ارشاد ہوا کہ “اے نبی! آپ کے اردگرد بتہیرے منافق ہیں جنہیں آپ نہیں جانتے، مگر ہم جانتے ہیں”، سورہ توبہ کی یہ آیت کیا ان بقراطوں کے لیے کافی نہیں جو آئے دن لوگوں کے منافق ہونے کا فیصلہ صادر کرتے ہیں؟
دلوں کی کیفیت سے کون واقف ہو سکتا ہے مگر خالقِ ارض و سماوات۔ انبیاء کو بھی یہ فضیلت نہیں بخشی جاتی کہ وہ لوگوں کے دلوں کا حال پڑھ سکیں، مگر اب رسالتمآبﷺ کی امت میں ایک ایسا گروہ بھی ہے جو دلوں کے حال جاننے پر قادر ہو گیا ہے، معلوم نہیں کہ اس کو جہالت سے تعبیر کرنا مناسب ہو گا یا کم علمی کا زعم کہنا بہتر رہے گا۔
بات منافقت تک اگر تھمتی تو شاید چارہ گر ی ہوسکتی، لیکن اب تو لوگ ایک دوسرے کو مردود بھی ٹھہرانے لگ گئے ہیں، کل ایک بقراط نے لکھا تھا “سنا ہے کہ مردود و منافق اب کپڑوں کا برانڈ لانچ کر رہا ہے”، یہاں مردود و منافق سے مراد مولانا طارق جمیل ہیں۔۔مولانا سے دسیوں باتوں پر اختلاف ممکن ہے ، مگر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ وہ منافق یا مردود ٹھہرائے جائیں؟
ہمارے ہاں ایک عجب ذہنیت پروان چڑھ چکی ہے کہ عالمِ دین مافوق الفطرت ہونا چاہیے۔ جیسا کہ اس کی داڑھی لمبی ہو، آدھی پنڈلی ہر وقت ننگی رہے، کپڑے بوسیدہ ہوں یا زیادہ سے زیادہ بالکل معمولی، دنیا سے قطع تعلق ہو چکا ہو، ذریعہ معاش اس کا کچھ نہ ہو، ایک جھونپڑے میں رہتا ہو، بیوی بچوں کی کچھ فکر نہ کرتا ہو، اور غلطی یا گناہ اس سے کبھی سرزد نہ ہوا ہو، وغیرہ۔
معاف کیجیے گا اگر آپ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ ایک عالمِ دین ان خصوصیات کا حامل ہونا چاہیے تو آپ سے بڑا احمق اس کائنات میں کوئی نہیں، دنیا ہی نہیں بلکہ کائنات میں بھی ۔ بشری تقاضوں سے فرار کیسے ممکن ہے، انبیاء کے سوا کون ہے جس سے غلطی یا گناہ سرزد نہ ہوا ہو، بلکہ ہم تو آج تک اپنے باپ یعنی پہلے نبی آدم کی غلطی کی سزا بھگت رہے ہیں، اسلام نے کبھو حصولِ دولت پر پابندی نہیں لگائی، دینِ کامل نے تو لوگوں کو اس بات پر ابھارا ہے کہ حلال رزق کے لیے تگ و دو کی جائے۔
اب اگر مولانا طارق جمیل کپڑوں کا برانڈ لانچ کر رہے ہیں تو درویش یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ لوگوں کو اس سے کیا مسئلہ ہے، مولانا اگر کوئی خلافِ شریعت کام کرتے یا آئینِ پاکستان کی حدود پامال کرتے تو درویش بھی دشنام طرازوں کی صف میں شامل ہو کر زہر آلود نشتر چلانا شروع کر دیتا، لیکن ایک کاروبار شروع کرنے پر کیسی تنقید، یہ فراست جو مولانا کے برانڈ لانچ کرنے پر سوشل میڈیا کی وادیوں میں جھلک رہی ہے اگر سیاستدانوں، جرنیلوں، یا بیوروکریٹس کے رزقِ حرام کمانے پر بھی دکھائی جائے تو کیا عجب کہ کرپشن کی دریا کے پانی کی طرح بلند ہوتی شرح کم ہونا شروع ہو جائے۔
بیچارے حسن نثار کے بالوں میں یہ کہتے کہتے اب چاندی اتر آئی ہے کہ اس قوم کا مسئلہ قتصادیات کا نہیں بلکہ اخلاقیات کا ہے، غالب گماں یہی ہے کہ آنے والے دو تین سو سالوں تک یہ مسئلہ برقرار رہے گا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں