علم سیاسیات کی تاریخ روایت کرتی ہے کہ گئے زمانوں میں ملک ایران میں یہ دستور تھا کہ بادشاہ وقت کے مرتے ہی تین دن کے لئے ملک سے قانون کی حکمرانی ختم کر دی جاتی تھی ۔ ہر کسی کو کھلی چھٹی مل جاتی تھی کہ وہ جس کے ساتھ جو چاہے سلوک روا رکھے کوئی ہاتھ پکڑے گا نہ کسی طرح کی باز پُرس ہو گی ۔ کمزور اور شرفا ء ان تین دنوں کے خوف سے لرزاں و ترساں رہتے تھے جو کبھی بھی اَن دیکھے عفریت کی طرح ان پہ مسلط ہو سکتے تھے ۔ دوسری جانب بد سرشت اور تند خو بے تابی سے ان تین دنوں کے منتظر رہتے تھے اور جب بھی یہ منحوس تین دن ملک پہ وارد ہوتے معاشرہ جنگل بن جاتا جہاں انسان نما درندوں کا راج ہوتا ۔ کوئی گھر ، کوئی چار دیواری محفوظ نہ رہتی ۔ گلیوں میں لہو پانی کی طرح بہتا ۔
تین دن بعد نیا بادشاہ تاج سر پہ رکھتا اور تخت شاہی پہ بیٹھ کر جونہی عصا ہاتھ میں تھامتا ،اسی وقت ملک میں قانون کی حکومت اور برتری قائم ہو جاتی ۔ انسان اپنی جون اور حدود و قیود میں واپس آ جاتے اور رعایا ہاتھ اٹھا اٹھا کر نئے بادشاہ کی سلامتی کی دعائیں مانگنے لگتی ۔ اس رسم کا مطلوب و مقصود بھی یہی تھا کہ رعایا کو ظل الٰہی کی طاقت اور اہمیت کا بخوبی اندازہ ہو سکے ۔
نجانے کیوں مجھے گمان ہوتا ہے کہ گئے وقتوں کی اس متروک و مجہول رسم کی بھنک ہمارے ظل الہیوں کے کانوں میں بھی پڑی ہوئی ہے ۔ اسی لیے وہ وقتاً فوقتاً قانون کو کسی کوٹھڑی میں محبوس کر کے خود ستو پی کر سو جاتے ہیں ۔ بے بس عوام جو ایک نہیں کئی کئی عفریتوں کے بیچ پہلے ہی جانے کیسے گزران کر رہے ہیں اچانک ہی خونخوار درندوں کے شکنجوں میں پھنس جاتے ہیں ۔ ان کی املاک ، جان مال اور سواریاں سر راہ نذر آتش ہوتی ہیں ۔ وہ راستوں میں لٹتے اور ذلیل و خوار ہوتے رہتے ہیں مگر کوئی والی وارث نہیں ہوتا ۔ کئی دنوں کی خواری کے بعد ماں جیسی ریاست اور ظل الٰہی آ نکھیں ملتے ا ٹھ بیٹھتے ہیں ۔ قانون کو بھی بیڑیوں سے آ زاد کیا جاتا ہے ۔
ہم مجرموں سے آ ہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے اور کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائیگی کے نعرے مارتے ہوئے کچھ نیم دلانہ اقدام بھی کئے جاتے ہیں جو عوام کو غنیمت معلوم ہوتے ہیں اور وہ پھر سے زندگی کی گاڑی میں جت جاتے ہیں ۔
تو میرے پیارے بہن بھائیو! دست دعا بلند کرو اور اس بابرکت مہینے میں گڑ گڑا کر دعائیں مانگو کہ
بادشاہ سلامت رہے ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں