کینسر (17) ۔ شعاعیں اور کینسر/وہاراامباکر

“امریکہ میں میڈیکل ایکسرے لیبارٹری کے بانیوں میں سے ہر ایک کا انتقال ایکسرے برن کی وجہ سے ہونے والے کینسر کی سبب ہوا ہے”

Advertisements
julia rana solicitors london

واشنگٹن پوسٹ ۔ 1945
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیسویں صدی کی ابتدا میں ریڈی ایشن تھراپی کے ذریعے کینسر کے علاج سے بہت توقعات وابستہ تھیں۔ ریڈیم کی دریافت کے ساتھ سرجن ٹیومرز پر بہت طاقتور توانائی کی بمباری کر سکتے تھے۔ ہائی ڈوز ریڈی ایشن تھراپی پر کانفرنسز منعقد ہونے لگیں۔ ریڈیم کو سونے کی تار میں ڈال کر ٹیومر کے اندر براہِ راست پرو دیا جاتا تھا۔ تا کہ زیادہ سے زیادہ ایکسرے دی جا سکے۔ پیٹ کے اندر آپریشن کر کے ریڈون کو نصب کیا جاتا تھا۔ 1930 اور 1940 کی دہائی میں ویکیوم ٹیوب ٹیکنالوجی میں ترقی ہو رہی تھی اور ساتھ ہی اس کے اشتہار دئے جا رہے تھے۔
یہ کینسر میڈیسن کو ایٹامک دنیا میں لے آئی تھی، جس میں امید اور خطرہ ساتھ ساتھ تھے۔ سائیکلوٹرون، سپروولٹیج رے، لینئیر ایکسلریٹر، نیوٹرون بیم جیسے آلات ایٹمی ٹیکنالوجی اور کینسر تھراپی، دونوں کے لئے تھے۔
اور کئی قسم کے کینسرز کے لئے یہ نعمت تھا۔ سرجری کی طرح ہی، یہ مقامی کینسر ختم کر سکتا تھا۔ چھاتی کے ٹیومر ایکسرے سے تباہ کر دئے جاتے تھے۔ لمفوما کی گلٹیاں پگھلا دی جاتی تھی۔ دماغی ٹیومر سے ایک سال کوما میں رہنے والی خاتون کا ٹیومر ختم کر کے انہیں بیدار کر دیا گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن سرجری کی طرح ہی اس کی حدود تھیں۔ پھیل جانے والے کینسر کا کچھ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ریڈی ایشن کی مقدار بڑھانے سے مریض کی تکلیف اور ہونے والے مضر اثرات بڑھ جاتے تھے۔
لیکن دوسری حد زیادہ مکار تھی۔ ریڈی ایشن کینسر پیدا کرتی تھی۔ ایکسرے تیزی سے بڑھنے والے خلیوں کو مارتی تھی۔ اس کی وجہ ڈی این اے کو پہنچنے والا ضرر تھا۔ لیکن یہی ایکسرے کینسر پیدا کرنے والی میوٹیشن بھی کرتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیوجرسی میں ایک کمپنی، یو ایس ریڈیم، نے ریڈیم کو پینٹ کے ساتھ ملا کر نئی پراڈکٹ بنائی جو “ان ڈارک” تھی۔ اس کو گھڑی کی سوئیوں میں استعمال کیا گیا تاکہ اندھیرے میں چمکتی سوئیاں وقت بتاتی رہیں۔ گھڑیوں کو رنگنا بہت نفاست والا کام تھا اور اس کے لئے عام طور پر کمسن خواتین کو ملازم رکھا جاتا تھا۔ ان کے لئے کوئی احتیاطی اقدامات نہیں تھے۔
ان خواتین کو جلد ہی جبڑے کی درد، جلد اور دانتوں کے مسائل نے آن لیا۔ 1920 کی دہائی کے آخر میں میڈیکل تفتیش سے معلوم ہوا کہ ان کے جبڑے کے ہڈیوں میں نیکروسس ہو چکا تھا، زبان ریڈی ایشن کا شکار ہو گئی تھی۔ اور کئی کو انیمیا تھا جو ہڈی کے گودے کے ضرر کا نتیجہ تھا۔ اگلی دہائیوں میں ان خواتین میں سارکوما، لیوکیمیا، ہڈی، زبان، گردن اور جبڑوں میں کینسر کے ٹیومر ہونے لگے۔ 1927 میں پانچ خواتین نے یو ایس ریڈیم پر ہرجانے کا مقدمہ کر دیا، جو انہوں نے جیت لیا۔ کمپنی کو ہر مزدور کو دس ہزار ڈالر اور پھر سالانہ خرچ دینا تھا۔ زیادہ تر خواتین اس کو لینے نہیں آ سکیں۔ کئی اس قدر کمزور ہو چکی تھیں کہ وہ عدالت میں حلف کے لئے ہاتھ بلند بھی نہیں کر سکتی تھیں۔ وہ زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہیں۔
میری کیوری کا انتقال لیوکیمیا سے جولائی 1934 میں ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریڈی ایشن اور کینسر کا پیچیدہ تعلق تھا۔ کبھی کینسر کا علاج اور کبھی کینسر کا باعث بننے والی۔ اس نے ابتدائی جوش و خروش کو ٹھنڈا کر دیا۔ ریڈی ایشن ایک طاقتور ہتھیار تھا لیکن یہ ہتھیار محدود تھا۔
نیویارک کے سرجن ولی مائیر (جنہوں نے ریڈیکل سرجری کی تکنیک ایجاد کی تھیں) کا خط 1932 میں امریکن سرجیکل ایسوسی ایشن کی سالانہ میٹنگ میں پڑھ کر سنایا گیا۔ اس وقت ان کی وفات کو چھ ہفتے گزر چکے تھے۔ اس میں ان کا کہنا تھا کہ کینسر میڈیسن کی تحقیق میں نئی سمت کی ضرورت ہے۔
مائیر نے کینسر کے بارے میں ایک گہرا اصول سمجھ لیا تھا۔ کینسر، خواہ کسی ایک مقام پر شروع ہو، اپنی قید کی بندش توڑنے کی کوشش میں ہوتا ہے۔ دوسری جگہوں پر پھیلنے کی تاک میں رہتا ہے۔ جب تک مریض ڈاکٹر کے پاس پہنچیں، کئی بار یہ اتنا پھیل چکا ہوتا ہے کہ سرجری سے اس پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو ہزار سال پہلے جالینوس نے کینسر کی وجہ سیاہ سیال کہا تھا جو جسم میں پھیلتا ہے۔ جالینوس، ظاہر ہے، کینسر کی وجہ نہیں جانتے تھے۔ کوئی سیاہ سیال اس کے پیچھے نہیں تھا لیکن ان کا استعارہ اس معنی میں درست تھا کہ یہ کینسر کی اساس کو ٹھیک بیان کر دیتا تھا۔ کیکڑے کی طرح اور ہر وقت متحرک، یہ ایک عضو سے دوسرے میں نا نظر آنے والے راستوں سے نقب لگاتا تھا۔ جالینوس کے تصور کی طرح ہی، یہ سسٹم کی بیماری تھی۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply