اس سے پہلے کہ تمہارا وقت گزر جائے۔۔۔اسانغنی مشتاق رفیقیؔ

رک کیوں گئے؟ چلتے کیوں نہیں؟ تمہارے پیروں کی وہ تیزی کیا ہوئی؟ کیا تمہارے قویٰ سچ  کمزور ہوگئے یا تم پر سستی غالب آگئی؟

تمہاری  چاپ کی وہ دھمک جس کے تصور سے زمین آج بھی کانپ جاتی ہے کیا قصہ ءِ پارینہ ہوگئی ۔؟ تمہارے گھوڑوں کی سموں کو کیا ہوگیا، کیا اب ان میں دریاؤں پر دوڑنے کی سکت نہیں رہی؟۔ سمندروں کا سینہ چیرنے والی تمہاری کشتیاں، آسمانوں میں شگاف ڈالتی تمہاری دور اندیش نگاہیں، وقت کو اپنی مٹھی میں کرنے کی تمہاری سوچ، کائنات کو انسانیت کے لئے مسخر کرنے کی تمہاری فکر، دنیا میں امن و سکون قائم کرنے اور رکھنے کی تمہاری جدوجہد، کیا تاریخ کی  کتابوں میں دفن ہوگئیں۔؟

کیا تمھیں یاد نہیں کہ تم نے اپنے وقت کے دو عظیم طاقتوں کو زیر نگین کیا تھا۔ کیا تم بھول گئے کہ تمہارے اخلاق اور برتاؤ سے دشمن بھی تمہارے پناہ میں آنے کی تمنا کر تے تھے۔ کیا تم نے سنا نہیں کہ وہ تم ہی تھے جن کی درسگاہیں تعصب سے پاک، جن کی عدالتیں انصاف اور سچائی کی  علم بردار، جن کے علما  حق گو،جن کے دانشور انسانیت نواز، جن کے حاکم فرض منصبی کے لئے حد سے گزرجانے والے، جن کے عوام اطاعت اور بے باکی سے سرشار، جن کے جوان بہادری اور استقامت کے پہاڑ، جن کی عورتیں عفت اور حیا کی مثال تھیں۔۔

ایسا کیا ہوگیا کہ تم میں اب وہ دلیری، وہ ہمت، وہ تڑپ اور وہ طاقت نہیں رہی جو کبھی تمہارا خاصہ تھی ۔

کیا تمہاری شجاعت کو زنگ لگ گیا؟ یا تمہارے دِلوں میں دنیا کی محبت اور موت کا خوف آبسا۔؟

زمانہ بدل گیا، ہر چیز کا معیار بدل گیا، لوگ بدل گئے، موسموں کا مزاج بدل گیا لیکن اگر کوئی نہیں بدلا تو وہ تم ہو۔ اپنے ماضی سے بے پرواہ، صرف اُس کا ماتم کرتے ہوئے، حال سے خوفزدہ، ہر تغیّر سے مشکوک، مستقبل کی کوئی منصوبہ بندی نہیں۔ حالانکہ دنیا کے سرد و گرم کو جتنا تم نے جھیلا ہے اتنا شاید کسی نے جھیلا ہو۔ شروعات میں ہی تمہارے آئین پر خود تمہارے اپنوں نے ایسا شب خون مارا کہ صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی ان کے زخموں سے لہو رِس رہا ہے اور وہ ایسے ناسور بن چکے ہیں کہ شاید ہی دنیا کے کسی مطب میں اُن کی جراحی ہوسکے۔ آلام اور ظلم کی ایسی شدت تم پر برپا کی گئی کہ تمہارا کربلا ظلم کا ایک استعارہ بن گیا۔ ملوکیت کے آہنی پنجوں میں تمہاری خودداری،بے باکی، جراء ت کو کَس دیا گیااور وہ بھی ایسا کہ آج تک تمہیں اس کا احساس نہیں ہوسکا۔سب کچھ رکھتے ہوئے بھی  تم مٹھی بھر مفاد  پرستوں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن گئے۔ اپنے آئین سے غداری کر کے تم نے اپنے اوپر  وہی آئین مسلط کر لیا جس کے خلاف تمہیں کھڑا کیا گیا تھا۔اتنا ہی نہیں تم نے اُسے ہی تقدس کا جامہ پہنا دیا۔ اور پھر ایک دور وہ بھی آیا جب تمہارے اونچے اونچے محلات، تمہاری تہذیب و ثقافت کے نمونے، تمہارے کتب خانے، درس گاہیں، ایک درندہ صفت خانہ بدوش قبیلے کے ہاتھوں   تاراج ہوگئے۔قدرت نے پھر تمہیں  سدھرنے اور سنبھلنے کا ایک اور موقع دیا۔ نئے نئے دروازے تم پر وا ہوئے، لیکن تم نے اسے بھی گنوا دیا۔ تقلیدی سوچ کے ساتھ اس شاندار موقع  کوموقع پرستی اور علاقائی عصبیت کی دہلیز پر بھینٹ چڑھادیا۔ اور پھر تم ٹکڑوں میں بٹ گئے،نہیں بلکہ ، بانٹ دئیے گئے، پھر بھی اپنی اکائی کے کھو جانے کا تمھیں کوئی غم نہیں ہوا۔

ہیہات!ہیہات! آج بھی تمہاری روش وہی ہے جو صدیوں سے رہی ہے۔ حالات کے اتنے تھپیڑے کھانے کے باوجود تم میں کوئی بدلاؤ نہیں آیا۔ ایسا کیوں ہے؟

تم اتنے بے حس کیوں ہوگئے ہو۔ تم میں ماضی کے حوالے سے خود احتسابی، حال کے لئے ایک مضبوط لائحہ عمل اور مستقبل کو لے کر دور اندیشی کی  سوچ کا فقدان ہے۔کیا تمہارے پاس تمہارا آئین اصلی حالت میں نہیں ہے؟۔۔ کیا تم نے اس سے استفادہ کرنا چھوڑ دیا ہے۔

افسوس ہے تم پر، اس سے پہلے کہ قدرت تمہارے تعلق سے کوئی سخت فیصلہ لے لے،سنبھل جاؤ! زمانے کی نبض کو پہچانو!ماضی کے اُن ناسوروں کو جراحی کے عمل سے گزارو جو آج تمہارے جسم کو اندر ہی اندر کھوکھلا کر رہے ہیں۔ دنیا کی کوئی طاقت تمہارا بال بھی بیکا نہیں کرسکتی اگر تم اپنے آئین سے جڑے رہو گے۔ حق و صداقت کے ساتھ ہر قسم کی گروہی، لسانی، علاقائی، خاندانی تعصبات سے اوپر اٹھ کر حال کے لئے ایک لائحہ عمل مرتب کرو۔ تقلیدی ذہنیت کو خیر باد کہہ کر اپنے اندر کی  عقابی روح کو بیدار کرواور مستقبل کے لئے اپنے کردار کو مضبوط کرو۔ اگر تم ایسا کرپائے تو یہ پست ذہنیت اور نفرت پرست لوگ تمہاری  گرد کو بھی نہیں پہنچ سکیں گے۔ تمہارے پیروں سے زمین کھینچنے کی جدوجہد میں یہ خود ہی بے زمین ہوجائیں گے۔ تمہاری  سوچ اور فکر پر پہرہ بٹھانے کے  گھٹیا ارادے لیے ایک دن یہ خود اپنے اوپر ذلت مسلط کرلیں گے کیونکہ یہی قدرت کا قانون ہے۔ لیکن اس کے لئے تمھیں اپنے آ پ کو بلند کرنا ہوگا۔ اوج پر پہنچنا ہوگا۔ علم اور عمل کے ہتھیاروں سے اپنے آپ کو لیس کرنا ہوگا، اپنی ذات اور انا کی قربانی دینی ہوگی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وقت کسی کے لئے کبھی نہیں رکتا۔ جو خواب غفلت میں پڑا رہ گیا سمجھو وہ وقت کے صحرا میں کھو گیا۔ اس سے پہلے کہ  تمہارا وقت گزر جائے اگر سوئے ہوئے ہو تو بیدار ہوجاؤ، لیٹے ہوئے ہو تو بیٹھ  جاؤ، بیٹھے ہوئے ہو تو کھڑے ہوجاؤ، کھڑے ہوئے ہو تو چل پڑو، چل رہے ہوتو ڈورلگا دو۔ تمھیں ہر حال میں اپنی موجودگی کا عملی ثبوت دینا ہے۔ دنیا کو بتانا ہے کہ تم میں ابھی بھی بہت جان باقی ہے۔ وقتی طور پر تم پسپا ضرور ہوئے ہو لیکن میدان سے بھاگے نہیں ہواور نہ بھاگنے کی سوچ رہے ہو۔ صداقت کے لئے استقامت کے ساتھ لڑنے کا ہنر آج بھی تمہیں آتا ہے۔ عدل آج بھی تمہارے لئے شہہ رگ کا درجہ رکھتا ہے اورمظلوموں کی حمایت میں شجاعت کے جوہر دکھانا تم نہیں بھولے ہو۔ پھر دیکھنا یہی لوگ جو آج تمہارے خون کے پیاسے ہورہے ہیں، تمہیں بے گھر کرنے کے لئے منصوبے بنا رہے ہیں، جھوٹ اور فریب سے تمہاری رسوائی کا  سامان مہیا کررہے ہیں، وقت کے ہاتھوں مجبور ہو کر تمہارے سر پر امامت کا تاج رکھیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply