کھڑکی کے اس پار۔۔نعیم فاطمہ علوی

کرفیو کا عالم ہے ۔۔سڑک پریا تو مانگنے والے نظر آتے ہیں یا پھر گاڑیوں میں لوگ انجانی منزلوں پر بھاگتے دوڑتے نظر آتے ہیں۔
میں نے علوی صاحب سے کہا چلیں ہوا خوری کے لیے باہر نکلتے ہیں۔۔اپنے علاقے سے باہر G-13کی طرف گئے تو ایک جگہ لوگوں کا ہجوم دیکھ کر میں نے علوی صاحب سے کہا گاڑی روکیں۔۔
وہاں ۔۔۔ایک بڑا سا بورڈ لگا ہوا تھا جس پر لکھا تھا “ بحریہ دستر خوان”
ایک لمبی لائن تھی غریب لوگوں کی جس میں بچے جوان اور بوڑھے سبھی شامل تھے۔لائن سے ہٹ کے جو لوگ کھڑے تھے ان کے ہاتھ میں ایک ایک پلیٹ چاولوں کی تھی ۔نہ ماسک نہ مخصوص فاصلہ۔۔۔۔نہ دوریاں ۔۔۔نہ حفاظتیں
صرف ایک پلیٹ چاولوں کے لیئے زندگی داؤ پر لگا دی؟
کیا زندگی کی قیمت ایک پلیٹ چاول ہے؟

ان کو دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔اور میرا دماغ سوالات کی آما جگاہ بن گیا۔
کیا بھوکا انسان جس کے پاس خواب خیال احساس جذبات علم و آگہی ہاتھ پاؤں آنکھیں دماغ سب کچھ ہے وہ اسے ایک پلیٹ چاول پر قربان کر سکتاہے؟
دل تو چاہا لائن میں لگ کر بھوک کے کرب کو محسوس کرکے دیکھوں۔۔”مگربسیار خوری میں بھلا بھوک کے کرب کو کیسے محسوس کیا جا سکتا تھا”۔۔
گھر پہنچی تو میری یادیں مجھےآج پھر اس دور میں لے گئیں جب یہ سب گھر بن رہے تھے۔

گھر کے ساتھ جڑے خانہ بدوشوں سے میری دوستی ہو گئی  تھی،اور میں روزشام کو چھت پہ جا کر ان کے گھروں میں جھانکتی رہتی تھی۔۔
دن بھر کام کرنے کے بعد ان کی مزدور خواتین جو ان کے ساتھ ہی مزدوری پر جاتی تھیں لکڑی کی آگ جلا کر کھانا پکانے میں مصروف ہو جاتیں ساری فیملی چولہے کے ارد گرد بیٹھ کر کھانا کھاتی۔اور پھر یہ لوگ دن بھر کے تھکے ہارےسر شام ہی سو جاتے۔

ان کے ہاں ملا جلا ماحول تھا۔۔نہ کوئی  پردہ نہ جوان لڑکیوں کی حفاظت کا کوئی  سلسلہ، مخلوط طرز زندگی میں کسی گناہ ثواب کے احساس کے بغیر یہ لوگ صدیوں پرانی مشقت بھری زندگی گزار رہے تھے۔گرمیوں میں مچھروں کی بھر مار میں کھلے آسمان تلے چاپائیوں پر یہ لوگ سو جاتے ۔

یہیں میل ملاپ یہیں ہر سال نئے بچے کی آمد ۔۔یہیں الزام تراشیاں۔۔ یہیں مجرمانہ کاروائیاں۔۔یہیں محبتیں یہیں محبتوں میں سلگتے جذبات کی بھڑکتی بجھتی پیاس ۔۔۔

ان کے گھروں میں مجھے اکثر ٹھیکیدار اکڑ کر بیٹھا ہوا نظر آتا۔ہر کوئی  اس کی ناز بردار یوں میں لگا رہتا۔ خواتین تو مکھیوں کی طرح اس کے آگے پیچھے پھر تی رہتیں ۔ٹھیکیدار ہی انہیں کام دلاتا اور اسی کام کی مزدوری سے ان کا چولہا جلتا ۔۔

میں اکثر فارغ ہو کر پانی بھرنے والی ان خواتین سے باتیں بھی کیا کرتی تھی۔اس لیئےان سے کافی بے تکلفی بھی ہو گئی  تھی۔

انہی خواتین کی مخبری سے میں نے یہ منظر بھی دیکھا کہ یہی ٹھیکیدار اکثر جوان لڑکیوں کو بنا سنوار کر شام کے وقت گاڑی میں بٹھا کر لے جاتا اور پھر نجانے رات کے کس پہر چھوڑ بھی جاتا ۔
عورتیں اپنی ضرورتوں کی سولی چڑھ کر سر شام ہی تیار ہوجاتیں سرخی پاوڈر لگاتیں اور ٹھیکیدار کی گاڑی میں بیٹھ کر کہیں چلی جاتیں ۔میں کچھ عرصہ تو یہ تماشا دیکھتی رہتی اور پھر اکثر ایسی عورتوں کا پانی بند کر دیتی ۔

مگر علوی صاحب یہاں بھی مزاحمت کرتے ہوئے مجھے قائل کر لیتے کہ تمہیں ان کے کردار سے کیا لینا دینا۔۔
ان پر نہ تواسلام اترا تھا اور نہ ہی کوئی  شریعت نہ دین نہ مذہب۔۔
صرف بھوک افلاس اور غربت ہی ان کا دین اور ایمان تھا۔

خیمہ بدوش بستی سے ہٹ کر بالکل الگ تھلگ میلے کچیلے کپڑے اور پلاسٹک سے بنی ایک جھونپڑی تھی جس میں ایک تنہا عورت رہتی تھی ۔
شاید دن بھر مانگتی پھرتی تھی اور رات کواپنی اس جھونپڑی میں آ کرسو جاتی تھی ۔سخت آندھیاں بھی آئیں سردی کا موسم بھی رہا زالہ باری بھی ہوئ ۔شدید گرمی سے بھی دو چار ہونا پڑا مگر یہ عورت وہاں سے ٹس سے مس نہیں ہوتی تھی۔

کہاں سے آئی ۔۔کسی رشتے سے وابستہ رہی یا نہیں ۔کوئی  رشتے دار تھا یا نہیں ۔ہوا سے اُڑتے ان دور دیوار میں وہ کہاں تک محفوظ تھی ۔
میں یہ عقدہ کبھی حل نہ کر پائی ۔۔وہ کسی سے بے تکلف نہیں ہوتی تھی کسی سے بات نہیں کرتی تھی ۔ذہنی مریض بھی نہیں تھی۔وہ کئی  سال یہاں رہی۔مگراسکا معمول یہی رہا۔میں نے اپنی مدد گار کو کئی  دفعہ کہا کہ اسے بلا کر لائے۔مگر وہ میرے بلاوے پر بھی نہیں آتی تھی۔

انہی گلیوں میں اچانک ایک گونگی عورت بھی آ کر رہنے لگی تھی جس سے متاثر ہو کر میں نے اپنا افسانہ گونگی لکھا۔۔
سب کے ساتھ تو میں تعلق نہیں رکھ سکتی تھی البتہ اپنے گھر کے ساتھ جڑے آمنہ اور یوسف کے ساتھ مجھے ہمدردی سی ہو گئی  تھی۔وہ سات مہینے کے بچے کو تین سال کے بچے کی سپردگی میں چار پائی  کے ساتھ کپڑے کا جھولا بنا کر اس میں ڈال کر مزدوری کرنےچلی جایا کرتی تھی ۔اور پھر بیچ میں بچے کو دودھ پلانے بی آتی۔

کبھی تو وہ دونوں بچےہی روتے رہتےاور کبھی تین سال کا بچہ کھیلتا کھیلتا کہیں دور چلا جاتا اور جھولے والے بچے کے ارد گرد کتے بلیاں اعتماد کے ساتھ یوں پھرتی رہتیں جیسے وہ انہی کا بچہ ہے۔

ایک دن میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ فیڈر پر سینکڑوں مکھیاں بھنبھنا رہی ہیں اور وہ بچہ ہاتھ پاؤں مارتا ہوا کبھی منہ میں ڈال لیتا اور کبھی منہ سے فیڈر نکل جاتا ۔مجھ سے یہ حالت دیکھی نہ گئی  اس کے بعد میں اپنی مددگار کو بھیج کر کچھ نہ کچھ ان بچوں کو کھلا دیتی۔ مجھے ان سے اس لیئے بھی ہمدردی تھی کہ انہوں نے ہمارے گھر کی تعمیر میں بھی حصہ ڈالا تھا۔

ایک دن میں نے آمنہ سے کہا لوگوں کے گھر بناتے ہوئے تم لوگوں کو اپنا گھر بنانے کی خواہش نہیں ہوتی کہنے لگی باجی ہم سب کام پر نکل جاتے ہیں کچھ پس انداز کرتے ہیں تو وہ چوری ہو جاتا ہے ۔بچائیں تو کہاں رکھیں۔۔میں نے کہا میرے پاس رکھ لیا کرو۔اگلے دن ہی وہ کچھ سونے کے زیورات اور پیسے لےکر آ گئ ۔مجھے سب محلے داروں نے اور خیر خواہوں نے روکا کہ کل کلاں کو اصل زر سے دگنے کا مطالبہ کرکے محلہ اکٹھا کر لیا تو کیا کرو گی ۔

خوامخواہ بدنامی ہوگی مگر میں وعدہ کر چکی تھی اور سو چ لیا تھا کہ اگر ایسا کئی  مطالبہ ہوا تو جو مانگے گی دے دوں گی۔۔
اس کے بعد وہ میرے پاس پیسے جمع کرتی رہی ہم نے اس کا الگ بیگ بنا دیا تھااور آ خر ایک دن اتنے پیسے ہو گئے کہ اس نے اپنے گاؤں میں ایک چھوٹا سا پلاٹ خرید لیا۔اس کے بعد جمع کرتی رہی اور پھر ایک دن چار دیواری بھی بنا لی ۔اور یوں ایک دن اس کا گھر بن ہی گیا مجھے اس کا گھر بننے کی بہت خوشی ہوئی ۔۔

سخت سردی کا موسم تھا ۔۔کہ اچانک کسی ایک خیمے میں آگ لگ گئی  وہ آگ پھیلتی پھیلتی کئی  خیموں تک پہنچ گئی ۔ان کی چیخ و پکار بارش کے شور میں دب گئی  اور مجھے رات بھر معلوم ہی نہ ہو سکا ۔صبح اٹھ کر پتہ چلا کہ کوئی  جانی نقصان تو نہیں ہوا البتہ کئی  گھروں کا سامان جل کر خاک ہو گیاہے۔سردی اور بارش میں وہ بیچارے مجبور اور بے بس بیٹھے دیکھ کرسب سے پہلے میں نے اپنے گھر سے سامان نکالا پھر اپنی کچھ سہلیوں کو فون کیا میری دوست عظمی تو فورا ً لنڈا بازار گئی  اور گاڑی بھر کر سامان لے آئی  ۔جن میں گدے اور رضائیاں بھی تھیں اور یوں میری سب سہلیوں نے مل کران کی حسب توفیق مدد کی۔

میری مددگار بیمار ہوگئی  اور مجھے صفائی  کی بہت مشکل ہوگئی ۔ انہی دنوں ان خیموں میں ایک بہت بڑا خاندان بھی آکر رہنے لگا تھا جن کے مرد سائیکلوں پر فرنیچر بیچا کرتے تھے اور خواتین اپنے گھر کے کام کرتی تھیں وہ مزدوری پہ نہیں جاتیں تھیں۔کیونکہ یہ لوگ عورتوں سے مزدوری کروانا برا سمجھتے تھے۔ان کی خواتین برتن اس شاندار طریقے سے دھوتی تھیں کہ سلور کے برتنوں کو شیشہ بنا دیتی تھیں۔ان کا سارا دن کھانا پکانے اور برتن دھونے میں ہی گزرتا ۔میں نے سوچا یہ صاف ستھری خواتین ہیں انہیں صفائی  کے لیے بلا لیتی ہوں۔میں نے ان میں سے ایک جوان لڑکی کو بلایا اور پوچھا صفائ کروگی کہنے لگے جی باجی کیوں نہیں۔۔۔
وہ اندر آئی  تو میں اسے صفائی  کا بتا کر خود کسی اور کام میں مصروف ہو گئی  ۔
تھوڑی دیر بعد دیکھا تو وہ ماتھے پر ہاتھ رکھ کر بیسمنٹ کے فرش پر بیٹھی کچھ سوچ رہی تھی ۔
میں نے پوچھا کیا سوچ رہی ہو بشیراں!
وہ خاموش رہی۔۔
میں نے دوبارہ پوچھا
تو کہنے لگی باجی میں سوچ رہی ہوں
اللہ کی شان دیکھو ہمارے پاس رہنے کے لیئے ایک انچ جگہ نہیں۔۔۔اور آپ صرف دو لوگ اتنے بڑے گھر میں رہتے ہیں۔
میں تو کانپ گئی
اور مجھے بہت خوف آیا اس کے بعد وہ پوچھتی رہی باجی کوئی  اور کام۔۔۔
مگر میں نے اسے دوبارہ کبھی نہیں بلایا

گھر بن گیا تو ایک دن یونہی ہم فیض آباد کی طرف واک کرنے نکل گئے اس علاقے میں نئے نئے کام شروع ہو رہے تھے لہٰذا بہت تجسس ہوتا تھا کہ دیکھیں کیاکیا نیا ہو رہا ہے۔
واک کرتے ہوئے میں نے دیکھا میراگھر بنانے والا ایک مزدور شیر خان سڑک کنارے لیٹا ہوا ہے نزدیک کھو کھا تھا اس سے پوچھا تو کہنے لگا اس کا کوئی  گھر نہیں دن بھر مزدوری کرتا ہے رات کو اسی کھوکھے کے پاس لگے تندور سے روٹی کھا کرسوجاتاہے۔

گھر آئی  تو نیند مجھ سے کوسوں دور چلی گئی ۔۔اور میں بستر میں منہ چھپا کر آنسو بہاتی رہی ۔۔۔علوی صاحب مجھے سمجھاتے رہے کہ دنیا میں لوگ اسی طرح رہتے ہیں۔تم ہر چیز کو ذہن پر سوار کر لیتی ہو ۔۔مگر میں سوچتی رہی میرے گھر کے در و دیوار بنانے والے کے پاس دو گز زمین بھی نہیں جہاں وہ رات گزار لے۔۔
اگلے ہی دن میں اس کے پاس گئ اور بغیر کوئی  تحقیق کیےاسے گھر میں ایک الگ سا کمرہ جس کا دروازہ باہر کھلتا تھا دے دیا۔۔علوی صاحب نے بھی کچھ نہیں کہا۔ ان کا خیال تھا غریب بندے کی کیا تحقیق کرنی؟ کیا کر لے گا بے چارہ ؟

Advertisements
julia rana solicitors

سب ملنے والوں نے ڈرایا کہ تمہارے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں خدا کا خوف کرو ۔
میں ڈرتی رہتی تھی مگر میں نے اس کا بہت خیال رکھا۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ میرے بچوں میں بھی غریب پروری کا جذبہ  پیدا ہوا ۔میرے بچے بھی اس کا بہت خیال رکھتے تھے ۔اور شیر خان نے بھی مجھے کبھی کسی شکایت کا موقع نہیں دیا تھا۔
میں تمام دن کا تھکا ہوا تو تمام شب کا جگا ہوا
ذرا ٹھہر جا اسی موڑ پر تیرے ساتھ شام گزار لوں!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply