ساحل سمندر کی منظر نگاری۔۔سدرہ محسن

یہ کیا خاموش منظر ہے کیسا سناٹا ہے ۔۔کیا لہریں سرگوشیاں کر رہی ہیں، کیا یہ میرے اندر کی تنہائی کو ابھار رہی ہیں؟یا میرے بنجر دل کو اپنی سنسناہٹ سے سیراب کرنے کو بے تاب ہیں؟
یہاں جو کنارہ ہے بہت کچھ خود میں سموئے بیٹھا ہے، کسی کی یاد، کسی کا خواب، کسی کی جستجو، کسی کی خاموش محبت ، کسی کی آرزو، کسی کی تنہائی۔۔یہ سب کچھ خود میں سموئے ہوئے ہے ،اس سمندر کی گہرائیوں میں سیپ موجود ہیں، جس میں سچ کے موتی پنپتے ہیں۔۔
وہ سچ جن کو ہم
کبھی فراموش کرتے ہیں
کبھی نظر چراتے ہیں
کبھی اس سچ کو اپنی دلیل سے فراموش کرتے ہیں
کبھی وہ سچ جو اپنے اندر دفن کیے دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں
کبھی وہ سچ جو ہم جانتے ہیں لیکن اس سے انجان رہتے ہیں
کبھی وہ سچ جس کو دنیا کے سامنے جھوٹ قرار دیتے ہیں
وہ سچ جو آپ کی ذات اور رب کے درمیان کا معاملہ ہوتا ہے
یوں بہت سے سچ ان سیپیوں میں موتی کی شکل میں پنپتے ہیں۔ جب ان موتیوں تک پہنچیں تو احساس ہوتا ہے کہ ہم تو تخیلاتی دنیا میں یوں مگن تھے کہ حقیقت سے ناآشنا لاتعلق سے تھے۔ اپنے آپ میں یوں گم ، مگن اور اپنے ہر عمل سے یوں دور جیسے کوئی پاؤں سے سمندر کے کنارے پر اپنے نشاں بنائے اور ایک لہر آئے خاموشی سے وہ تمام نشان مٹا جائے۔۔
اب بات لہر کی ہے تو لہر جب نشان مٹاتی ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ قدم اٹھائے ہی نہیں تھے ،در حقیقت یہ نظام کائنات بھی تو ہے جب ہم کوئی نیا فیصلہ کرتے ہیں تو پرانا یوں دھندلا ہوجاتا ہے جیسے کبھی ذات سے منسلک ہی نہیں تھا۔
میں نے رات میں لہروں کی سرگوشی بھی سنی ہے ،کہتے ہیں دیوانے اپنی محبت کو پہچان دینے اور ساتھ محسوس کرنے کو یہاں آتے ہیں اور قدم ملا کر ساتھ نبھانے کی قسمیں اور وعدے کرتے ہیں۔ لیکن مجھے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کی لہریں محبت میں سرشار نہیں ،تنہائیوں کی سدا سناتی ہیں۔ کیا یہ سچ ہے؟ کیا واقعی ایسا ہے؟ یا یہ میرا وہم ہے؟ مجھے یہاں عاشقوں کی عاشقی نہیں بلکہ ادھوری محبت کی داستان دکھائی دیتی ہے۔
بنجاروں کی آوارگی دکھائی دیتی ہے۔
من چلوں کا جنوں محسوس ہوتا ہے
کبھی کبھی وحشت بھی دلاتی ہے
زندوں کو نگلنے اور مُردوں کو اُگلنے تک کا منظر وحشت دلاتا ہے۔ جیسے میں یہاں اپنی محبت کو دفن کرنے اور تنہائی کو ساتھی بنانے آئی ہوں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply