ورلڈکپ 2019 پاکستان کے لیے اختتام پذیر ہوا, اب سیمی فائنل تک رسائی کسی معجزے سے کم نہیں ہو گی- پاکستان ٹیم اگر بنگلہ دیش سے جیت جاتی ہے تو پوائنٹس ٹیبل پر پانچویں نمبر پر رہے گی جو کہ پاکستان ٹیم کی ون ڈے رینکنگ سے ایک اوپر ہے- پاکستان نے اس ورلڈکپ میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا لیکن کچھ غلطیاں ایسی ہوئیں کہ جن کی وجہ سے پاکستان سیمی فائنل کی دوڑ سے تقریباً باہر ہو گیا ہے- پاکستان نے اس ٹورنامنٹ کے دوران اپنے سے اوپر رینکنگ پر موجود انگلینڈ, جنوبی افریقہ اور نیوزی لینڈ کو شکست دی لیکن ویسٹ انڈیز کے خلاف پاکستانی بیٹسمینوں کی کارکردگی اور بدترین شکست کے علاوہ سری لنکا کے خلاف میچ کا بارش کا شکار ہو جانا پاکستانی ٹیم کے لیے انتہائی مہلک ثابت ہوا-
پاکستان کی ورلڈکپ مہم کے آغاز سے قبل ہی کچھ ایسے فیصلے کیے گئے جنہوں نے اس شکست میں اہم کردار کیا- روٹیشن پالیسی تقریباً ہر بڑی ٹیم میں ہوتی ہے لیکن ورلڈکپ سے صرف ایک ماہ قبل دنیا کی بہترین ٹیموں میں سے ایک آسٹریلیا کے خلاف کپتان سمیت 6,7 اہم کھلاڑیوں کو آرام دینے کا فیصلہ کسی کی بھی سمجھ سے بالاتر تھا- اگر پاکستان کرکٹ بورڈ اور سلیکشن کمیٹی ان کھلاڑیوں کو آرام دینے میں اتنی ہی سنجیدہ تھی تو انہیں اس سیریز سے قبل ہونے والے پاکستان سپر لیگ میں آرام دیا جا سکتا تھا لیکن اس سے ٹورنامنٹ کی اہمیت میں کمی اور کھلاڑیوں کا معاشی نقصان ممکن تھا-
ورلڈکپ کے لیے 23 رکنی سکواڈ کا اعلان کچھ اس جلدی میں کیا گیا کہ پاکستان کے پریمیر ون ڈے ٹورنامنٹ پاکستان کپ کے اختتام کا انتظار بھی نہ کیا گیا اور نہ ہی اس ٹورنامنٹ میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے وہاب ریاض, خوشدل شاہ, افتخار احمد اور دیگر کھلاڑیوں کو کیمپ میں بلانے کے قابل سمجھا گیا- دو سال سے فہیم اشرف کو پاکستانی کوچ مکی آرتھر آل راؤنڈر بنانے کی کوشش کرتے رہے, لیکن ورلڈکپ سے چند دن قبل اسے ٹیم سے نکال دیا جاتا ہے- فہیم اشرف کو انگلینڈ کے خلاف جس کارکردگی کی بنیاد پر ٹیم سے ڈراپ کیا گیا تھا فہیم ایسی ہی کارکردگی کی بنیاد پر ایشیا کپ سے اب تک مسلسل ٹیم کا حصہ تھے, کیا اس دوران سلیکٹرز یا ٹیم مینجمنٹ کو کسی وقت یہ خیال نہیں آیا کہ فہیم کی جگہ کسی اور کو کھلانے کا وقت آ گیا ہے- یہاں تک کہ جب آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں فہیم نے پہلے دو میچز میں ناکامی کا سامنا کیا تو بھی انہیں سیریز کے بقیہ میچز سے آرام دینے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ ورلڈکپ سکواڈ میں فہیم کی شمولیت میں کوئی مسائل نہ پیدا ہو سکیں-
ابتدائی 15 میں شامل ایک کھلاڑی کو بنا کھلائے ہی فائنل سکواڈ سے باہر کر دیا جاتا ہے اور دو کھلاڑیوں کو بنا کھلائے ہی ورلڈکپ سکواڈ میں شامل کر لیا جاتا ہے- عابد علی اگر سکواڈ کا حصہ ہوتے تو اوپنرز کی ناکامی کے بعد انہیں کھلایا جا سکتا تھا- دو ایسے کھلاڑیوں کو ورلڈکپ سکواڈ میں شامل کیا جاتا ہے جو گھریلو پریشانیوں کا شکار ہیں- ان دو میں سے ایک شعیب ملک کو کھیلتے بیس سال ہو گئے, لیکن ان کی انگلینڈ میں 14 کی اور پچھلے ڈیڑھ سال میں 29 کی اوسط سلیکٹرز کو بتا رہی تھی کہ ان کا اچھا وقت گزر چکا, اس کے بعد سیریز کے درمیان میں انہیں گھریلو مسائل کے حل کے لیے وطن واپس آنا پڑتا ہے- ایک کھلاڑی جو ٹیم فوٹو سیشن میں موبائل کان سے لگائے پریشان نظر آ رہا ہے وہ ورلڈکپ میں انڈیا کے خلاف انتہائی اہم اور پریشر ککر جیسے میچ میں کھیل پر کیسے توجہ دے سکتا ہے یہ صرف چیف سلیکٹر ہی بتا سکتے ہیں-
شعیب ملک نے ورلڈکپ کی تین اننگز میں 8 رنز سکور کیے- اگر آصف علی کی بات کی جائے تو ورلڈکپ سے چند دن قبل ان کی بیٹی کی وفات ہو گئی- انگلینڈ کے خلاف سیریز میں دو نصف سنچریوں کے باوجود آصف علی کی ون ڈے میں ناکامی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے- اگر پاکستان کو آخری اوورز میں تیز کھیلنے کے لئے آصف کی اتنی زیادہ ضرورت تھی تو یہ ضرورت جلدی محسوس کرتے ہوئے انہیں آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں موقع دینا چاہیے تھا- آصف علی کی دو اننگز میں 19 رنز اور دو ڈراپ کیچز ہی اس ورلڈکپ میں ان کی کارکردگی ہے- یہ وہی ڈراپ کیچز تھے جنہوں نے ایرون فنچ اور وارنر کو لمبی اننگ کھیلنے میں بھرپور مدد دی اور پاکستان آسٹریلیا سے ایک اہم میچ میں شکست کھا گیا-
بابر اعظم پچھلے دو سال سے پاکستان کی محدود اوورز کی ٹیم کا سب سے اہم حصہ ہیں- پاکستان کی طرف سے ان کی بہترین کارکردگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے- اس ٹورنامنٹ میں بھی ابھی تک بابر پاکستان کے ٹاپ سکورر ہیں اور اگر بنگلہ دیش کے خلاف ایک بڑی اننگ کھیل جاتے ہیں تو پاکستان کی طرف سے ورلڈکپ میں 500 رنز بنانے والے پہلے کھلاڑی بھی بن سکتے ہیں- بابر اعظم نے افغانستان کے خلاف دباؤ میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر کے ثابت کر دیا کہ وہ دباؤ میں بھی بہترین کھیل کا مظاہرہ کر سکتے ہیں- بابر اعظم کو صرف اچھی بیٹنگ وکٹوں پر اپنے سٹرائک ریٹ کو مزید بہتر بنانے کی اور بڑی سنچری بنانے پر محنت کی ضرورت ہے-
حارث سہیل کی فٹنس ان کے کیرئیر میں بہت بڑی رکاوٹ رہی ہے ورنہ اب تک حارث کا شمار پاکستان کے بہترین بیٹسمین اور ٹیسٹ اور ون ڈے ٹیم کے لازمی کھلاڑیوں میں ہوتا- حارث کو ویسٹ انڈیز کے خلاف پہلے میچ کے بعد ڈراپ کر دیا گیا تھا اور پھر تین میچز کے بعد ہی موقع مل سکا لیکن جنوبی افریقہ اور نیوزی لینڈ جیسی ٹیموں کے خلاف حارث سہیل نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر کے ثابت کر دیا کہ وہ بابر اعظم کے بعد اس ٹیم کے سب سے اہم بیٹسمین ہیں-
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں