پہلا پولیس مقابلہ۔۔عزیز خان/قسط6

تھانہ کوٹ سبزل میں تعینات ہوکر مجھے احساس ہوا کہ تیز وکٹ پہ کھیلنا کتنا مشکل کام ہوتا ہے؟تھانہ کوٹ سبزل کے تینوں جانب جرائم پیشہ اقوام آباد تھیں۔جانب جنوب تھانہ اوباڑو ہے جس میں شر بلوچ، ٹھگلے چاچڑ، لُنڈ بلوچ، پتافی بلوچ آباد ہیں۔ان میں سے بہت سے لوگوں کا ذریعہ معاش صرف چوری ڈکیتی اور اغوا برائے تعاون ہے۔

جانب غرب کوش بلوچ، سولنگی (ماچھی) قومیں آباد تھیں۔یہ بھی چوری، ڈکیتی اور اغواہ برائے تعاون کی وارداتیں کرنے میں مشہور ہیں۔شمال مغرب میں دشتی بلوچ، چانڈیے، اندھڑ آباد تھے۔اسی طرح جانب شمال ضلع راجن پور کی تحصیل شاہ والی ہے جسکا تھانہ کچا اراضی ہے جس میں مزاری بلوچ آباد ہیں۔جن میں لٹھانی، سکھانی، عمرانی، بکھرانی قومیں آباد ہیں۔ان کی سر پرستی مزاری سردار کرتے ہیں یہاں پر ریڈ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے جب بھی یہاں ریڈکیا جائے تو پولیس ملازمین زخمی و شہید ہوتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:فوری انصاف۔۔۔عزیز خان/قسط5

بکھرانیوں میں غلام رسول عرف چھوٹو گینگ بھی یہیں کا ہے جس نے اغواہ برائے تاوان، ڈکیتی اور پولیس مقابلوں میں خاصی شہرت پائی۔غرض تین جانب سے جرائم پیشہ اقوام کے درمیان گھری تحصیل صادق آباد کا تھانہ کوٹ سبزل بلوچستان، راجن پور اور سند ھ سے آنے والے ڈاکووں کے لیے داخلی دروازہ تھا۔اگر یہاں SHOمضبوط اعصاب کا مالک نہ ہو تو یہاں سے آنے والے ڈاکو و جرائم پیشہ افراد رحیم یار خان،بہاولپوراور پنجاب تک سنگین وارداتیں کرتے ہیں۔کیونکہ واردات کرنے کے بعد یہ جرائم پیشہ افراد کچے کے علاقوں میں پناہ لے لیتے ہیں۔

یہاں پر واردات کا وقت شام 4بجے سے لے کر رات 11بجے تک کاہوتا ہے۔اکثر سندھ اور بلوچستان سے آئے ہوئے ڈاکو جتھوں کی شکل میں دس،دس، بارہ بارہ افراد مسلح پنجاب میں داخل ہوتے اور لوٹ مار کرکے بڑے آرام سے واپس چلے جاتے ۔ اس دوران SHOکو اپنی نفری کیساتھ الرٹ رہنا پڑتا تھا تاکہ کسی بھی ناخوشگوار اطلاع پر فوری ردعمل دیا جاسکے۔یہاں رہ کر میں نے سیکھا کہ کسی بھی رینک کے پولیس ملازم کو اپنی رائفل خود اٹھانی پڑتی ہے۔

اس وقت پولیس کے پاس سیمی آٹو میٹک رائفل اور 303رائفل ہوا کرتی جبکہ ڈاکوؤں کے پاس کلاشنکوف، 8mm اور 7mmرائفلیں ہوا کرتی تھیں۔جن پر دوربین لگا کر پولیس کے لیے مسائل پیدا کرتے تھے۔صادق آباد اور کوٹ سبزل کے رہنے والے لوگ ہمیشہ ان ڈاکوؤں کے مقابلے میں پولیس کا ساتھ دیتے ان میں صادق آباد سے چوہدری منیرآرائیں لوہے والا، عبدالمالک تریلی، چوہدری ذکی قابل ذکر ہیں جو ہمیشہ اپنا پرائیویٹ اسلحہ لے کر پولیس کے شانہ بشانہ چلتے تھے۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پولیس ملازمین کو اپنا ذاتی اسلحہ از قسم کلاشنکوف رکھنا پڑتا تھا یہ اسلحہ اور اس کی گولیاں “سوئی بلوچستان ” بگٹیوں سے مل جاتی تھیں۔ممنوعہ اسلحہ کو رکھنا ہماری مجبوری تھی کیونکہ ڈاکوؤں کے پاس جدید اسلحہ ہوتا تھا اس وجہ سے اکثر پولیس ملازمین زخمی یا شہید ہوجایا کرتے تھے۔

سندھ اور پنجاب بارڈر پہ کوئی خاردار تار یا دیوار نہیں ہوتی بلکہ اگر آپ نے یہ اندازہ لگانا ہو کہ سندھ اور پنجاب کا علاقہ کونسا ہے تو جس طرف فصلوں میں پانی بے تحاشا ضائع ہو رہا ہو وہ سندھ اور جہاں زمین بنجر ہو وہ پنجاب۔۔سندھ کے یہ جرائم پیشہ لوگ اکثر کام کر نے کے معاملے میں بہت سست واقع ہوتے ہیں۔کاشت کاری کرنا ان کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے۔صبح اٹھ کر کسی بھی اڈہ یا پل پر دکانوں پہ شام تک بیٹھے رہنا اور رات کو وارداتیں کرنا ان کا معمول ہوتا تھا۔

ایک دن شام کو میں حسبِ معمول گشت پر تھا بذریعہ وائرلیس مجھے اطلاع ملی کہ موضع ولہار میں عبدالمالک تریلی کے نوکر سے تین مسلح افراد نے اسلحہ کے زور پر اس کے ڈرائیور سے ٹریکٹر چھین لیا ہے۔جن کا رُخ سندھ کی طرف ہے۔ وائرلیس پر مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ تھانہ سے نفری لے کر غلام علی ASI، رانا ریاضASI، اکرم جٹ ASIبھی موقع پر روانہ ہوگئے ہیں۔میں بھی سرکاری گاڑی پر موقع کی طرف روانہ ہوگیا۔مدعی ولہار پھاٹک پر موجود تھا اس نے بتایا کہ  عبدالمالک تریلی کچھ لوگوں کو ساتھ لے کر ڈاکوؤں کا پیچھا کر رہا ہے۔اتنی دیرمیں غلام علی ASI اور باقی نفری بھی پہنچ گئی۔میں بھی نفری کے ساتھ ڈاکوؤں کے عقب میں روانہ ہوگیا۔َ

دو کلومیٹر جانے کے بعد میں نے شور کی آوازیں سنی۔معلوم ہوا کہ عوام نے ڈاکوؤں کو گھیر رکھا ہے۔۔۔جیسے ہی ہم نزدیک پہنچے تو ڈاکوؤں نے پولیس پارٹی کو دیکھتے ہی فائرنگ شروع کردی۔میرے لیے یہ پہلا موقع تھا کہ اس طرح ڈاکوؤں سے آمناسامنا ہوا مگر رانا ریاض، اکرم جٹ اورغلام علی میرے ساتھ بہادری سے کھڑے رہے اور فائرنگ کرتے رہے۔تقریباً آدھا گھنٹہ تک پولیس اور ڈاکوؤں کے درمیان فائر نگ ہوتی رہی۔اچانک ڈاکوؤں کی طرف سے فائرنگ بند ہو گئی۔سامنے ٹریکٹر کھڑا تھا جسکی لائٹیں بھی جل رہی تھیں۔جب کافی دیر تک ڈاکوؤں کی طرف سے کوئی فائر نہ ہوا اور نہ ہلچل ہوئی تو ہم محتاط طریقے سے آگے بڑھے۔قریب پہنچنے پر ایک شخص مردہ حالت میں پڑا ہوا پایا ا سکے دوساتھی اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہوجانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔مردہ ڈاکو کی شناخت رفیق لاکھا کے نام سے ہوئی۔رفیق لاکھاقبل ازیں چالیس مقدمات میں ملوث  اور مطلوب تھا، تھانہ شیدانی میں ایک شخص نزیر بھیلا کو بے دردی سے بازار میں قتل کرنے کا الزام بھی اس پہ تھا مختلف گروپس کے ساتھ اغواہ برائے تاوان بھی کررہا تھا۔بہاولپور کی انسداد دہشتگردی عدالت سے سزائے موت بھی ہوچکی تھی اوردیگر مقدمات میں اشتہاری بھی تھا۔
قانونی کاروائی مکمل کرنے کے بعد لاش کو پوسٹمارٹم کے لیے صادق آباد ہسپتال بھجوادیا گیا۔ولہار کے لوگ بہت زیادہ خوش تھے کیونکہ پچھلے کئی مہینوں سے موٹر سائیکل اور نقدی چھیننے کی وارداتیں ہو رہی تھیں۔وائرلیس پرپولیس مقابلے کی خبر SSPذوالفقار چیمہ اور ASPاے ڈی خواجہ کو مل چکی تھی۔کچھ دیر بعد ASPاے ڈی خواجہ بھی موقع پر پہنچ گئے جن کو میں نے تمام حالات بتائےSSPنے وائرلیس پر مجھے شاباش دی۔ ذہن میں کچھ خدشات ضرور تھے کہ ملزم کو زندہ گرفتار کرنا چاہیے تھا مگر جس طرح اچانک ملزمان نے پولیس پارٹی پر فائرنگ کی تھی ان حالات میں زندہ گرفتار کرنا ممکن نہ تھا۔بقیہ دو نا معلوم ڈاکو ؤں کے بارے میں بھی کچھ پتہ نہ چل رہا تھاکہ وہ کیسے فرار ہوگئے۔

دونوں ڈاکوؤں کے کھرے(نقش پاء) ٹارچ کی روشنی میں رواں کیے جو کچھ دور تک گئے پھرگم ہوگئے۔کیونکہ رات زیادہ ہوچکی تھی لہذا دن کی روشنی میں کھرا رواں کرنے کا پروگرام بنایا۔میں تھانے پر واپس آگیا

رات تقریباََ دو بجے محرر تھانہ جام عاشق ہیڈ کانسٹیبل میری رہائش گاہ پر آیا میں اس وقت جاگ رہا تھا کہنے لگا۔جہانگیر (وائرلیس کال سائنSSP) چیک پوسٹ 206 پر موجود ہیں اور آپکو فوری بُلا رہے ہیں۔ایک لمحہ کے لیے میں سوچنے پر مجبور ہو گیا کیونکہ مجھے تھانے کے ملازمین نے یہ بھی بتایا تھا کہ اکثر سندھی ڈاکو غلط پیغام دے کر یا مخبری کرکے پولیس ملازمین کو بُلاتے ہیں اور بعد میں چھپ کر ان کی گاڑیوں پر فائرنگ بھی کرتے ہیں۔ پھر میں نے سوچاکہ اب وہاں نہ جانا بھی بزدلی ہے اب چاہے جان بھی چلی جائے لیکن وہاں پہنچنا ہے۔تھانہ پر صرف دو ملازم تھے میں نے ان کو ساتھ لیا۔اپنی کلاشنکوف اور چار میگزین لیں اور اللہ کانام لے کر روانہ ہوگیا۔

چیک پوسٹ 206/Pتھانہ کوٹ سبزل سے تقریباََ20کلومیٹر تھی وہاں پہنچا تو SSPذوالفقار چیمہ اورASP اللہ ڈینو خواجہ موجود تھے۔مجھے دیکھتے ہی چیمہ صاحب پنجابی میں بولے “عزیز اللہ مورال کیسا ہے؟”میں نے جواب دیا “سر! ایک دم ہائی”مجھے گلے لگایا شاباش دی اور کہنے لگے “جو شخص مخلوق خدا کے لیے عذاب ہو اس کو مارنا کوئی گناہ نہیں “۔میں نے انھیں بتایا کہ تھانہ پر صرف آٹھ ملازمین ہیں کار سرکا ر میں کافی مشکل درپیش ہوتی ہے تو انھوں نے مجھے کہا کہ میں پہلے ہی DIGبہاولپور سے اس بارے میں بات کرچکا ہوں کل بہاولپور سے آپکے لیے ایک 4×4گاڑی اور پولیس لائن سے آٹھ جوان پہنچ جائیں گے۔اگلے روز حسبِ وعدہ گاڑی اور جوان پہنچ گئے۔رفیق لاکھاکے بارے میں سندھ پولیس سے پتہ چلا کہ وہ اغواء برائے تاوان اور ڈکیتی کی کئی وارداتوں میں سندھ پولیس کو بھی مطلوب تھا اوراسکی گرفتاری پر انعام بھی تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کوٹ سبزل کی تعیناتی میں پہلے ہفتے ہی مجھے اللہ تعالی نے بہت بڑی کامیابی دی تھی۔جس سے علاقہ کے عوام اب مجھ پر اعتماد کرنا شروع ہوگئے تھے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply