براعظم یورپ،جنگوں کا پرانا گڑھ۔۔محسن پاک آئین

رہبر معظم انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 28 مئی 2022ء کے دن اراکین پارلیمنٹ سے ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے فرمایا تھا: “یورپ دنیا کا سب سے بڑا جنگوں کا گڑھ رہا ہے۔ میری ذاتی تحقیق کے مطابق، جو ناقص بھی ہو سکتی ہے، دنیا میں براعظم یورپ کے رقبے جتنا کوئی اور ایسا حصہ نہیں ملتا جہاں تاریخ کے دوران اس قدر جنگیں رونما ہوئی ہوں۔ یورپ جنگی رجحانات کا مرکز ہے۔” یورپ میں جنگوں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ رومی سلطنت کے دوران 800 عیسوی سے شروع ہونے والی جنگیں تقریباً تین صدیوں تک جاری رہیں اور 1050 عیسوی تک چلتی رہیں۔ مشرقی روم میں ہونے والی جنگوں کے اثرات شام اور بین النہرین کے مسلمانوں پر بھی پڑے۔ یورپ میں ان جنگوں کے دو بنیادی محرکات سرزمین میں وسعت اور عیسائی دین کو پھیلانا تھا۔

1337 عیسوی میں برطانیہ کے بادشاہ ایڈورڈ سوم نے اپنی حکومت کا دائرہ مزید پھیلانے کی غرض سے فرانس کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ اس وقت فرانس پر فلپس ششم کی حکومت تھی۔ ایڈورڈ خود کو فرانس کا بھی مالک سمجھتا تھا لہذا یوں ان دو یورپی ممالک میں جنگوں کا ایسا سلسلہ شروع ہو گیا جو اگلے 116 برس تک جاری رہا۔ اس طویل عرصے میں برطانیہ نے کرسی، پواتیہ اور ایزنکورت جیسے علاقوں پر قبضہ کر لیا لیکن 1453 عیسوی میں جان ڈارک کی سربراہی میں فرانسیسی فوج نے برطانیہ کو یہاں سے بھی پیچھے دھکیل دیا۔ 1095ء میں پاپ آربین دوم نے مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگوں کا اعلان کر دیا اور عیسائیوں کو ترغیب دلائی کہ وہ فوجی طاقت کے بل بوتے پر فلسطین اور بیت المقدس پر مسلمانوں کا قبضہ ختم کر دیں۔
اس اعلان کے بعد اسی سال ایک عظیم فوج تشکیل دی گئی اور یوں صلیبی جنگوں کا آغاز ہو گیا۔ ان جنگوں میں بے شمار انسان قتل ہوئے۔ اگرچہ صلیبی فوج نے 1099ء میں بیت المقدس پر قبضہ مکمل کر لیا تھا لیکن جنگوں کا یہ سلسلہ 1250ء تک چلتا رہا۔ ان مزید جنگوں کا مقصد دین عیسائیت کو پھیلانا تھا۔ اس طرح اہل کلیسا نے امن اور محبت پر مبنی حضرت عیسی علیہ السلام کی تعلیمات کو یکسر نظرانداز کر دیا۔ اس کے بعد یورپ مذہبی جنگوں کی لپیٹ میں آ گیا۔ عیسائیوں کے دو بڑے فرقے کیتھولک اور پروٹیسٹنٹ ایکدوسرے کا قتل عام کرنا شروع ہو گئے۔ یہ فرقہ وارانہ جنگیں 1562ء سے 1598ء تک جاری رہیں۔ ان جنگوں کے بانی فرانس کے شاہی خاندان تھے۔

یورپ میں مذہبی فرقہ واریت پر مبنی جنگوں کا دوسرا سلسلہ رومی سلطنت میں موجود کیتھولک اور پروٹیسٹنٹ حکومتوں کے درمیان شروع ہوا۔ یہ سلسلہ 1618ء سے شروع ہو کر تیس سال تک جاری رہا اور 1648ء میں ختم ہوا۔ تحقیقاتی میگزین ہسٹری کے مطابق ان جنگوں اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی قحطی کے نتیجے میں 80 لاکھ کے لگ بھگ انسان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ جنگیں تیس سالہ مذہبی جنگوں کے نام سے مشہور ہیں اور یورپ کی طولانی ترین جنگیں جانی جاتی ہیں۔ یورپ میں انجام پانے والی جنگوں کا ایک اور سلسلہ نیپولین بونے پارٹ کی جانب سے شروع کیا گیا۔ وہ فرانسیسی انقلاب کا ایک فوجی افسر تھا جس نے سب سے پہلے روس پر حملہ کر کے ماسکو پر قبضہ کر لیا۔ نیپولین کے پاس 7 لاکھ افراد کا لشکر تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

بیسویں صدی میں یورپ میں دو بڑی عالمی جنگیں رونما ہوئیں۔ 1914ء میں پہلی عالمی جنگ رونما ہوئی جس میں ایک طرف جرمنی اور اس کے اتحادی جبکہ دوسری طرف فرانس اور برطانیہ تھے۔ یہ جنگ چار سال تک جاری رہی۔ اس جنگ میں 1 کروڑ انسان لقمہ اجل بن گئے۔ ستمبر 1939ء میں جرمنی کے سربراہ ایڈولف ہیٹلر نے علاقائی طاقت بننے کی غرض سے دوسری عالمی جنگ کا آغاز کر دیا۔ دوسری طرف امریکہ، سوویت یونین اور برطانیہ نے مل کر اس کا مقابلہ کیا اور 1943ء میں اسے شکست دے دی۔ اس جنگ میں بھی 2 کروڑ سے زیادہ انسان موت کے منہ میں چلے گئے۔ تاریخی ماہرین کی نظر میں بیسویں صدی کا پہلا نصف یورپ کیلئے جنگ اور تباہی و بربادی کا زمانہ ثابت ہوا۔ ان جنگوں میں حتی ایکدوسرے کی ثقافتی میراث کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
اگرچہ 1950ء کے بعد یورپ میں جنگوں کا سلسلہ تقریباً ختم ہو گیا لیکن یورپی ممالک کے جنگی رجحانات میں کمی واقع نہیں ہوئی اور انہوں نے دنیا کے دیگر ممالک کو اپنے جارحانہ اقدامات کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ ترکی اور یونان کے درمیان جنگ، اسپین میں خانہ جنگی، بالکان کی جنگیں، افریقی ممالک میں جنگیں وغیرہ اس کی چند مثالیں ہیں۔ آج بھی امریکہ اور مغربی ممالک دنیا کے مختلف حصوں میں بدامنی، عدم استحکام اور جنگیں شروع کروانے میں آگے آگے ہیں۔ اس کی ایک مثال یوکرین ہے۔ نیٹو کی جانب سے مسلسل اشتعال آمیز اقدامات نے آخرکار روس کو فوجی طاقت استعمال کرنے پر مجبور کر دیا اور اب پوری دنیا غذائی قلت، انرجی کے بحران، معیشتی بحران اور سکیورٹی خطرات سے روبرو ہو چکی ہے۔بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply