فلسطین میں خواتین حقوق کی تنظیموں کا تعارف۔۔منصور ندیم

پوری دنیا کے ساتھ ساتھ عرب مسلم معاشروں میں بھی خواتین کی تنظیمیں کسی نہ کسی حالات یا کسی نہ کسی صورت وجود پذیر ہوتی رہیں، کہیں حقوق کے نام پر، کہیں وسائل و معاشرتی زندگی میں اپنی نمائندگی کے نام پر مگر فلسطین میں حقوق کے علاوہ وہاں کی معاشرتی ضرورت سے بھی زیادہ اس وقت کی مقامی جارحیت کے عمل کا رحجان اس وقت خواتین کی سوسائٹیز کو بنانے میں معاون رہا، فلسطین میں خواتین کی قدیم ترین سوسائٹیز میں سے ایک “الاتحاد النسائی العربی یروشلم” The Arab Women Union Society in Jerusalem تھی، جسے سنہء ۱۹۲۹ میں زلیخا شہابی کی سربراہی میں مقامی نوجوان خواتین کے ایک گروپ نے قائم کیا تھا۔ اس کے ابتدائی آغاز سے ہی اس تنظیم نے فلسطینی قومی مقاصد کے مزاحمتی عمل میں حصہ ڈالا تھا اور اسی کی کوشش کی تھی، اس وقت اس تنظیم نے مزاحمتی گروہوں کی مدد، زخمیوں کو طبی امداد دینے، شہداء کے بچوں کی دیکھ بھال اور اس وقت ملک کو درپیش مختلف خوفناک واقعات سے دوچار خاندانوں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ بہت سی قومی، سماجی سرگرمیوں اور مقبول مظاہروں میں اپنی شرکت کے ذریعے اہم کردار ادا کیا تھا۔

اسی تنظیم کے وجود کے بعد ہی مختلف دوسرے حصوں میں بھی خواتین کی تحاریک یا معاشرتی کردار کے لئے اسی طرح کی مقامی سطح پر خواتین نے ایسے ہی تنظیمیں بنانا شروع کردیں، جن میں “الاتحاد النسائی العربی رام اللہ” (The Arab Women Union Society in Ramallah) بنی تو اس کے ساتھ مجموعی طور پر ان تنظیموں کے ساتھ ایک Arab Women’s Accosiation of Palestine جو (AWE) اور Arab Women’s Association کے نام سے کمیٹی کی تشکیل تھی، جو ۲۶ اکتوبر سنہء ۱۹۲۹ یروشلم میں برطانوی حکومتی مینڈیٹ کانگریس کے تحت واحدہ الخالدی بحثیت اس تنظیم کے سربراہ (President) انہوں نے بین الاقوامی اور عرب دنیا کی پہلی تقریب یا کانفرنس یروشلم میں “فلسطینی عرب خواتین کانگریس” (First Arab Women’s Congress) منعقد کروائی، جسے First Eastern Women’s Congress کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، اس کانفرنس کا منشور و مقاصد یہ تھا.

“work for the development of the social and economic affairs of the Arab women in Palestine, to endeavor to secure the extension of educational facilities for girls, [and] to use every possible and lawful means to elevate the standing of women”.

ترجمہ “فلسطین میں عرب خواتین کے سماجی اور اقتصادی امور کی ترقی کے لیے کام کرنا، لڑکیوں کے لیے تعلیمی سہولیات کو وسیع کرنا اور تعلہم تک رسائی کو آسان بنانے کی کوشش کرنا، [اور] خواتین کے مقام کو بلند کرنے کے لیے ہر ممکن اور قانونی ذرائع استعمال کرنا”۔

مقامی سطح کی ان تنظیموں “الاتحاد النسائی العربی یروشلم” اور “الاتحاد النسائی العربی رام اللہ” کے مقاصد فلسطینی معاشرے کے مظالم کو بیرونی دنیا تک پہنچانے کے لیے ایک ضروری آواز بننا بھی تھا، کانفرنسوں کے انعقاد، سیمینارز کے زریعے فلسطین اور دیگر عرب ممالک میں خواتین کے ساتھ ملاقاتوں میڈیا کی متعدد سرگرمیوں میں اس کا متحرک کردار رھا۔ فلسطینی مزاحمت کے بارے میں اور بین الاقوامی دنیا کو ان بڑے خطرات سے خبردار کرنا جو سنہء ۱۹۲۰ اؤر سنہء ۱۹۳۰ کی دہائیوں میں فلسطینی عوام کو درپیش رہے تھے۔یروشلم، رسم اللہ میں ان عرب خواتین یونین سوسائٹیز نے بیداری پھیلانے، خواتین کے حقوق اور تعلیم اور علم کی اہمیت پر زور دینے کے لیے اس وقت بہت اہم کردار ادا کیا تھا تاکہ فلسطینی خواتین کو اپنے پیشہ ورانہ میدان میں ایک باوقار مقام حاصل کرنے میں مدد فراہم کی جا سکے تاکہ وہ اپنے خاندانوں کو مالی طور پر برقرار رکھ سکیں معاشی، سماجی اور تعلیمی پہلوؤں کو کیسے جان کر اپنی مشکلات کو کم کر سکیں۔

سنہء ۱۹۴۷ میں النقبہ (اسرائیل کے قیام کے وقت فلسطینی تباہی) کے پناہ گزینوں کے مسائل شدید ترین بڑھ گئے تب ان پناہ گزینوں کی دیکھ بھال کے لیے بیت اللحم کی خواتین نے “الاتحاد النسائی العربی بیت اللحم’ Bethlehem Arab Women’s Union(BAWU) کے نام سے ایک ابتدائی امدادی مرکز کے طور پر اس تنظیم کی بنیاد رکھی۔ جو بیت اللحم کے تاریخی علاقے اور مشہور چرچ آف نیٹیٹی Church of Nativity کے قریب واقع فلسطینوں کے روایات و ثقافت لباس وغیرہ کی بازاروں، دکانوں اور ثقافت کے عجائب خانے کے پاس تھے۔ جہاں انہوں نے اپنی ثقافت کو قائم رکھنے کے لئے اس تنظیم کا آغاز کیا تھا۔ یہاں خواتین نے روایتی لباس، ایمبرائیڈری تقافتی گفٹ شاپ سے خواتین کے روزگار کا آغاز کیا تھا۔

“الاتحاد النسائی العربی بیت اللحم’ اس مرکز میں کام کا آغاز سلائی کڑھائی کے منصوبے کا مقصد بیت لحم کے قدیم ورثے کا تحفظ، بحالی اور مقامی خواتین کی معاشی ضروریات کو پورا کرنا اور جب سنہء ۱۹۷۲ میں اسرائیلی قبضے کے آغاز کے ساتھ مقامی افراد کی بگڑتی ہوئی زندگی کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے قائم کی تھا، “الاتحاد النسائی العربی بیت اللحم’ نے بیت اللحم کے دیہاتوں اور پناہ گزین کیمپوں کی خواتین کو اس مرکز سے سلائی اور کڑھائی کا کام دیا ان کی تربیت اور کام کے وسائل مہیا کئے، یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور ان میں یونیورسٹی کی طالبات بھی شامل ہیں جو اپنی کمائی سے اپنی تعلیم کے اخراجات ادا کرتی ہیں۔ آج کل اس کڑھائی پراجیکٹ کو چلانے والی ہیلن ایلوسی ہیں، آج بیت لحم میں اس مرکز سے جڑی عیسائی اور مسلمان خواتین اپنے قدیم تہذیبی و روایتی لباس اور کڑھائی کا مشترکہ ورثہ رکھتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

“الاتحاد النسائی العربی یروشلم” نے جہاں معاشرے میں سخت محنت کے آغاز کی جدوجہد کی، وہیں نوے برس سے زائد تاریخ رکھنے والی اس تنظیم کی بنانے والی زلیخاں شہابی کی اپنی زندگی کی ساٹھ سالہ جدوجہد کا اختتام سنہء ۱۹۹۲ ان کے انتقال پر ہوا، لیکن ان کا لگایا یہ پودا ایک سرسبز درخت کی طرح بطور تنظیم آج بھی کام کررہی ہے، مصائب و وسائل کے سخت دور سے گزر کر پہلے کی نسبت تنظیم “یروشلم” میں اپنے کئی مراکز بنانے میں کامیاب رہی۔ اگرچہ مغربی کنارے West Bank میں مشکل صورتحال میں رہے تاہم “الاتحاد النسائی العربی یروشلم” اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے میں کامیاب رہی اور وہ اب بھی مؤثر طریقے سے کر رہی ہے۔ بالکل ویسے ہی “الاتحاد النسائی العربی رام اللہ” اور “الاتحاد النسائی العربی بیت اللحم” بھی ستر برسوں سے زائد عرصے تک اپنے مشن کو جاری رکھے ہوئے ہے، اس سے قطع نظر کہ فلسطینی قوم کو کتنے ہی سخت حالات کا سامنا ہے۔ انہوں نے حالات سے لڑ کر اپنا راستہ بنایا ہے اور کافی کامیابیاں حاصل کیں اور اپنی سرگرمیوں کو بہتر بنانے کے لیے اپنی مالی صلاحیتوں کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply