اسلام کے پانچ بنیادی فرائض میں نماز کے بعد زکوٰۃ کا درجہ آتا ہے۔ قرآن مجید کے متعدد مقامات میں زکوٰۃ کا ذکر نمازکے ساتھ جوڑ کر کیا گیا ہے۔ یعنی اللہ رب العزت کے نزدیک نماز کی جتنی اہمیت ہے اتنی ہی اہمیت زکوٰۃ کی بھی ہے۔اسلام کے پانچ بنیادی فرائض میں زکوٰۃ ہی وہ واحد عبادت ہے جو انسانوں کو انسانوں سے براہ راست جوڑتی ہے۔ زکوٰۃ، رب ِکائنات کی طرف سے اپنے بندوں کو دیا گیا ایک ایسا معاشی نظام ہے جس کے ذریعے معاشرے میں وسائل اور دولت کی تقسیم میں جو اونچ نیچ انسانوں کی فطری کمزوریوں کی وجہ سے یا آپسی استحصال کے نتیجے میں پیدا ہوجاتی ہیں، ان کو آسانی سے دور کیا جاسکتا ہے اور سماج میں معاشی مساوات قائم کی جاسکتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ جتنا زور اسلام کے دوسرے فرائض پر دیا جاتا ہے اتنا زکوٰۃ پر نہیں دیا جاتا۔ ہر آئے روز ہمارے درمیان نماز، روزہ اور حج کے تعلق سے تو بے شمار وعظ و نصیحت کی محفلیں سجتی ہیں، بیشک یہ ضروری بھی ہیں، لیکن زکوٰۃ کو لے کر اتنی سنجیدگی نہیں دکھائی جاتی جتنا اس کا مقام ہے۔ پتہ نہیں ایسا کیوں ہے؟
تاریخ گواہ ہے اسلام کے دور ِ اوّل میں جب زکوٰۃ کا نظام مسلمانوں کے درمیان اپنی اصلی شکل میں جاری ہوا تو ان پر خوشحالی اور دولت کی فراوانی کا ایک دور ایسا بھی آیا کہ معاشرے سے غریب اور مسکین مکمل طور پر ناپید ہوگئے۔لوگ زکوٰۃ لے کر مستحقین کو ڈھونڈتے پھرتے اور زکواۃ لینے والا کوئی نہ ملتا۔ سماج سے غربت یوں ختم ہوگئی جیسے اس کا کبھی وجود ہی نہ رہا ہو۔
موجودہ دور جسے سرمایہ دارنہ دور سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے انسانی تاریخ کا ایک ایسا دور ہے جس میں دولت اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اپنی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔ ایک طرف دنیا بھر کی دولت سمٹ کر مٹھی بھرلوگوں کے ہاتھوں منتقل ہوتی جارہی ہے تو دوسری طرف انسانوں کا ایک جم غفیر دانے دانے کو ترس رہا ہے۔ بھکمری ایک وبا کی شکل میں پھیل رہی ہے۔ لوگ مادی وسائل کے حصول کی خاطر ایسے ایسے اعمال کے مرتکب ہورہے ہیں جن کو دیکھ کر شیطان کی شیطانیت بھی شرما جائے۔ دولت کے انبار لگانے کو مقصد بنا کر انسانوں کا ایک گروہ اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں پر جنگ تھوپ کر ان کا قتل عام کرر ہا ہے تو ایک اور گروہ اپنی مادی مفاد کے لئے رنگ نسل اور مذہب کے نام پر سماج میں تفریق اور دشمنی پیدا کر کے خانہ جنگی کا ماحول بنانے پر تلا ہوا ہے۔انسانیت کا درد رکھنے والے دانشور اور خدمت گار پریشان ہیں کہ انسانیت کو اس معاشی بحران کی سونامی سے کیسے بچایا جائے۔ سرمایہ دارنہ نظام کی عفریت کے خونی پنجے سے کیسے انسانوں کو نجات دلائی جائے۔
نفسا نفسی کے اس ماحول میں سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ وحی کامل کے حاملین جن کے پاس انسانیت کے اس درد کا درماں ہے، خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک طبقہ خود سرمایہ دارنہ نظریات سے متاثر ہے تو ایک طبقہ، دنیا بیزار، اپنے فرائض سے بے پرواہ اور اپنے آپ میں مست ہے۔ ایک اور طبقہ جو عالم اور دانشور ہونے کا دعویدار ہے وہ اندھی تقلید میں مبتلا، دنیا کے بدلتے ہوئے تیور سے لاعلم، شوگر، کینسر اور کروناوائرس سے لاحق ہونے والی بیماریوں کو بھی نزلہ اور زکام کی دوائی دینے پر مصر ہے۔ ہزار سال پہلے دنیا جن مشکلات سے دوچار تھی ان کو ذہن میں رکھ کر ترتیب دیے گئے زکوٰۃ کے مسائل اور ان کے حل کو موجودہ دور پر تھوپنے کی ضد نے نظام زکوٰۃ کو خود مسلمانوں کے درمیان مشکوک بنا دیا ہے کہ، کیا اس سے سماج میں پائے جانے والی معاشی اونچ نیچ کا خاتمہ ہوسکتا ہے؟
قرآن مجید نے زکوٰۃ کے تعلق سے واضح احکام دے دیے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَابْنِ السَّبِیْلِ فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ ۔سورۃالتوبہ60
”یہ صدقات تو بس فقیروں اور مسکینوں کے لئے ہیں، اور اُن کے لئے جو ان پر عامل بنائے جائیں، اور اُن کے لئے جن کی تالیف قلب مطلوب ہے، اور اس لئے کہ گردنوں کے چھڑانے اور تاوان زدوں کی مدد کرنے میں، راہ خدا میں اور مسافروں کی بہبود کے لئے خرچ کئے جائیں۔ یہ اللہ کا مقرر کردہ فریضہ ہے اور اللہ علیم و حکیم ہے۔“ سورۃالتوبہ 60
یہ آیت اُس وقت نازل ہوئی جب منافقین نے زکوٰۃ کے مصارف کو لے کر اعتراض کیا تھا۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے واضح لفظوں میں قیامت تک کے لئے اصول بتا دیا کہ زکوٰۃ کی رقم کن کن لوگوں پر خرچ کی جانی چاہیے۔
اوّل فقراء و مساکین ہیں،یہاں فقراء و مساکین سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنی سفید پوشی کی وجہ سے کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے لیکن جن کے پاس مال کے نام پر کچھ نہیں ہوتا یا اگر کچھ ہوتا بھی ہے تو اتنا کم کہ ضروریات کے لئے بالکل ناکافی ہے۔ ان میں بھی فضیلت قریب کے لوگوں کو دینے میں ہے، جیسے رشتہ دار، پاس پڑوس یا محلے والے اور شہر والے، ان کے بعد دوسروں کا نمبر آتا ہے۔
العاملین علیھا میں وہ تمام افراد آجاتے ہیں جو زکواۃوصول کرنے پر مامور ہوں،بلواسطہ یا بلا واسطہ، اور وہ افراد بھی جو اس نظام میں کسی بھی قسم کی خدمت پر لگے ہوئے ہوں۔
مولفتہ قلوبھم، اس کے تحت دعوت کے کام کا ایک وسیع و عریض میدان ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ وہ افراد جو اسلام میں داخل ہوگئے لیکن اس کی وجہ سے معاشی بد حالی کا شکار ہوگئے ہیں، اور وہ افراد جو اسلام کے تئیں اپنے دلوں میں نرم گوشہ رکھتے ہیں جن کی اگر مدد کی جائے تو ممکن ہے وہ دعوت قبول کرلیں، اور وہ افراد جن کی مدد کیاجائے تو ان سے اسلام کی تبلیغ میں مدد مل سکتی ہے، اور وہاں بھی اس مد میں سے خرچ کیا جاسکتا ہے جہاں سے مسلمانوں میں معاشی،سیاسی استحکام پیدا ہونے کی امید ہو۔
فی الرقاب، یہ مد بھی اپنے اندر ایک وسیع میدان لئے ہوئے ہے۔یہاں غلامی سے مطلب صرف جسمانی ہی نہیں ذہنی اور فکری غلامی بھی لیا جاسکتا ہے۔ اس بنیاد پر اس کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ قرآن مجید کا ہر حرف قیامت تک کے لئے ہر دور میں رہنما ستارے کی طرح ہے۔ یہ کہنا یا سوچنا کہ اب جب کہ غلام اور غلامی دنیا سے ختم ہوچکی ہے اس مد میں خرچ کی ضرورت باقی نہیں رہی، غلط ہے۔ فکری اور ذہنی غلاموں کی تعداد آج بہت ذیادہ ہے، ان کو اس غلامی سے چھٹکارا دلانا بھی ہمارا فرض ہے۔
الغارمین کے تحت موجودہ دور کی ایک بڑی آبادی آجاتی ہے جو قدرتی آفات سے یا ظالموں کے ظلم کی وجہ سے شدیدمعاشی نقصان سے دوچار ہوئی ہے۔ فساد کے متاثرین سے لے کر وباکی وجہ سے معاشی نقصان میں مبتلا ہوئے افراد اور قرض کے بوجھ تلے کراہ رہے لوگ جو اپنی سفید پوشی قائم رکھنے کے لئے خود کشی جیسے حرام فعل کا ارتکاب کرنے پر بھی مجبور ہورہے ہوں۔ موجودہ حالات میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اس مد کے تحت مستحق زکوٰۃ ٹھہرتی ہے۔
فی سبیل اللہ، دعوت و تبلیغ کا ہر شعبہ اس کے ذیل میں آتا ہے۔ اللہ کی طرف لے جانے والا ہر راستہ چاہے مدرسے کی شکل میں ہو یا کتابوں کی اشاعت کی شکل میں، انسانوں کی خدمت کی شکل میں ہو یا ان کی فلاح و بہبودی کے لئے، ان سب کے لئے رب کائنات نے اس میں راہ واضح کی ہے اگر ہم سمجھنا اور دیکھنا چاہیں تو۔
ابن السبیل یعنی مسافروں پر، ان کے زاد راہ سے لے کر نقل و حرکت کے لئے بنیادی ڈھانچہ فراہم کرنا بھی اس کے تحت لایا جاسکتا ہے۔
اگر غور کیا جائے تو اللہ تعالیٰ نے ان آٹھ عنوانات کے تحت ایک ایسے معاشی نظام کو سمیٹ دیا ہے جس پر عمل کر کے کوئی بھی معاشرہ معاشی استحکام حاصل کر سکتا ہے۔
اسلام کے دور اول میں زکواۃ کا اجتماعی نظام اُسی نہج پرقائم تھا جس پر سید المرسلینﷺ نے چھوڑا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا یہ قول کہ”اگریہ (مانعین زکوٰۃ) مجھے ایک رسی بھی دینے سے انکار کریں جو وہ رسول اللہ کے زمانے میں ادا کیا کرتے تھے تومیں ان سے جنگ کروں گا۔“ اسوہ ء ِرسول پر صحابہؓ کی ثابت قدمی کی شاندارمثال ہے۔ لیکن افسوس زمانے کے ساتھ ساتھ امت کا مزاج بھی بدلتا چلا گیا۔ زکوٰۃ کا اجتماعی نظام تاتاریوں کے حملے بعد باقی نہ رہا۔ انفرادی زکوٰۃ ادا کرنے کی ترغیب میں ایک پورے نظام کو زمیں بوس کردیا گیا۔ وہ بھی ایسا کہ آج صرف اُس کا تصور ہی باقی رہ گیا ہے۔ نہ اس کو پھر سے قائم کرنے کی کوئی کوشش ہوئی نہ کسی اللہ کے بندے کو یہ توفیق کہ اس نظام کو قائم کرنے کے لئے آواز بلند کرے اور امت کے سامنے کوئی لائحہ عمل پیش کرے۔ اگر کہیں سے اکا دکا آواز بلند بھی ہوئی تو وہ صدا بصحرا ثابت ہوئی۔ ایک ایسا نظام جو مسلمانوں میں ہر دور میں معاشی استحکام کا ضامن تھا اب ناپید ہے۔ اتنا ہی نہیں انفرادی زکوٰۃ کے نظام کو بھی تملیک کے بھول بھلیوں میں ایسا الجھا دیا گیا ہے کہ زکوٰۃ کو لے کر عوامی فلاح و بہبودی کا کوئی واضح لائحہ عمل ہم دنیا کے سامنے پیش کرنے سے عملاً قاصر ہیں۔
اجتماعی زکوٰۃ کے تعلق سے یہ عذر لنگ پیش کیا جاتا ہے کہ موجودہ حالات میں ہمارے پاس ایسا کوئی اجتماعی ڈھانچہ نہیں ہے جو اس کے لئے معاون ثابت ہو۔ حالانکہ ہمارے پاس مساجد کی شکل میں ایک ایسا نظام موجود ہے جو اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود بھی امت کو اکٹھا رکھنے میں بڑی حد تک کامیاب ہے۔ ہر مسجد اپنے سے ملحق محلے کا ایک مضبوط مرکز ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ اگر ایسے تمام مساجد میں بیت المال قائم کر کے شروعاتی طور پر، کُل نہ سہی جزوی اجتماعی زکوٰۃ کا نظام نافذ کرکے اس محلے میں، اگر استطاعت ہو تو پڑوسی محلے میں موجود افراد کی فلاح و بہبودی کی کوشش کی جائے تو ہمارے معاشرے میں ایک خاموش معاشی انقلاب آسکتا ہے۔ کوشش شرط ہے۔ اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو ممکن ہے ایک بڑے نظام کی طرف ہمارا یہ پہلا قدم ثابت ہوگا۔ اور اللہ رب العزت سے امید ہے کہ اگر ہم نے اس کے قائم کردہ حدود کی حفاظت اس کے رسولؐ کی بتائی ہوئی نہج پر شروع کر دی تو وہ ہم پر برکت و عافیت کے ساتھ ہماری حفاظت کے لئے غیبی دروازے کھول دے گا۔یقیناً ایسا ممکن ہے۔
اور یہ بات بھی اب پوری طرح واضح ہوچکی ہے کہ موجودہ دور کا سرمایہ دارنہ نظام اپنی منطقی انجام کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس کی وجہ سے جو خلا پیدا ہورہا ہے وہ ایک ایسے نظام کی تلاش میں ہے جو انسانیت کا درد رکھتی ہو اور دولت اور وسائل کی تقسیم میں منصفانہ طرز عمل کی وکالت کرتی ہو۔ اسلامی زکوٰۃ کا نظام ہی وہ واحد نظام ہے جو انسانی فطرت سے عین مطابق ہے۔ یہ نظام انسانی معاشرے میں پائے جانے والی غیر مساویانہ معاشی تقسیم کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی اونچ نیچ میں معاشی مساوات پیدا کرنے کا مستقل حل پیش کرتا ہے۔ اگر ہم نے اب بھی اس نظام کو دنیا کے آگے پیش کرنے میں غفلت برتی تو نہ صرف آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی بلکہ کل قیامت کے دن خدا کے آگے جواب دہی کے سخت مرحلے سے بھی گذرنا پڑے گا جس میں ہماری گلو خاصی شاید ہی ممکن ہو۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں