پاکستانی مسیحی کا کھتارسس/چند معاشی سفارشات۔۔اعظم معراج

پاکستان میں شعبہ صفائی سے وابستہ اٹھانوے فیصد افراد کا تعلق پاکستان کے 33لاکھ مسیحیوں اور پانچ لاکھ شیڈول کاسٹ ہندوؤں میں سے ہے۔گوکہ ان میں پہلے روسں
، امریکہ اور اب ہمارے دور اندیشوں کی کوشش سے ہزاروں افغانی بھی شامل ہوےہیں۔اور اب گیلانیوں قریشیوں، کھروں گورمانیوں، خاک وانیوں ، مخدوموں ،نوابوں،جاگیرداروں
اور دیگر استحالی گروہوں کی مسلسل کوششوں کی بدولت سرائیکی مسلمانوں کی بھی بڑی تعداد برصغیر میں گالی کی حیثیت اخیتار کیے ہوئے بظاہر اس مقدس پیشے سے وابستہ ہوچکے ہیں۔۔ لیکن پھر بھی پاکستان کے تقریباً 154اضلاع میں ہزاروں میونسپلٹیوں،کمیٹیوں اور سینکڑوں کنٹونمنٹ بورڈز کے زیِر انتظام میں صفائی،ستھرائی اور نکاسی آب وسیورج کا انتظام ہندوؤں اور مسیحیوں کے گندے، پاکیزہ متضاد  ہاتھوں میں ہے۔

افغانی اور سرائیکی ابھی معاشرے میں وہ اچھے جانوروں سے بدتر اعلیٰ وارفع حیثیت نہیں حاصل کرسکے، جو برصغیر کے ان قدیم بیٹوں کے مقدروں میں آریاؤں نے لکھا ہے۔ اس کرونا بحران کے معاشی اثرات کو بھانپتے ہوئے روز رات ٹی وی مالکان کی ہدایت اور اشاروں کے مطابق اینکر اس قوم کی معاشی اخلاقی،تعلیمی ،شعوری فکری سیاسی تہذیبی،سماجی تباہی وپستی کے اب تک کے ذمہ داروں میں سے چند کو بلا کر معاشی خطرات سے بچاؤ کے لئے مشورے مانگتے ہیں۔

ایسے میں مجھے بھی لگا، اس دانش کی قحط الرجالی دور میں مجھے بھی کچھ الٹا سیدھا ہانکنا نہیں تو لکھنا چاہیے۔جس سے اس ملک کی معیشت کو درپیش خطرات کا مقابلہ کیا جاسکے۔ گو کہ مختلف ادوار میں اوپر لکھے   گئے لاکھوں افراد میں سے تقریباً  ستر پچھتر فیصد سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں سے ان کی پکی نوکریوں کا خاتمہ کردیا گیا ہے۔اور اب یہ علاج، معالجے ودیگر انسانی ضروریات کی مراعات کے بغیر ٹھیکیداری نظام کے زیرِ اہتمام ہزاروں سال پرانے جبر کے نظام کے تحت کام کر رہے ہیںِ۔

جس میں نہ چھٹی، نہ سہولت،مراعات نہ مناسب اجرت، جس سے کافی بچت بھی ہورہی ہے۔ کیونکہ اس غیر انسانی پیشے سے جانوروں کی طرح کام کرنے والے ان اشرف المخلوقات کو انسانی مراعات کی کیا ضرورت ہے۔؟

لہذا  اب یہ اپنے ٹھیکیداروں کے زیر انتظام غیر انسانی،جانوری ماحول میں ہنسی خوشی زندگی گزار رہے ہیں۔اگر باقی سرکاری و نیم سرکاری  اداروں کے ان ملازمین کو بھی ٹھیکیداری نظام میں کردیا جائے تو خطیر رقم کی مزید بچت ہوسکتی ہے۔اس عمل سے نہ کوئی سیاسی جماعت احتجاج کرتی ہے۔نہ ان کی شناخت پر 38 ایوانوں میں براجمان نمائندے جن میں سے کئی تو باقاعدہ ان میں سے ہیں۔ لیکن وہ بھی کوئی آواز نہیں اٹھائے گا،کیونکہ وہ عموماً  ان کے حقوق کے لئے اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کے مالکوں کی خوشامد جیسے انتہائی ضروری کام میں دن رات مصروف ہوتے ہیں۔مسلمان آئین سازوں کو بھی ان سے کسی قسم کی بلیک میلنگ کا خطرہ نہیں ہوتا۔ لہذا وہ بھی چپ سادھے رکھتے ہیں۔ ورنہ آپ نے دیکھا ہو گا جو بھی حکومت نج کاری کی کوشش کرے تو دیگر وہ جماعتیں بھی اسکے خلاف احتجاج کرتی ہیںِ جو چند سال پہلے اس عمل کے گن گارہی ہوتی ہیں۔

لہٰذا حکومت پاکستان کے اس بےضرر عمل سے کروڑوں شاید اربوں کی بچت سے ہم وزیراعظم کی تنگ دستی دور کرسکتے ہیں، پاکستانی عوامی نمائندوں،نوکر شاہی کی زندگیوں میں آسانی پیدا کرسکتے ہیںِ۔ ریلوے پی آئی اے،ودیگر اداروں کے  ہڈ حرام معذوروں کے لئے کچھ کیا جاسکتا ہے۔ کسی اور مخیر کے اڑتیس ارب معاف کیے جاسکتے ہیں۔

وضعداروں کے معاف کروائے قرضوں کا بوجھ کم کیا جا سکتا ہے۔کئی سابق بیمار و مستقبل کے متوقع اعلیٰ  عہدیداروں کی حفاظت کی جاسکتی ہے۔ اور پھر ایوانوں میں تو انکے اپنے38 خیر خواہ بھی تشریف فرما ہیں۔ ان کے حصّے میں بھی تو اچھے ہوٹلوں کے مکھن پینر، ہوائی سفر آتے ہیں۔ اور انکے بچوں کی غیر ملکوں میں تعلیم کا بندوست ہوتا ہے،اور یہ توانکے اپنے ہیںِ، اس طرح یہ ایک طرح سے انکا ہی مسقبل ہے۔

اگر وہ سیاسی پناہ بھی حاصل کرلیں تو انھی کیا  فائدہ ہے۔ وہ پھر وہاں بیٹھ کر بھی انہی کے حقوق کی بات کرتے ہیں۔ انھیں پسماندہ رکھنے سے باہر سے زر مبادلہ بھی خوب آتا ہے۔اور محرومیوں کی خریدوفروخت کی صنعت سے ہر سال خطیر رقم بھی خزانے میں آتی ہے ۔جس سے انکے نام پر پلنے والے انکے مذہبی،سیاسی و این جی اوز چاہے و ہ مقامی یا بین الاقوامی ہوں کہ  نیک بندوں کی زندگیوں میں آسانی پیدا ہوتی ہے۔

ہاں ایک اندیشہ ہے ان اداروں میں مختلف ادارو میں جمہوریت اور پسے ہوئے انسانوں کے حقوق کے لئے جدو جہد کرنے والے جن مسلمان سیاسی جماعتوں کے ورکروں کے نام بطورِ خاک روب لکھوائے گئے تھے۔اور وہ کام کئے بغیر گھر بیٹھے مراعات اور تنخواہیں لیتے تھے۔وہ اعزازیے اور وظائف بمہ مراعات بند ہو جائیں گے۔ خیر قوموں کوبڑے مفادات کے لئے اکثر چھوٹے مفادات قربان کرنے پڑتے ہیں۔اور پھر اس علاج معالجے و دیگر مراعات کی انھیں کیا ضرورت ہے.؟۔

یہ تو ہزاروں سال سے دیوی دیوتاؤں کے معجزوں کے زور پر زندگیوں کی سزا کاٹ رہے تھے۔ اب تو تقریبا ً ڈیڑھ سو سال سے ہزاروں مجسم معجزاتی و کرشماتی شخصیات دن رات انکی زندگیوں میں آسانی کے لئے دعا گو ہیں۔وہ علیحدہ بات ہے ہزاروں سال پہلے ان کے اجداد کا جرم ضعیفی  معاف نہیں ہورہا۔ معافی ان میں سے صرف انھیں ہی ملی جنہوں نے فکر سے بوئے ہوئے بیجوں سے اگنے والے مجسم معجزوں یعنی تعلیمی اداروں سے شعور، عمل، محنت ،ریاضت ،فراست سے ضعیفی ختم کی۔

لہذا  اس کرونا بحران کے لئے ان میں سے جن کو یہ مراعات دستیاب ہیںِ ،ان کو بھی فوراً  ختم کیا جائے۔ ورنہ ممکن ہے اس کرونائی دور میں چند سر پھرے انکے لئے حفاظتی انتظامات کی فضول خرچیوں کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کردیں ۔اور ایک اور فضول خرچی گلے پڑ جائے۔ اس لئے فوراً غیر انسانی ماحول میں کام کرنے والے جانور نما انسانوں یا انسان نما جانوروں پر فضول خرچیوں کا یہ سلسلہ بند کیا جائے۔ اور اسے فلاحی ریاست کے کسی کارآمد طبقے کی فلاح پر لگایاجائے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تعارف:اعظم معراج پیشے کے اعتبار سے اسٹیٹ ایجنٹ ہیں ۔15 کتابوں کے مصنف ہیںِ نمایاں  کتابوں میں پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار، دھرتی جائے کیوں، شناخت نامہ، کئی خط ایک متن پاکستان کے مسیحی معمار ،شان سبز وسفید شامل ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply