تعصب کے پنگھوڑے میں خوابیدہ قومی وقار۔۔۔ عامر فاروق

نیوزی لینڈ کی واپسی اور انگلینڈ کی دورہ منسوخی پر ٹرولنگ کو حکومت کے حامیوں نے دل پر لے لیا اور حسب روایت حب الوطنی کے ڈنڈوں اور دُروں سے ٹرولز کو سیدھا کرنے کی کوشش کی۔

گالیاں دیں۔ غیر ملکیوں کے حوالے دیے کہ فلاں یہ اور یہ کہہ رہا ہے لیکن مقامی بے غیرت ایجنٹ پتہ نہیں کس کا ایجنڈا پروموٹ کر رہے ہیں۔ انہیں شرم نہیں آتی۔ یہ عمران خان کی بے عزتی نہیں پاکستان کے وقار کا مسئلہ ہے۔ یہ غدار کس کے ہے رول پر ہیں… وغیرہ وغیرہ۔

ایک دوست کو کہا کہ تھوڑا ٹھنڈا کر کے کھاؤ بھائی۔ ضروری نہیں کہ جس طریقے سے تم اس واقعے پر رد عمل دے رہے ہو سب اسی طریقے سے ری ایکٹ کریں۔ کوئی گالی دے کر ساڑ نکالتا ہے، کوئی غیر ملکی سازش کو کوستا ہے، کوئی اپنی حکومت کے لایعنی دعوؤں پر تپتا ہے تو کوئی پوچھتا ہے باہر والوں کی سازش بجا لیکن اندر والے کیا کر رہے ہیں۔ مزید برآں یہ بھی ضروری نہیں کہ جو تیرے طریقے سے ردعمل نہ دے اس کی وطن سے محبت مشکوک بلکہ غداری بھی ثابت ہو جائے۔

لیکن پہلے ایسے معاملات میں کس نے دلیل مانی جو میرے دوست مانتے۔ سو لگے رہے وہ غداروں کی گوشمالی میں اور “غدار” بھی بڑ بولی حکومت کو جگتیں مار مار اپنی فرسٹریشن نکالتے رہے۔

اب کل سے ایک نیا قضیہ شروع ہوا نواز شریف کو لاہور میں کووڈ ویکسین لگائے جانے کا۔ میں منتظر رہا کہ وہ سارے دوست جن کو اپنے جیسے ہی پاکستانی شائقین کرکٹ کی ٹرولنگ میں ملکی وقار پر ایٹم بم گرتا نظر آتا تھا وہ شاید اس پر بات کریں۔ تشویش کا اظہار کریں کہ یہ کیا ہو رہا ہے بھائی؟ کوئی حاکم، وزیر، مشیر ۔۔۔ کوئی تو جواب دے۔

مڈل ایسٹ سے لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی وطن ا کر بیٹھے ہوئے ہیں، ان کی جمع پونجی خرچ ہو چکی ہے، وہ سفری پابندیاں اٹھنے کے منتظر ہیں کہ واپس جا کر اپنے گھر والوں کی روزی روٹی کا بندوبست کریں۔

ایسے میں یہ خبر کہ خفیہ کارکردگی والے صوبے دار بزدار عرف وسیم اکرم پلس کی راجدھانی میں ویکسین کی جعلی انٹری اور اس پر سرٹیفیکیٹ جاری ہو رہے ہیں۔ اور اس دیدہ دلیری کے ساتھ کہ کسی غیر معروف شخص کو نہیں بلکہ تین بار وزیر اعظم رہنے والے شخص کو ریکارڈ میں ویکسین لگا دی گئی جو لندن میں ہے اور حکومت کے نان سٹاپ پٹ سیاپے کی وجہ سے ہر روز اخبارات کے صفحہ اول پر فیچر ہوتا ہے۔ یہ خبر پاکستان کے مخالفوں کو ہی نہیں،حمایتیوں کو بھی بے اعتباری اور پابندیوں میں اضافے کا بہترین گراؤنڈ مہیا کرتی ہے۔

وجہ واضح ہے کہ اس وبا کے حوالے سے دنیا حساس اور خوف ذدہ ہے۔ اور جس طرح پابندیوں نے اچھی خاصی معیشتوں کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے (ہم تو پہلے ہی کسی شمار قطار میں نہیں) ایسے میں جعلی ویکسی نیشن کی خبر سیدھا سیدھا دنیا کو دعوت دینے والی بات ہے کہ ہمیں اٹھا کر وبا ختم ہونے تک ریڈ لسٹ میں ڈال دو۔ ہم نہیں جاتے باہر اور کوئی ہماری طرف نہ ائے، اخے نہ ہم کسی کے نہ ہمارا کوئی۔ گھر بیٹھے بیٹھے ہی بھوک اور باہمی نفرت کی برکت سے آپس میں لڑتے مرتے رہیں گے۔

لیکن میری حسرت حسرت ہی رہی۔ جن دوستوں کو کیویز کی واپسی اور انگلینڈ کے انکار پر رمزوں والے راجے اور اس کے باس کی ٹرولنگ کیے جانے پر غصہ تھا وہ سارے دم سادھے بیٹھے ہیں۔ لگتا ہے یہ تباہ کن خبر پڑھی نہیں یا اگر پڑھی ہے تو کان لپیٹ کر سائیڈ پر ہو گئے ہیں۔

سونے پر سہاگہ، حکومت کے پہلے اقتصادی اور اب منصوبہ بندی کے عالم چنے نے ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اس پر تعجب نہیں ہوا۔ کیونکہ یہ (سیاسی حریف) جعل سازی کے عادی ہیں۔ اس احمقانہ اور غیر ذمہ دارانہ بات پر حاضرین نے تو تالیاں پیٹیں ہی کہ اکثر مجمعوں میں لوگ بغیر سوچے سمجھے تالیاں بجا دیتے ہیں لیکن میرے قومی وقار کی فکر میں غلطاں دوست بھی ٹو بی دلہنوں والے انداز میں خاموشی نیم رضامندی کی تصویر بنے رہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ویکسینیشن کے سسٹم میں فرضی انٹری کی گنجائش ہونے اور اس کو روکنے کا کوئی بندوبست نہ ہونے کی خبر سامنے آنے پر حکومت فوراً حرکت میں آتی۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی اور کووڈ کے مقابلے کے لیے کثیر الوزارتی حکومتی ٹیم کے سربراہ کو تشویش ہوتی اور وہ جعل سازی کے امکان کے سدباب کو سنجیدگی سے لیتے۔ خبر باہر آنے سے ہونے والے نقصان کے ازالے کی فکر کرتے۔ لیکن اے بسا آرزو ۔۔۔۔

الٹا اپنی حکومت، اپنی ٹیم اور اپنے ہی کام میں بد ترین خامی اور سنگین نقص سامنے آنے پر کھسیانی بلی بن کر سیاسی مخالف کو جگت مار دی۔ کوئی پریشانی ان کو نہ تھی کہ ایسے واقعات سے ان کی ویکسی نیشن کا اعتبار باہر کی دنیا میں کیا رہ جائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

قومی وقار جو چند روز پہلے شدید خطرے کی زد میں تھا آج تعصب کے ہنڈولے میں مزے سے ہلکورے لیتے ہوئے میٹھی پرسکون نیند سو رہا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply