور بھی نہیں ہو گا۔
قیدی تمام عمر صرف اس سائے کی حقیقت میں گزارتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک قیدی زنجیروں سے آزاد ہو جاتا ہے اور باہر نکل جاتا ہے۔
پہلے تو اس کی آنکھیں اس روشنی سے چندیا جاتی ہیں لیکن پھر آہستہ آہستہ اسے معلومہوتا ہے کہ غار کے باہر چیزیں ان سایوں سے بہت مختلف تھیں۔ اضافی ڈائمنشن تھی۔ اور بہت زیادہ کچھ تھا۔ اس کے لئے ایک اور ہی نئی دنیا آشکارا ہو جاتی ہے۔
غور کریں کہ اسے کیسا محسوس ہو گا۔ اس چیز کا پتا لگنا کہ صرف چند منٹ پہلے تک، ہر شے جس پر وہ یقین کرتا تھا، اصل حقیقت کے محض بالکل دھندلے سے خاکے تھے۔
انسپشن فلم کے کرداروں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ ایک بار جب انہیں معلوم ہو جاتا ہے کہ حقیقت کی کئ تہیں ہیں تو پھر وہ واپس دنیا کو کبھی بھی پہلے کی طرح نہیں دیکھ سکتے۔ اور کئی کے لئے یہ بہت ہی طاقتور اور نشہ آور احساس ہے۔ اور ایسا ہی اس فرار ہونے والے قیدی کے ساتھ بیتتی ہے۔
وہ واپس غار کے اندر آتا ہے , اور باقی قیدیوں کو جوش سے اس کا بتاتا ہے۔ لیکن یہ گفتگو ویسے نہیں ہوتی جیسا کہ اس کا خیال تھا۔ اس کی توقع تھی کہ وہ اس دریافت سے اچھل پڑیں گے۔ اور خود بھی باہر جانے کے شوقین ہوں گے۔ لیکن ان سب کا خیال ہے کہ اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ ایسی کسی “بڑی حقیقت” جس کا نہ انہوں نے سنا، نہ دیکھا اور نہ ہی کوئی ایویڈنس ہے۔
اس پر طرہ یہ کہ روشن دن سے واپس غار میں آنے سے کچھ دیر کو اس کی بصارت ٹھیک کام نہیں کرتی۔ قیدیوں کو یقین ہو جاتا ہے کہ باہر جانے سے اس شخص کو ضرر پہنچا ہے۔ کیونکہ وہ تو اب ان سایوں کو بھی نہیں دیکھ پا رہا جو ان کی پوری دنیا ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہو سکتا ہے کہ آپ کو بھی اس طرح کے کسی رئیلیٹی شاک کا ہلکا پھلکا سا تجربہ ہوا ہو۔ مثلاً، آپ کو کھیلنے کے لئے بچپن میں بھالو دیا گیا ہو۔ یہ بھالو کے تصور کو سمجھنے کے لئے آپ کا واحد طریقہ تھا۔ پھر ایک روز آپ چڑیا گھر گئے یا کسی نیشنل پارک تو آپ نے ایک اصل بھالو دیکھا۔ اور اچانک ہی آپ کو معلوم ہوا کہ بھالو کے بارے میں آپ کی پچھلی سمجھ کس قدر زیادہ غلط تھی۔ (یہ نرم نہیں جن کو گلے لگایا جا سکے)۔ آپ کی زندگی کے ابتدائی برسوں والا وہ بھالو اصل کا مبہم سا سایہ تھا۔
اس کی کئی مثالٰیں شاید آپ کی زندگی میں بڑے ہو کر بھی ہوئی ہوں۔ (پہلی بار کا عشق؟)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افلاطون ہمیں یہ کہانی کیوں سناتے ہیں؟ یہ صرف ان لمحوں کے بارے میں نہیں جب ہمیں اچانک ایک نئی حقیقت کا معلوم ہوا۔ افلاطون ہمیں دکھانا چاہتے ہیں کہ اِس وقت بھی ہم غار کے قیدی ہیں۔ ہماری موجود دنیا سایوں کی دنیا ہے۔ جس طرح کہانی کے شخص نے سایوں کو حقیقت سمجھ لیا تھا، ہمارے ساتھ بھی ویسا ہی ہے۔
لیکن سایوں کو مادی اشیا سمجھنے کی غلطی کے بجائے ہماری غلطی یہ ہے کہ ہم ایسا سمجھتے ہیں کہ مادی اشیاء عام دنیا میں سب سے زیادہ اصل ہیں۔ جبکہ افلاطون، ہمارے اس گہرے یقین اور احساس کو، اس تمثیل کے ذریعے چیلنج کرنے کی ایک کوشش کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہ سوچنا ہمارے لئے حیران کن ہے کہ کیسے کیسے خیالات، جنہیں حتمی فیکٹ سمجھا جاتا تھا، بعد میں بالکل غلط نکلے۔
زمین کی شکل۔ یہ خیال کہ زمین کائنات کا مرکز ہے۔ یہ یقین کہ جسم میں فاسد مادے نکالنے سے علاج کیا جا سکتا ہے۔ یہ یقین ہیروئن یا تمباکو یا لوبوٹمی صحت کے لئے اچھے ہیں۔ سچ کے متضاد فیکٹ اپنے وقتوں میں سب کے لئے حقیقت تھے۔
اس کہانی میں بہت کچھ بند ہے۔ اس کے ذریعے افلاطون جو آپ کو کہنا چاہ رہے ہیں، وہ یہ کہ اس امکان پر غور کریں کہ دنیا ویسی نہیں جیسے دِکھتی ہے۔ اور یہ فلسفے کے بارے میں بھی ایک سٹیٹمنٹ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فلسفہ کرنا مشکل ہے۔ جن چیزوں پر ہم ہمیشہ سے یقین کرتے آئے ہیں، وہ بھی غلط ہو سکتی ہیں۔ یہ تکلیف دہ احساس ہے۔ عارضی طور پر ایسا بھی لگ سکتا ہے کہ بینائی کم ہو گئی۔ کیونکہ نئے خیالات کی تفہیم بھی ہمیشہ آسان نہیں۔
اور اس پر طرہ یہ کہ آپ کے وہ پرانے دوست، جو فلسفے کے سفر میں آپ کے ساتھ نہ ہوں، ایسا محسوس کر سکتے ہیں کہ آپ کا دماغ کھسک گیا ہے۔
لیکن یہ ایک زبردست علم بھی ہے۔ کیونکہ اس سے موقع ملتا ہے کہ آپ چیزوں کو نئے رخ سے دیکھنے کے قابل ہوں۔
افلاطون کا خیال ہے کہ فلسفہ تاریکی سے روشنی تک جانے کا احساس ہے۔ جو چندھیا بھی دیتا ہے اور نئے زاویہ نگاہ کا انعام بھی دیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو پھر اگلی مرتبہ ہم اس سایوں کی دنیا میں تھوڑا سا گہرا غوطہ لگانے کی کوشش کریں گے۔
(جاری ہے)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں