بہو یا مال و دولت۔۔مرزا مدثر نواز

وہ ایک ادارے میں اچھی پوسٹ پر ملازمت کرتا تھا‘ زندگی کے شب و روز اچھے انداز میں کٹ رہے تھے۔ ادارے نے رضا کارانہ علیحدگی کی سکیم متعارف کروائی تو موصوف نے اسے اپنانے کے  لیے اپنی رضا مندی کا اظہار کر دیا۔ اس رضامندی کے پیچھے چھپے حقائق جاننے کے لیے میں نے ان سے دریافت کیا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ آپ نے اتنی جلدی اتنا بڑ افیصلہ کر لیا؟ پہلے تو انہوں نے غیر سنجیدہ جملوں اور مذاق سے ٹالنے کی کوشش کی لیکن جب اصرار کیا تو انہوں نے اتنے بڑے فیصلے کی وجہ کچھ یوں بتائی کہ وہ کرائے کے مکان میں رہتے تھے اور ان کی بیٹیاں سن بلوغت کو پہنچ چکی تھیں اور اپنی تعلیم مکمل کر چکی تھیں‘ اپنا ذاتی گھر نہ ہونے کی وجہ سے ان کی بیٹیوں کے رشتے کسی اچھی جگہ طے نہیں ہو رہے تھے‘ جو بھی رشتہ دیکھنے آتا بعد میں یہ اعتراض کرتا کہ ان کا اپنا گھر نہیں ہے۔ لہٰذا مستقبل میں اس اعتراض کے دفع کے لیے انہوں نے اپنی زندگی کا یہ مشکل ترین فیصلہ کیا تا کہ علیحٰدگی پر ملنے والی رقم سے وہ اپنا گھر تعمیر کر سکیں۔

صدیوں ساتھ رہنے کی وجہ سے ہمارے رہن سہن‘ رسوم و رواج پر آج تک ہندووانہ ثقافت کا غلبہ برقرار ہے۔ دو قومی نظریہ کے مخالفین آج تک انہی عادات و اطوار کو بطور مثال پیش کرتے ہیں۔ صدیق سالک نے اپنی کتاب ”ہمہ یاراں دوزخ“ جو کہ سن اکہتر کی جنگ کے بعد بھارت میں اسیری کے واقعات کی سرگزشت ہے‘ میں بھی اس بات کا تذکرہ فرمایا ہے کہ دوران اسیر ی مشترکہ ثقافت‘ ایک جیسا  رہن سہن‘ ایک جیسی شکل و صورت جیسے وعظ سن سن کر ان کے کان پک گئے تھے‘ بھارتی حکام نے دور و نزدیک سے سرکاری خرچ پر مسلمان اکابر پند و نصائح کے لیے بلوائے‘ بھارت کی منتخب فلمیں (آنند‘ میرا محبوب‘ پالکی وغیرہ) دکھائیں‘ کلچرل شو کا اہتمام کیا تا کہ وہ بھارت کی عظمت‘ وہاں کے مسلمانوں کی خو شحالی‘ سیکولرازم کی ترقی اور بھارت کی امن پسندی کے ساتھ ساتھ ہندوؤں اور مسلمانوں کے مشترکہ ثقافتی ورثے سے بھی روشناس ہو جائیں۔ ایک اور مقام پر لکھتے ہیں کہ ”قید سے رہائی کے بعد پاکستان لے جانے والی ریل گاڑی دہلی کے ریلوے سٹیشن پر رکی‘ میں کھڑکی میں بیٹھا پلیٹ فارم کی رونق دیکھ رہا تھا کہ ایک لال پٹی والا بھارتی افسر آیا اور کھڑکی کے پاس آ کر کہنے لگا ”میرا نام کرنل بالی ہے‘ آپ کہاں کے رہنے والے ہیں؟“ میں جواب دینے کی بجائے اس کو دیکھتا رہا۔ کرنل بالی نے پھر کہا۔ ”آپ راولپنڈی کے رہنے والے ہیں؟“ اگرچہ میرا تعلق راولپنڈی سے نہ تھا‘ پھر بھی میں نے ہوں ہاں کر دی۔ اس پر وہ پرانے رشتے جگانے لگا کہ ”میں بھی پنڈی میں پلا بڑھا ہوں‘ چھاچھی محلے میں ہمارا مکان تھا‘ آپ کا کونسا محلہ ہے؟“ میں نے اسے چھیڑنے کے لیے کہہ دیا ”گوالمنڈی“۔۔۔”اچھا اچھا‘ وہی گوالمنڈی جہاں ہمارے چچا رہتے تھے‘ ضرور آپ کے والد صاحب انہیں جانتے ہوں گے۔ وہ بڑے نیک اور سخی دل انسان تھے۔ کپڑے کا کاروبار کرتے تھے اور مسلمانوں کی بہت مد د کرتے تھے‘ کیوں نہ ہو ہمارے باپ دادا کی یہی ریت چلی آ رہی تھی۔ ہمارے قلبی رشتے اتنے گہرے تھے کہ تقسیم ہند ان رشتوں کو نہ مٹا سکی۔ اب بھی کسی سے اگر ہربنس کا نام لینا تو اشتیاق سے اس کی آنکھوں میں آنسو آ جائیں گے‘ کیوں نہ ہو صدیوں پرانے ثقافتی اور تمدنی رشتے چلے آتے ہیں۔ وہی زبان‘ وہی خوراک‘ وہی جسمانی ساخت‘ وہی عادات و اطوار۔۔۔“

بہر حال مقصد یہ بتانا ہے کہ ہمارے معاشرے پر ہندووانہ رسم و رواج کی اتنی چھاپ ہے کہ ہم آج تک اس کے سحر سے آزاد نہیں ہو پائے۔ ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ لڑکے والے رشتہ دیکھنے لڑکی کے گھر جاتے ہیں‘ لڑکی سیرت و صورت کے اعتبار سے ان کو بھا جاتی ہے‘ تعلیم کے اعتبار سے بھی ڈاکٹر‘ انجنیئر یا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے‘ پاکباز‘ شرم و حیاء کا پیکر‘ مجسمہ حسن‘ سیمابی جسم‘ کتابی چہرہ‘ شِتابی چال لیکن لڑکے والوں کی طرف سے پھر بھی رضامندی کا اظہار نہیں ہوتا‘ آخر کیوں؟

ذرا وجہ ملاحظہ فرمائیے ”باقی تو سب ٹھیک ہے لیکن لڑکی کے والدین غریب ہیں‘ کل کو لڑکی کو کیا دیں گے‘ ان کا گھر کرایہ کا ہے‘ ان کا گھر پرانا ہے‘ دروازہ لکڑی کا بنا ہوا ہے بھلا آج کل لکڑی کے دروازے ہوتے ہیں‘ ہمارا لڑکا بلکہ شہزادہ جب سسرال جائے گا تو کہاں بیٹھے گا‘ ان کے گھر کو جانے والی گلی بہت تنگ ہے‘ یہ تو ہماری بارات کی میزبانی کسی اچھے ہوٹل یا مارکی پر نہیں کر سکتے وغیرہ وغیرہ۔“ ہم تو اپنے بیٹے کا رشتہ کسی امیر کبیر فیملی میں کریں گے تا کہ رشتہ داروں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں اور وہ کہیں کہ بڑی اونچی جگہ ہاتھ مارا ہے۔

یہ سارے اعتراضات وہ ہیں جن کا گواہ میں خود ہوں اور میں نے اپنے کانوں سے سن رکھے ہیں۔ مجھے آج تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ آپ نے لڑکے کی شادی لڑکی سے کرنی ہے یا اس کے ساتھ آنے والے بغیر محنت کے کمائے ہوئے زر کثیر سے‘ آپ نے ایک نیک سیرت‘ عقل و خرد والی اور سلجھی ہوئی بہو کی تلاش کرنی ہے یا رشتہ کی آڑ میں اپنی لالچی طبیعت کو تسکین دینے کے لیے مال و دولت کی؟

بڑے بڑے دیندار حضرات بھی ان معاملات میں بے بس دکھائی دیتے ہیں اور ان فرسودہ و باعثِ عار خیالات کے خلاف علمِ بغاوت بلند نہیں کرتے۔ افسوس کہ ہم دین کے لیے لڑنے‘ مر مٹنے کے لیے تو تیار ہو جاتے ہیں لیکن دین پر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ وہ رہبر کاملﷺ جنہوں نے اپنی امت کی چھوٹے سے چھوٹے معاملے میں بھی رہنمائی فرمائی اور طریقہ بتایا‘ اس سلسلے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ شادی عموماََ چار چیزوں کی وجہ سے کی جاتی ہے‘ حسب نسب کی وجہ سے‘ مال کی وجہ سے‘ حسن و جمال کی وجہ سے‘دینداری کی وجہ سے‘ لیکن تم لوگ دینداری کو ترجیح دیا کرو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لیکن ہمارے یہاں معاملہ اُلٹ ہے۔۔شاید کبھی حالات بدلیں کہ اُمید پر دنیا قائم ہے!

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply